اگر زندوں میں رہنا ہے تو اپنی دنیا آپ پیداکر
پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
52 سالہ بزرگ محمد اخلاق کی دردناک موت کو آج پانچ دن ہوچکے ہیں ۔سیکولرزم کے علم بردار ملک ہندوستان کی کی دھڑتی پر پیش آنے والا یہ واقعہ پوری دنیا کے میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہے ۔ ہر کوئی اسے حیوانیت اور جنونیت سے تعبیر کرتے ہوئے اظہار افسوس کررہا ہے ۔ ہندوستان کے سیکولزم اور ہندو دہشت گردی پر سوال اٹھا رہا ہے لیکن دوسری طرف خود ہندوستان میں اس بے گناہ کی دردناک موت پر سیاست اور ووٹ بینک کا بازار گرم ہوگیا ہے ۔ افسوس جتانے ،جمہوریت کے لئے خطرہ کی گھنٹی قراردینے ، میت کے ورثاء کو تسلی دلانے مجرموں کو کیفر کردار تک پہونچانے اور قانون کو اپنے اختیارات میں لینے والوں کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے سیاست داں مردہ لاش پر اقتدار کی منزل تعمیر کرنے کی منصوبہ سازی میں مصروف ہیں۔ کتا کے بچہ کی موت پر دکھ درد کا اظہار کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے دل سے ہمدردی و غم گساری سلب ہوگئی ہے ۔ ہر چھوٹی بڑی بات کو ٹوئیٹ کرنے اور حکومتی فرائض کو سوشل میڈیا کے ذریعہ انجام دینے کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ نریندر مودی کو اس دردناک سانحہ پر ٹوئیٹر کے ذریعہ اظہار افسوس کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوسکی ہے ۔ جائے حادثہ پر پہونچنا یا فون کرکے اخلاق مرحوم کے ورثاء سے گفتگو کرنا بہت دور کی بات ہے اور ان سے اس کی توقع تھی نہ رہے گی۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی اکھلیش یادو نے میڈیا کی شدید تنقید کے بعد ایک پریس ریلیز جاری کرکے یہ تو ضرور کہ دیا ہے کہ مجرموں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے گی لیکن کب کی جائے گی کیسے کی جائے اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اور نہ ہی انہوں نے اس واقعہ پر زبانی اظہار افسو س تک کیا ہے ۔ حکمراں پارٹی کے لیڈروں میں سے کسی کے جائے حادثہ کا دورہ کرنے کی اطلاع نہیں ہے ۔ یہ بھی یقینی ہے کہ اکھلیش حکومت مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گی بلکہ الٹے مرحوم اخلاق احمد کا جرم ہی ثابت کیا جائے گا کیوں کہ فریج میں موجود گوشت کی فورنسک جانچ کرائی جارہی ہے ، جانچ میں وہ گوشت اگر گائے کا نکل گیا تو یقین جائنے پھر مجرم مرحوم اخلاق کو ہی ٹھہرایا جائے گا کہ اتر پردیش میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہونے کے باوجود یہ گوشت کیسے اور کیوں آیا ؟، یہ قانون کی صریح خلاف ورزی تھی اور اس بناپر اگر کسی کا قتل ہوا ہے تو وہ بجا ہے ۔ اتر پردیش کے ایک لیڈر صاف لفظوں میں یہ بات کہ بھی چکے ہیں کہ گائے کو ذبح کروگے تو خون کھولے گاہی ۔جبکہ مرحوم اخلاق کی بیٹی کا دعوی ہے کہ فریج میں رکھا ہوا گوشت بکرے کا ہے لیکن اسے بیف میں تبدیل کرنا اور فورنسک جانچ کے ذریعہ بیف ثابت کرنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔اور بیف کا گوشت ثابت نہیں ہوسکا تو کیا حکومت ساجدہ کے اس سوال کا جواب دے سکی گی کہ’’ وہ اگر بیف کا گوشت نہیں ہوا تو کیا میرا باپ مجھے لوٹا دوگے‘‘۔
بی جے پی کے کابینی وزیر مہیش شرما نے اپنی اصلیت اور حقیقت کو بیان کرتے ہوئی صاف طور پر کہ دیا ہے کہ یہ منصوبہ بند نہیں بلکہ اتفاقی واقعہ اور غلط فہمی کا نتیجہ تھا ۔ اس الزام میں جن چھ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے وہ اسے رہائی کرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ آئی پی سی کی دفعہ 302 ( قتل ) اور دفعہ 307 (اقدام قتل ) کے تحت درج مقدمہ کو کو دفعہ 304( غیر اردتا قتل ) میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ انہیں اس رات پولس کے ہاتھوں زخمی ہونے والے 22 سالہ راہل کی موت پر بھی شدید افسوس ہے اور پولس کے خلاف کاروائی کے خواہش مند ہیں ۔
مرحوم اخلاق کا قتل کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے بلکہ جس دن اخلاق کے قتل کا واقعہ پیش آیا ہے انہیں دنوں میں دواور قتل کی واردات پیش آئی ہے ۔ ممبئی کے ایک یعقوب نامی نوجوان کو ان کی ٹویٹا کمپنی کے ساتھیوں نے اس بناپر قتل کردیا کہ وہ بقرعید میں گھر گیا تھا اور گوشت کھاکر آیاتھا۔ سوموار کو چھٹیا ں گذاکر وہ کمپنی پہونچا کام کرنے کے لئے لیکن درندوں نے اسے یہ کہتے دائمی نیندکی آغوش میں سلادیا کہ بہت گوشت کھاکر آئے ہو اب ہم تمہارا گوش کھائیں گے ۔اسی دن کانپور کے ایک گاؤں میں کچھ اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا جہاں ایک مسلمان کو بستی والوں نے پاکستانی دہشت گرد قراردے کر قتل کردیا ۔ آئیے ذرا گذشتہ ایک سال کے واقعات کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں ۔ مودی حکومت بننے کے فورا بعد ایک بھیڑ نے پونا کے نوجوان انجیئر صادق شیخ کی جان لے لی ۔ اس کے بعد آسام میں ایک مسلم نوجوان کو جیل سے نکال کر بھیڑ نے ریپ کا فرضی الزام لگاکر دردناک طریقے سے تختہ دار پر لٹکادیا ، بنگلو ر میں غیر مسلم لڑکی کو قرض دینے والے مسلم نوجوان پر ہندو شد پسندوں نے جان لیواحملہ کر کے غیر انسانی طریقے سے زدو کوب کیا ۔ کیا مہیش شرما یہ بتائیں گے یہ تمام واقعات اتفاقی اور غیر ارادتا تھے؟ ۔ بقرعید کے چوتھے دن ،رات کے گیارہ بجے دوہزا ر کی بھیڑ جمع کرنا ، مندر کے لاؤڈ اسپیکر سے یہ اعلان کرنا کہ فلاں جگہ پر گائے ذبح کی گئی ہے سب جمع ہوجائیں اور پھر ایک مسلم گھرکا احاطہ کرکے درندوں کی طرح ٹوٹ پڑنا ، اینٹ ، گڑاسا ،کلہاڑی، چاقو او ردیگر چیزوں سے گھر کے ہر ایک فرد کو مارنا شروع کردینا ، بستر سے گھسیٹ کرباہر نکالنا اورروح نکلنے کے بعد تک جسم پر حملہ کرتے رہنا اتفاقی طور پر کیسے ممکن ہوسکتا ہے ۔
مختلف نوعیت کے فرضی الزامات عائد کرکے انفرادی طو ر پر مسلمانوں کو قتل کئے جانے کے یہ واقعات ہیں جس میں اکثریتی طبقہ کے لوگوں نے بے دردی کے ساتھ قانون سے بے پرواہ ہوکر مسلمانوں کا قتل کیا ہے اور اب تک گذشتہ وارادت کو انجام دینے والے مجرمین میں سے کسی کوبھی سزا نہیں مل سکی ہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ اس طرح کا واقعات کا تسلسل جاری رہے گا ۔ بی جے پی حکومت مسلمانوں کے درمیان خوف وہراس کا ماحول قائم کرنے اور ہندؤوں کی مکمل حمایت حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے واقعات کو انجام دیتی رہے گی ۔ یہ حکومت بڑے پیمانہ پر فسادات کرانے کے بجائے اسی انداز سے انفرادی طور پر قتل کراتی رہے گی کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ فرد واحد کا قتل زیادہ ہنگامہ کا باعث نہیں بنے گا مسلمان اسے ایک شخص کا قتل کرکے ٹال دیں گے ، میڈیا اور اپوزیشن کے لئے بھی یہ باعث تنقید نہیں بن پائے گا دوسر ی طرف ہندوشدت پسندی کی جڑیں مضبوط ہوں گی ۔ ا ن کے حوصلے بلند ہوں گے۔علاوہ ازیں عام انتخابات کے سے اب تک تقریبا 300 سے زائد چھوٹے بڑے فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوچکے ہیں جس میں ہززاویے سے مسلمانوں کا نقصان ہوا ہے ۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہندوستان تاریخ کے بد ترین دور سے گذر رہا ہے ۔ مسلمانوں کا مستقبل انتہائی تاریک نظر آرہا ہے ۔ سیکولزم کی بنیاد پر انصاف کی امید لگائے ہوئے 68 سالوں کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن سوائے ظلم کے انصاف نہیں مل سکا ہے ۔ ایک زخم مندمل بھی نہیں ہوپاتا ہے کہ دوسرا زخم لگادیا جاتا ہے ۔ کسی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور ظالموں کے خلاف کاروائی کرنے کی منصوبہ بندی سے قبل ہی ایک اور ظلم کا پہاڑ کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ ساری تدبریں ناکامی کی شکار ہوجاتی ہیں ۔ حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ہندوستان کے مسلمان یہ کہ کر صبر کرلیتے ہیں کہ قسمت کا لکھا ہوا کون مٹاسکتا ہے ۔ جو کچھ ہورہا ہے وہ خود ہمارے اعما ل کا نتیجہ ہے ۔
مسلم قیادت بے بسی اور بے کسی کی شکار ہے ۔ ہمارے درمیان اب منت اللہ رحمانی جیسے قائد بھی نہیں رہ گئے ہیں جو حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کریہ کہ سکے ہم کرسی پر بیٹھانا جانتے ہیں تو اسے چھیننا بھی جانتے ہیں ۔موجود ہ قائدین خود خوف زدہ ہیں۔ مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنے اور حکمران وقت کے خلاف کچھ بولنے سے شدید خائف ہیں ۔انہیں یہ ڈر ستارہا ہے کہیں کچھ کرنے اور بولنے کی سزا ہمیں خود نہ بھگتنی پڑجائے ۔چھوٹے درجہ کے جو قائدین ہیں انہیں ان سبھوں سے کوئی مطلب نہیں ہے ان کا مقصد اپنی روزی روٹی کا انتظام کرنا ہے اس لئے وہ کسی کی بھی حمایت کرسکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔جو کوئی مسلمانوں کے حق میں آواز آٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ان پر فرقہ پرست ہونے کا الزام لگادیا جاتا ہے ۔ ابھی کل کی بات ہے ملک کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی پی ٹی آئی نے اسد الدین اویسی کے دادری دورہ کی خبر کو کوریج دیتے ہوئے کچھ یوں لکھ دیا ’’ ایم آئی ایم کے متنازع لیڈر اسدالدین اویسی نے دادری کا دورہ کیا ‘‘۔ داردی کے دورہ کرنے والوں میں وہ واحد مسلمان تھے لیکن پی ٹی آئی تک نے اسی متنازع لکھ دیا ۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر ابھی بحث کرنا مقصود نہیں ہے ۔ملت کی ترجمانی کا دعوی کرنے والے ارد و اخبارات بھی مسلم مسائل کو اٹھانے میں ناکام ہیں ۔ سرکاری اشتہارات کی خواہش میں ان کی جرات حق گوئی بالکلیہ سلب ہوچکی ہے ۔حکومت کے خلاف کچھ لکھنا اورحقائق پر مبنی کوئی تحریر شائع کرنا ان اخبارات کی پالیسی کے خلاف ہے۔وہ انہیں مسائل شہ سرخیوں میں جگہ دیتے ہیں جسے ملک کی قومی میڈیا نمایاں کرتی ہے ۔ خود کسی معاملے پر ریسرچ کرنا اور اسے موضوع بحث بنانا ان کے بس میں نہیں ہے۔ ہم جیسے نئی نسل کے لوگ مرحوم اخلاق جیسے درناک واقعات کا منظرمامہ دیکھ کر آگ بگولہ ہیں ۔ جذبات پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔ لیکن یہ ساری جدو جہداور اظہار جذبات کا محور وہاٹس اپ اور فیس بک بن گیا ہے ۔ ان دنوں وہاٹس اپ اور فیس بک پر ہر کوئی اپنے شدید جذبات کا اظہار کررہا ہے ۔ انجام سے بے پرواہ ہوکر حکومتوں کی کارستانی کے خلاف لکھ رہا ہے بول رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہاٹس اپ اور فیس بک پر جذبا ت کا اظہار کرنے سے مسلمانوں کے قتل کا سلسلہ رک جائے گا ؟۔ اخلاق جیسا واقعہ دوبارہ پیش نہیں آئے گا۔
مجھے معلوم ہے حسب سابق میری اس تحریر پر پر بھی بہت سارے حوصلہ افزا کمنٹ اور تبصرے آئیں گے۔ فون اور ایم ایس ایم کے ذریعے مجھے مبارکباد پیش کریں گے ،ہاں کچھ احباب یہ بھی تبصرہ کریں گے کہ آپ بھی گفتار کے ہی غازی ہیں ۔ یہ سب سوشل میڈیا پر ہی کررہے ہیں ۔ میدان عمل میں آئیے تب بنے گی بات ۔بات بالکل بجا ہے اور ہم اس سے مکمل طور پر اتفاق رکھتے ہیں ؛لیکن۔۔۔۔۔۔
ہم یہ سوچنے پر مجبور بھی ہیں کہ آخر مسلمان اتنے بے بس اور لاچار کیوں ہیں ۔ کل کی بات ہے اروند کجریوال مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ احتجاج کا سلسلہ شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی دو بڑی پارٹی کانگریس اور بی جے پی کے آنکھوں کی نیند حرام کردیتے ہیں ۔سیاست کا ایک نیا چہر بن کر دنیا کے سامنے ابھر جاتے ہیں ۔گوجر برادری کے لوگ ریلوے ٹریک پر دھر نادے کر حکومت کو اپنے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتے ہیں اور حکومت ان کے لئے ریزرویشن منظور کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ پٹیل برادری ایک آواز پر دس لاکھ کی تعداد میں اکٹھا ہوجاتی ہے اور حکومت کے ناک میں دم کردیتی ہے۔ سکھ برادری کے لوگ مختلف پارٹیوں میں رہنے کے باوجود قومی مسائل پر ہم خیال نظر آتے ہیں ، عیسائی مذہب کے لوگ دو فی صد سے کم ہونے کے باوجود مکمل طو ر پر آزاد ہیں ۔ تمام طرح کی پابندیوں سے محفوظ ہیں ؛لیکن مسلمان ایسا کیوں نہیں کرپاتے ہیں ۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان بن کر اس ملک میں کچھ کرنا ناممکن ہے ۔ سوال یہ کہ کیا کبھی ہم نے ایسی کوششیں کی ہے ۔ ہم نے اپنے مطالبات کی خاطر کسی ریلوے ٹریک کو جام کیا ہے ، اپنے مسائل کے حل کے لئے کوئی روڈ جام کیا ہے ، اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے کہیں کوئی بھوک ہڑتال کیا ہے جواب شاید نفی میں ملے گا ۔ممکن ہے کچھ لوگ یہ کہیں کہ اگر گوجراور پٹیل برادری کی طرح مسلمانوں نے ریلوے ٹریک کو جام کیا یا کہیں بڑے پیمانہ پر دھڑنا دیاتوان پر گولیاں چلادی جائیں گے ۔ لاء اینڈ آڈر کا بہانہ بناکر یکطرفہ مسلمانوں کو موت کی نیند سلادیا جائے گا ہاں! مجھے معلوم ہے گولیاں چلادی جائیں گی ، خون سے ہولی کھیلی جائے گی لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ اس موت سے بہتر ہے جو ہمیں ہمارے گھروں کے اندردی جائے گی ۔ ہمارے دشمن بستروں سے گھسیٹ کر ہمیں قتل کریں گے۔ ہماری اولادپر جا ن لیوا حملہ کریں گے ۔ ماں اور بہنوں کے عفت و عصمت تارتار کریں گے ۔ انفرادی طور پر اس طر ح کی موت سے بہتر تو یہی ہے کہ ہم اپنے حقوق کی خاطر لڑتے ہوئے مارے جائیں تاکہ تاریخ کے اوراق میں یہ لکھاجائے کہ سیکولر اور جمہوریت کے علم بردار ملک میں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں پرحکومت نے گولیاں چلادی ۔ انہیں ان کا حق دینے کے بجائے جمہوریت کا قتل عام کردیا گیا ۔ مسلمانوں نے اپنے حقوق کی خاطر سڑکوں پر اتر کر احتجاج کیا تھا ۔ قوم کے ایک فرد کا قتل ان کے لئے پوری قوم کا قتل تھا۔ملت پر منڈلاتے خطرات کے دفاع کے لئے انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا تھا۔ایک بہن سے اس کے باپ کے کھوجانے کے غم کا احساس کرکے انہوں نے کڑوروں بہن کو اس عذاب سے محفوظ رکھنے کے لئے امن و انصاف کی تحریک چلائی تھی۔
بیف کھانے کی افواہ پر اتر پردیش میں واقع دادری ضلع کے بسہاڑا گاؤں کے باشندہ محمد اخلاق کی دردناک موت ، ان کے بیٹے دانش کا زخمی جسم ، بیٹی ساجدہ کی خون میں ڈوبی آوا ز اور سرتاج کا خوف وہراس دنیا بھر کے مسلمانوں کی غیر ایمانی کو للکار رہا ہے ، ان کے ضمیر کو جھنجھوڑرہاہے ۔ کسی محمد بن قاسم کو آ اواز دے رہا ہے جو ان کی مدد کو آ پہونچے ، مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے دراز ہوتے سلسلہ کو روک سکے اور اکثریت کے زعم میں مبتلا درندہ صفت انسانوں کو یہ پیغام دے سکے کہ ہم مسلمان قوم ہیں ۔ظلم و جبر کا یہ تماشہ آنکھیں بند کرکے نہیں دیکھ سکتے ہیں ۔ بے گناہوں کے قاتلوں کو اس کے جرم کا مزہ چکھائے بغیر چین کی نیند نہیں سوسکتے ہیں ۔
یہاں ایک سوال پید اہوسکتا ہے قیادت کا ، کارواں کو آگے بڑھانے والے میرکارواں کاتو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ قیادت کسی کی جاگیر نہیں ہے کسی کو یہ وراثت میں نہیں ملی ہے ۔قوم مسلم کا ہر فرد قیادت کرنے کا حقدار ہے ۔ جب آپ وہاٹس اپ پر ایک گروپ بناکر سو افراد کو اپنی قیادت میں رکھ سکتے ہیں، فیس بک پر فورم بناکر ہزاروں لوگوں کو اپنے ماتحت کر سکتے ہیں تو کیا اسی سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے سو افراد کے ساتھ آپ سڑکوں پر نہیں اترسکتے ہیں ، مسلمانوں کے حق کے لئے اپنا احتجاج درج نہیں کراسکتے ہیں ؟؟۔ کرسکتے ہیں،بہت بہتر انداز میں کرسکتے ہیں
صفحہ دہرئے سے باطل کو مٹایا کس نے؟
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو!
( مضمون نگار معروف کالم نویس اورملت ٹائمزکے چیف ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@mail.com