عزیر احمد
انفجار معلومات کے دور میں جہاں دنیا ایک طرف انگلیوں کی جنبش پہ سمٹ گئی ہے، وہیں جھوٹ، ہفوات بازی اور بکواسیات کا ایک بازار گرم ہوگیا ہے، مختلف پورٹلز، ویب سائٹس، اور چینلوں سے آنے والی ہر خبر صدق کا درجہ پا گئی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ بھی خبر آئے لوگ اسے لے اڑتے ہیں، چاہے ان کی حیثیت خس و خاشاک کے برابر ہی کیوں نہ ہو، بس اپنے مطلب کی بات ہے تو ضرور سچ ہوگی، کون زحمت گوارا کرتا ہے کہ خبروں کی حقیقت کے بارے میں تلاش کرتا پھرے، نہ ہی کسی کے پاس اتنا ٹائم ہے کہ اس میں اپنا سر کھپائے، حالانکہ یہ وہی امت ہے جسے اللہ رب العالمین نے نہایت ہی اعلی اخلاقی تعلیم سے نوازا ہے، ارشاد فرمایا “یا ایھا الذین آمنوا ان جاءكم فاسق بنبإ فتبينوا ان تصيبوا قوما بجهالة فتصبحوا على ما فعلتم نادمين”.
بچپن سے پڑھایا جاتا ہے کہ ہر وہ خبر جو ہم تک پہونچتی ہے، اس پہ صدق اور کذب دونوں کا احتمال ہوتا ہے، لیکن ہم ہیں کہ ماننے کے لئے تیار نہیں، ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہر وہ خبر جو ہمارے مطلب کی ہو وہ سچ ہے، چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو، اور ہر وہ خبر جو ہماری ذہنیت، اور ہماری سوچ کے خلاف ہو وہ جھوٹ ہے، چاہے سچ ہی کیوں نہ ہو، ہم ذرا بھی نہیں سوچتے کہ کون سا مشکل امر ہے، ایک ویب سائٹ بنا دینا، ایک نیوز پورٹیل کھول لینا، اب اس پہ آنے والی خبریں کیا ضروری ہیں کہ سچ ہی ہوں، آخر ویب سائٹس بھی تو انسان ہی چلاتے ہیں، ان کے اپنے اولیات ہوتے ہیں، جس کو وہ پسند کرتے ہیں، اس کے حق میں رطب اللسان ہوتے ہیں، لیکن جن سے انہیں نفرت ہوتی ہے اس کے خلاف ہرقسم کی نیوز لگادیتے ہیں بس خلاف ہونا چاہیئے، سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ جھوٹی خبر پھیلانے کی وجہ سے کہیں کل قیامت کے دن ان کی پکڑ نہ ہو.
ہر انسان نے اپنے اپنے بت تراشے ہوئے ہیں، جن سے وہ یا تو محبت کرتے ہیں یا نفرت، اگر محبت کرتے ہیں تو اسے اونچا اٹھانے کے لئے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کرتے ہیں، اور اگر نفرت کرتے ہیں تو اسے Degrade کرنے کے لئے ہر ممکنہ ذرائع کا استعمال کرتے ہیں، اس کی ایک واضح مثال میں آپ لوگوں کو اس طریقے سے دوں کہ اگر آپ پاکستان کی میڈیا کو دیکھیں گے تو بہت ساری ہندوستانی شخصیات جن کا ہندوستان کی آزادی میں اہم رول رہا ہے اس کے خلاف عجیب و غریب خبریں، مضامین اور آرٹیکلز کا بھرمار نظر آئے گا، وہی چیز آپ ہندوستان میں دیکھیں تو یہاں پہ ان شخصیتوں کے ہر اعمال کو مثبت طریقے سے ڈیفائن کیا ہوا ملے گا، اس کے برخلاف پاکستانی شخصیات کے خلاف یہاں مختلف قسم کا پروپیگنڈہ ملے گا، یہ ایک نیچرل چیز ہے، انسان کی فطرت میں ہے محبت یا نفرت کرنا، اصل یہ ہے کہ آدمی نہ تو محبت میں اندھا ہو اور نہ ہی نفرت میں، غلطیوں کو ضرور قبول کرے چاہے ان کا صدور ان کے پسندیدہ شخصیات کی جانب سے ہی کیوں نہ ہوا ہو، اور اچھائیوں کا ضرور اعتراف کرے، چاہے اس کا صدور ان کے مخالف ہی کی جانب سے کیوں نہ ہو، اور ان سب میں وہ پروپیگنڈوں اور جھوٹ سے احتراز کرے، اور ہر خبر کی صدق و کذب کے بارے میں تفتیش کرے، نہ کہ مجرد خبر دینے والے پہ اعتماد کرے.





