نظریاتی تبدیلی کا جبر

قاسم سید
جب بچہ کو چوٹ لگے‘ اس کے سر سےخون بہنے لگے یا گلاس ہاتھ سےچھوٹ کر ٹوٹ جائے‘ امتحان میں اس کے نمبر کم آئیں‘ کوئی غلط کام کرکے بڑا نقصان کردے تو ردعمل کے عام طور سے دو طریقے ہوتے ہیں پہلا یہ کہ اس پر ٹوٹ پڑیں۔ برا بھلا کہیں۔ اس کے دو ایک ہاتھ لگادیں۔ ماضی میں کی گئی اس کی غلطیوں کو دہرا کر جرم کو مزید سنگین بنائیں۔ اسے ایک وقت کے لئے کمرے میں بند کردیں‘ کھانا نہ دیں۔ ڈانٹ پھٹکار کے ذریعہ شرم دلائیں دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کے علاج کا انتظام کریں‘ غلطی کو نظر انداز کرکے پیار سے سمجھائیں مستقبل میں زیادہ احتیاط سے کام لینے کی تلقین کریں‘ احساس کمتری پیدا نہ ہونے دیں‘ وارننگ دے کر معاملہ کو ختم کردیں۔ اس غلطی کا اپنی گفتگو میں تذکرہ نہ کریں اور کسی مناسب موقع پر اس کو نصیحت کردیں۔ ہمارے معاشرہ میں دونوں طرح کے رویہ موجود ہیں مگران کےطرز عمل میں صرف طریقہ کار کا فرق ہے مقصد ایک ہے یعنی دونوں میں سے کسی کے طرز عمل میں بدنیتی‘ ریاکاری اور لاپروائی کا الزام نہیں ڈھونڈ سکتے ۔
اس میں کیا شک ہے کہ ہندوستان اس وقت نظریاتی تبدیلی کے دور سے گذر رہا ہے۔ یہ تبدیلی سنگین مضمرات کی حامل ہوسکتی ہے۔ دنیا بھر میں دائیں بازو کے رحجانات کو ملنے والی مقبولیت اور ان کے اقتدار میں آنے سے انتہا پسند فسطائی عناصر کے حوصلے بلند ہیں اس سے یوروپ بھی اچھوتا نہیں ہے، جہاں نسلی حملوں نے شدت اختیار کرلی ہے۔ پہلے صرف اسرائیل رزم گاہ تھا اب اس کا خالق امریکہ ٹرمپ کے دور حکومت میں شرافت تہذیب اخلاقیات کے کپڑے اتار کر نسلی افتخار کی تال پر رقص کر رہاہے جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے اس کی اکثریت کا معاشرتی نظام ہی نسلی امتیازات پر قائم ہے۔
پیدائش کی بنیاد پر جزا وسزا کا قانون ہے کوئی برتر ہے کوئی اسفل۔ اسے منوادی نظام کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اسرائیل امریکہ اور ہندوستان کی تثلیث پر سنجیدگی وگہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے جہاں جبر و استبداد کو مذہبی تحفظ حاصل ہے ان کے درمیان بڑھتے گرمجوشانہ رشتے تھنک ٹینک کے لئے اہم موضوع ہے بدقسمتی سے ہمارے یہاں سائنسی انداز میں سوچنے کی روایت صدیوں پہلے ختم ہوگئی ہے۔ اجتہاد کا دروازہ بند کرکے اس پر موٹی موٹی کیلیں ٹھونک دی ہیں۔ چنانچہ جمود کے سڑتے پانی نے ہر طرف انار کی وبے سمتی کا تعفن پھیلا دیا ہے اور طرح طرح کے مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ موجودہ دور میں جن مسائل نے پریشان کر رکھا ہے اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ سوچنے سمجھنے اور پرانے راستوں پر سے ہوکر نئی رہ گذر کا تعین یا نشاندہی کرنے کی جرأت ختم ہوگئی ہے جن پر یہ ذمہ داری ہے وہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور اس کی سزا پوری کمیونٹی مختلف عنوانوں سے بھگتنے پر مجبور ہے۔ اب یاتو ہم حالات کے بدلتے رخ کو بھانپنے سے معذور ہیں یا پھر جان بوجھ کر آنکھیں بند کئے ہیں کہ جو بولے وہ کنڈی کھولے تن آسانی‘جذباتی سوچ اور چیخ و پکار و احتجاج کی پگڈنڈیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ ناخن تدبر سے مسائل حل کرنے کی بجائے دھمکیوں اور نعروں کی ریت میں شترمرغ کی طرح سرچھپانے کی ادا اپنالی ہے۔ ہم یہ سمجھنے کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں کہ ہندستان جس طرح کی نظریاتی تبدیلی کے لئے آمادہ کیاجارہا ہے اس کے نتائج کتنے بھیانک ہوں گے اور آنے والی نسلوں کو اس کا کیا خمیازہ بھگتناپڑے گا سرکار میں بیٹھے لوگوں کے تیور‘ کے ان کےبیانات‘ پالیسیوں کی سنگینی اور تواتر کے ساتھ پیش رفت کو ہلکے انداز میں لینے کی عادت بڑے عذابوں سے گفتگو کرائے گی۔ کبھی آئین بدلنے کے لئے اقتدار ملنے کی بات ‘معمولی باتوں پر پاکستان بھیجنے کی دھمکی ‘ گؤ رکشا کے نام پر مخصوص فرقہ پر تشدد اور اس کی سوشل میڈیا پر نمائش‘ وزیراعظم کی زبان سے مندر یا مسجد چننے کی باتیں‘ سیاسی طور پر ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کو بے اثر اور بے حیثیت کرنے پر مقتدر پارٹیوں میں خاموش مفاہمت‘ قانون ساز اداروں سے بے دخل کرنے کی مشترکہ حکمت عملی‘ انتظامی اداروں میں لگاتار گھٹتی نمائندگی فوج اور حساس اداروں میں داخلہ پر غیر اعلان شدہ پابندی ‘ اقلیتی تعلیمی اداروں پر مختلف بہانوں سے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش‘ سماجی زندگی میں انتشار پھیلانے اور مذہبی حقوق پر ڈکیتی اس نظریاتی تبدیلی کی مہم کا حصہ ہیں۔
آرایس ایس کے نظریہ ساز اور ان کی تربیت یافتہ فوج مقصد کے حصول کی جانب جارحانہ پیش قدمی کررہی ہے۔ 19ریاستوں پر قبضہ کرکے اندراگاندھی کے زمانہ کی کانگریس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے ایک ساتھ تین طلاق پر بل نظریاتی جبری انقلاب کا عکاس ہے۔ فسطائی طاقتوں نے اسے آئین میں دئیے گئے مذہبی آزادی کے حق کی بجائے آئین میں دئیے گئے جنسی مساوات کے حق سے جوڑدیا ہے ہم تصویرکو اس کے اصل رخ سے دیکھ رہے ہیں مگر انہوں نے اس کا فریم بدل دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس بات کو محسوس نہیں کیاجارہا ہے کہ کم وبیش ہر سیاسی پارٹی کو اس بات کے لئے مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے سے مسلم لفظ نکال کر پھینک دے۔ راشٹریتا اور راشٹر بھکتی وہ لباس ہے جو ہر شخص پہننے پر مجبور ہے جو آمادہ نہیں ہے راشٹر دروہی ہے۔ وہ دیش کا غدار ہے۔ پاکستان کا حمایتی ہے۔ آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہے۔القاعدہ کا دلال ہے یہ وہ مہذب گالیاں ہیں جو ’’پرائم ٹائم‘‘ کے ٹی وی ڈبیٹ میں کھلے عام مخالفوں کو دی جاتی ہیں جہاں کوئی گھنشیام تیواری اقلیتی حوالہ سے کچھ کہنے کی جرأت کرتا ہے تو مولانا گھنشیام تیواری کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔
یہ نظارے ڈھکے چھپے نہیں عام ہیں اور پاکستان بھیجنے کی دھمکی صرف مسلمانوں کو ہی نہیں دی جاتی ہے ہراس شخص کو دی جاتی ہے جو اخلاق یا افرازالحق کے حق میں بولنے کی غلطی کرے اور شمبھو لال ریگر کے فعل پر انگلی اٹھائے جس کی کرتوت آئی ایس کے ویڈیوز کی یاد دلاتی ہے۔ اس کے لئے پانچ لاکھ کا چندہ ہوجائے حمایت میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور کوئی دیوانہ الور کی عدالت کی عمارت پر بھگوا جھنڈا لہرادے اور قانون حرکت میں نہ آئے ۔ عام لوگوں کو اس خوفناک مسلم مخالف مہم کی خبر نہیں جو سوشل میڈیا پر مدت سے جاری ہے۔ سیکولر اقدار کے حامل عوام کے ماں باپ اور ان کے خون پر شک کرنے والا بجرنگ دل یا وشو ہندو پریشد کا لیڈر نہیں حکمراں جماعت کا مرکزی وزیر ہے یعنی نشانے پر صرف اقلیت نہیں بلکہ ہر وہ فردہے جو نظریاتی تبدیلی کی راہل میں حائل ہے۔ یہ وائرس پھیلایا جارہا ہے اسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ خدانخواستہ ابھی جو نظارے انفرادی حرکتوں سے مستعار ہیں کل اجتماعی کار روائیوں میں بدل سکتے ہیں۔ ملک کو اس سول وار کی طرف دھکیلا جارہا ہے جس کی خواہش شیاما پرساد مکھرجی نے اپنی ڈائری میں کی ہے۔ مشاورت کے موجودہ صدر نے سوشل میڈیا پر میٹرو میں سفر کے دوران 86 سالہ سندھی سے ہونے والی گفتگو نقل کی ہے۔ جس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ فرقہ واریت کا زہر کس حد تک سرایت کرگیا وہ بزرگ کہتے ہیں کہ پہلے کانگریس کو ووٹ دیتے تھے اب بی جے پی کو دیتے ہیں۔ مودی کی پالیسیوں سے عدم اتفاق رکھتے ہوئے بھی ان کی حمایت کرتے ہیں۔ بڑھتے تشدد اور عدم برداشت کے نتیجہ میں سول وار جیسے حالات پر ان کا تبصرہ ہے کہ اگر ایک بار سول وار ہوجائے تو حرج کیا ہے تو کیا ملک کو سول وار کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا جارہا ہے افرازالحق جیسے واقعات سماج کا ٹسٹ جاننے کے لئے وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔
ناتھورام گوڈسے سے شمبھو لال تک کے سفر میں مزاحمت کے جراثیم کی قوت ناپی جارہی ہے۔ تو کیا ان حالات میں ’برداشت نہیں کریں گے‘ نہیں مانیں گے‘‘ جیسے موقف کو سیاسی واخلاقی حمایت ملے گی کیا ہم ایک ساتھ عدلیہ اور پارلیمنٹ سے ٹکرانے کے لئے تیار ہیں۔ اگر ہاں تو کیوں۔ کیا بورڈ اپنی غلطیوں کو ڈھانپنے کے لئے پوری ملت کو داؤ پر لگا دے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ موجودہ فضا کو بدلنے اور اپنے حق میں حمایت حاصل کرنے کے لئے قانون ساز یہ کے ممبروں اور برادران وطن کو اپنا موقف بتانے کے لئے کچھ کیا گیا؟ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ماحول کی گرمی کم کرنے کے لئے ڈائیلاگ کا راستہ اپنایا گیا؟ سیاسی طور پر ہم کمزور زمین پر کھڑے ہیں جو دلدلی ہے جہاں پاؤں دھنستے جارہے ہیں۔ حمایت کا دائرہ تنگ ہو رہا ہے۔ سامنے لشکر ہے‘ جس کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے اور زبان باہر نکال کر سب کچھ تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے۔ وہ صدیوں کی غلامی کا انتقام موجودہ نسل سے لینا چاہتا ہے اس کے سامنے کھڑا ہر شخص اورنگ زیب بابر اور گاندھی ہے۔ پہلے سیاسی طور پر کمزور کیا اب تہذیب ثقافتی اور مذہبی شناخت زد پر ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جو مسلمانوں کو دیگر طبقات سے الگ کردیتا ہے۔ جنگوں میں حکمت عملی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ ایک قدم آگے بڑھنا دو قدم پیچھے ہٹ کر آگے بڑھنے کے لئے پر تولنا اس کا حصہ ہوتا ہے۔ سوال پیچھے ہٹنے کا نہیں وجود کو بچاکر آگے کی لڑائی کے لئے تیار کرنے کا ہے اگر ہمارے قائدین باتمکین میں عدلیہ اور پارلیمنٹ سے ایک ساتھ ٹکرانے کا جذبۂ ایمانی موجیں مار رہا ہے تو بسم اللہ پڑھئے آگے بڑھئے سب آپ کے ساتھ ہیں۔ بکریوں کو اپنی قسمت کا پتہ نہیں ہوتا کیونکہ ریوڑ کا فیصلہ تو اس کا گڈریا ہی کرتا ہے۔
qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں