حسیب اعجاز عاشرؔ
ماں باپ ،میاں بیوی، بہن بھائی جیسے لازوال رشتوں کی قدر و منزلت سے کسے انکار ہے؟ مگر دوستی جیسے مقدس رشتہ کابھی اپنا ایک خاص مقام ہے۔دو طرفہ احساسِ محبوبیت کو دوست کہا جاتا ہے۔ دوست بنانا اور دوستی نبھانا ایک فطری عمل ہے مگر دوستی وہی مضبوط بنیادوں پر دیرپا قائم رہتی ہے جو بے لوث ،بے غرض ،پُرخلوص ہو اور باہمی عادات،خیالات اورکردارمیں قدرے بھی اختلاف نہ ہو،عداوت،شکوک،بدگمانی،بغض،حسد سے پاک صاف ہو۔کیونکہ دوستی توبلاشبہ اپنی زندگی کے بہت سے انفرادی و اجتماعی اور داخلی و خارجی پہلوؤں پر اثرانداز ہوتی ہے،اسلئے اس رشتے کو ہر رشتے میں تلاش کیا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں تعلیم کی کمی ، تربیت کے فقدان اور والدین کی لاپرواہی کے باعث اچھے دوست اوربہترین دوستی کا تعین قدرے مشکل ہو چکا ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ جن کے ساتھ کھیلوں میں مصروف ہیں ، گلیوں بازاروں میں ہلے گُلے کئے جا رہے ہی، جو ہماری غلط حرکات میں قد م باقدم ساتھ بھی ہیں اور خاموش بھی ،گھر سے ڈانٹ ڈپٹ سے بچانے کے لئے ہمارے عیبوں پر پردے ڈال رہے ہیں وہی ہمارے جگری او ر پکے دوست ہیں ۔جو کہ سرا سر غلط ہے۔۔ٹائم کلر زکو ہم اپنا دوست سمجھ بیٹھے ہیں ۔دوستی کے حوالے سے سب سے پہلے یہ یقین کامل ہونا چاہیے کہ ہمارا پہلا دوست صرف اللہ ہی ہے وہ خوشیوں سے نوازتا ہے اور وہی مصائب میں ہمارا مددگار ہے ۔۔۔
اللہ سے دوستی اور اہمیت۔۔۔۔
قرآن میں ہے کہ’’ تمہارا دوست اللہ ہے اور وہ بہترین مددگار ہے(آل عمران ۱۵۵)۔۔۔حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ’’ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص اپنی معلومات دینیہ پر عمل کرتا ہے وہ بے شک اللہ کا دوست ہے، جس درجہ کا عمل ہو گا، اسی مرتبہ کی دوستی ہو گی‘‘۔اور جو اللہ کو اپنا حقیقی دوست مان لے اُس کے لئے واصف علی واصفؒ نے فرمایا۔’’اللہ کے دوست نیت کی پاکیزگی کے بغیر کوئی عمل نہیں کرتے ان کے اعمال اچھی نیت کی وجہ سے درست ہیں‘‘۔۔دوستی کی اہمیت کیلئے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے اللہ تعالی بھی دوست رکھتا ہے اور دوستی کو پسند کرتا ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’اے ایمان والو، دوڑ کر چلو مغفرت کے طرف جو تمہارے رب کی طرف سے ہے اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ صرف (اللہ ڈرنے والے) پرہیز گار لوگوں کیلئے تیار کی گئی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو خواہ بدحال ہوں یا خوش حال ، ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور غصے کو ضبط کرتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک (اور احسان کرنے والے) لوگوں کو اللہ دوست رکھتا ہے(سورۃ آل عمران)‘‘
قرآنِ پاک میں ہے کہ ’’بے شک اللہ نیکی کرنے والے کو دوست رکھتا ہے (البقرۃ ۱۹۵)‘‘۔۔بے شک اللہ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے(البقرۃ۲۳۲)‘‘۔۔بے شک اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے(آل عمران ۷۶)‘‘۔۔اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے(آل عمران ۱۴۶)‘‘۔۔بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے(المائدۃ ۴۲)‘۔۔بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا(انفال ۸۷)۔۔تو جسے اللہ کی دوستی نصیب ہو جائے تو اِسے کسی دوسرے دوست کی طلب نہیں رہتی ۔پھر بھی اللہ کی رضا کے لئے اچھے دوست بنانا دنیا و آخرت میں فلاح کیلئے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
اچھے دوست کی اہمیت ۔۔۔
اچھے دوست ایسے ستاروں کی مانند ہے جو نظروں سے اوجھل بھی ہو جائیں مگر دل کی کہکشاں میں جگمگاتے رہتے ہیں۔دوست کا مزاج کردار گفتار اپنی شخصیت میں بہت نمایاں ہوتا ہے ۔ایک بڑی مشہور انگریزی کہاوت ہے کہA man in known by the company he keepsکہ آدمی اپنی کمپنی ہی سے پہچانا جاتا ہے ۔ایک انگریزی دانشوربھو میبول آڈلیا ڈیج کا کہنا ہے کہ A good person can make another person goodگویا ہر سوسائٹی میں دوست اور اچھے دوست کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ ،حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’(قیامت کے روز) تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو نے محبت کی(صیح مسلم)‘‘
حضرت ابوالدادؓ فرماتے ہیں کہ دوست کی تعریف یہ ہے کہ مرنے کے بعد ورثاء تو ورثہ بانٹنے میں مشغول ہوں اور دوست دعائے مغفرت کر رہا ہو اور فکر مند ہو کہ مرنے والے کے ساتھ اللہ تعالی کیا معاملہ کرتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ زندہ لوگوں کی دعا مرنے والوں کی قبر میں نور کا پہاڑ بن کر پہنچتی ہے۔ مردہ کو بتایا جاتا ہے کہ دعا کا یہ ہدیہ فلاں شخص نے بھیجا ہے اور مردہ اس ہدیہ سے شاداں و فرحاں ہوتا ہے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’اچھا دوست’’ہاتھ اور آنکھ‘‘ کی طرح ہوتا ہے جب ہاتھ کو درد ہوتی ہے تو آنکھ روتی ہے اور جب آنکھ روتی ہے تو ہاتھ آنسوں صاف کرتا ہے‘‘۔۔۔حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ’’ اچھا دوست چاہے کتنا برا بن جائے کبھی اس سے دوستی مت توڑو کیوں کہ پانی چاہے کتنا بھی گندہ ہو جائے آگ بجھانے کے کام آتا ہے‘‘۔اسلئے تقاضا ہے کہ اپنے دوست کے چھوٹی چھوٹی خامیوں پر قطع تعلق نہیں کرنا چاہیے بلکہ اصلاح کی کوشش میں رہنا چاہیے۔ دوست کی دل آزاری نہ ہو،ہمارے قول و فعل سے وہ کہیں ہم سے بدذن نہ ہو جائے کیونکہ یہ رشتہ جتنا چٹان سے زیادہ مضبوط ہے تو دھاگے سے بھی زیادہ نازک بھی جیسا کہ کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ دوست اور بھائی میں کیا فرق ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ بھائی سونا ہے اور دوست ہیرا ہے۔ پوچھا گیا کہ آپؓ نے بھائی کی قیمت اور دوست کو قیمتی چیز سے کیوں تشبیح دی؟ آپؓ نے فرمایا کہ’’ سونے میں اگردراڑ آ جائے تو اس کو پگھلا کر بلکل پہلے جیسے بنایا جا سکتا ہے جب کہ ہیرے میں کوئی دراڑ آ جائے تو وہ کبھی بھی پہلے جیسے نہیں بن سکتا‘‘۔چلیئے کرتے ہیں۔۔۔
اچھے دوست کا انتخاب ۔۔۔
دوستی عام ہے لیکن اے دوست
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے
اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دوستی اور دشمنی صرف اللہ تعالی کے لئے ہی ہونی چاہیے۔ اور دوست کا انتخاب تقوی و پرہیزگاری کی بنیادوں پر ہی قائم کی جائے جیسا کہ صیح بخاری کی ایک حدیث نبویﷺ کے مطابق’’ اللہ تعالی اپنے سائے میں رکھے گا ان دو اشخاص کو جو باہم صرف اللہ کے لئے دوستی کریں‘‘۔قرآن میں ہے’’تمہارے دوست اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہیں ۔(مائدہ ۵۵)‘‘
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فریا ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا ہر آدمی کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے(ترمذی)‘‘۔۔۔۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’انسان اپنے محبوب دوست کے دین پر ہوتا ہے تو تمہیں چاہے کہ غور کرو کس سے دوستی کر رہے ہو(سنن ابوداؤد)
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ’’دوست اُس وقت تک دوست نہیں سمجھا جا سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر نگہداشت نہ کرے ۱۔ مصیبت کے موقع پر، ۲۔اس کے پس پشت،۳۔اِسکے مرنے کے بعد‘‘۔۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’دوست تین قسم کے ہوتے ہیں تمہارا دوست، تمہارے دوست کا دوست اور تمہارے دشمن کا دشمن‘‘۔حضرت علیؓ نے فرمایا’’ بد ترین دوست وہ ہے جس سے معذرت کرنے اور تکلف برتنے کی ضرورت پڑے‘‘۔۔۔۔۔امام غزالیؒ نے دوست کے انتخاب کرتے ہوئے ’’پانچ خصلتیں کو دیکھنے کا کہا ہے ،۱۔عقل،۲۔حسن خلق،۳۔خیر کی صلاحیت،۴۔سخاوت،۵۔سچائی‘‘۔۔
اچھی دوستی وہ ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختہ ہوتی چلی جاتی ہے ،فاصلے کتنے بھی ہوں دل قریب رہتے ہیں ۔۔ ۔ جسے دیکھنا تمہیں خدا کی یاد میں مصروف کر دے،جس کا عمل آخرت کی یاد دلائے،تمہیں نیکی کی تقلین اور بُرائی سے روکے،جو شخص تمہارا غصہ بھی برداشت کر لے اور تعلق بھی برقرار رکھے، محفل میں غلطیاں چھپائے اور تنہائی میں سمجھائے،جس کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کردے،غیروں کی محفل میں تمہاری عزت اور مقام کی حفاظت کرے،تمہارے راز کو راز رکھے،بات کو امانت سمجھے،مصیبت میں پہلو تہی نہ کرے، وہی بہترین دوست ہے۔۔کیونکہ دوست عقل مند، ذہین،دُور اندیشن،مخلص اورہمدرد ہوتاہے۔بڑی مشہور کہاوت ہےA friend in need is a friend indeedکہ دوست وہی جو مشکل میں کام آئے۔تو پھر۔۔۔۔
کون دوست نہیں۔۔۔؟
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
اچھے دوست کے انتخاب میں دین نے بڑے سلیقے سے مفاد پرستوں کو بے نقاب کر دیاہے پھر بھی یاد رہے کہ غیر مسلم چاہے جتنا بھی بااخلاق اور دردمند لگتا ہو کسی صورت بھی ہمارا دوست نہیں ہو سکتاوہ زندگی کسی موڑ پر دھوکا ضرور دے سکتا ہے ۔۔قرآن میں ہے کہ: اے ایمان والو! ’’ان لوگوں سے دوستی مت رکھو جن پر اللہ نے غضب نازل کیا ‘‘ سورۃ نساء میں ہے ’’اے ایمان والو!مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ‘‘۔۔حضرت علیؓ کے قول کے مطابق تین طرح کے لوگ دوست نہیں ہو سکتے’’۱۔تمہارا دشمن،۲۔تمہارے دوست کا دشمن،۳۔تمہارے دشمن کا دوست‘‘
امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ اُنکے والد محترم امام باقرؒ نے انہیں پانچ قسم کے لوگوں’’،جھوٹے، بخیل، فاجر و فاسق،فاسق اور قطع رحمی کرنے والے سے دوستی کرنے سے منع فرمایا‘‘۔۔حضرت شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں ’’ایسے دوست سے ہاتھ دھو لینا بہتر ہے جو تیرے دشمنوں کے ساتھ بیٹھتا ہو‘‘۔۔۔شیخ سعدیؒ کا قول ہے ’’مجھے ایسے دوست کی دوستی پسند نہیں جو میری بُری عادتوں کا اچھا کہے میرے عیب کو ہنر جانے اور میرے کانٹوں کو گلاب و یاسمین کا نام دے‘‘۔۔امام غزالیؒ کا ارشاد ہے کہ ’’جو دوست مشکل وقت میں کام نہ آئے اس سے بچو کیوں کہ وہ تمہارا سب سے بڑا دشمن ہے‘‘۔۔۔اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ ۔۔۔۔۔
آج کل دوست نایاب ہیں؟؟
جیساکہ’’ حضرت جنید بغدادی ؒ سے کسی نے شکایت کی کہ حضرت دوست نایاب ہوتے جاتے ہیں، حضرت جنید بغدادیؒ نے جواب دیا تمہیں ایسے دوست کی تلاش ہے جو تمہاری خدمت و غمخواری کرے یا ایسا دوست چاہتے ہو جس کی تم خدمت و غمخواری کرو‘‘۔۔۔اچھے دوست کے متلاشی کے لئے ضروری ہے خود میں وہ اوصاف پیدا کرے جو ایک اچھے دوست میں دیکھنے کا خواہاں ہے کیونکہ آپکے دوست کو بھی کسی اچھے دوست کی تلاش ہے۔ (ملت ٹائمز)