نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
حکومت ، اقتدار اور دوسروں کو اپنے ماتحت رکھنے کا جذبہ رکھنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں ، انسانوں کو غلام بناکر رکھنے والے ہر دور میں فرعونی نظام اور ہامان و قارون جیسی ذہنیت کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے اصولوں اور دستوروں کے مطابق اپنا نظام مرتب کرتے ہیں ،جس طرح فرعون نے حکومت و اقتدار کو سب کچھ سمجھا، عام انسانون اور بنی اسرائیل کے ساتھ غلاموں جیسا رویہ اپنایا ، خود کو خدا سمجھتے ہوئے عوام پر اپنا بنایا ہوا نظام تھوپنے کی کوشش کی۔ ہامان فرعون کا مشیر کار تھا جس نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ عقل و ذہانت پر اس کے علاوہ کسی کا کوئی حق نہیں ہے وہ فرعون کو جیسا چاہے مشورہ دے اور جس طرح چاہے عوام کے بارے میں فیصلہ صادر کرائے۔ بنی اسرائیل اور فرعون کے درمیان کوئی رابطہ نہ قائم ہونے دے۔قارون اس وقت کا سب سے بڑا تاجر اور دولت مند شخص تھا کہا جاتا ہے کہ چالیس اونٹو ں پر صرف اس کے خزانے کی چابھی رہا کرتی تھے، اس نے بھی دولت پر صرف اپنا اختیار سمجھ رکھا تھا، اس کا نظریہ تھا کہ دولت کے خالق ہم ہی ہیں، ہمارے علاوہ کسی اور انسان کا دولت پر کوئی حق نہیں ہے۔
ان تینوں کا تذکرہ قرآن کریم اور اسلامی کتابوں کے ساتھ پوری تاریخ میں ہے، ان تینوں نے عوام کا شدید استحصال کیا، غلام بناکر رکھا، تاریخِ انسانی میں بنی اسرائیل کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے اس کی نظیر معدوم ہے ، دوسرے لفظوں میں اس فرعونی نظام کی تشریح ہم یوں کرسکتے ہیں کہ دولت اور اقتدار چند ہاتھوں میں محدود رہے، اپنی زندگی جینے کیلئے تمام لوگ ان کے محتاج رہیں، ان کے پاس کوئی اختیار نہ ہو ، و ہ اگر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسے روک دیا جائے ، ان کے پر کاٹ دیئے جائیں بلکہ انہیں مزید کمزور کیا جائے ، انہیں ہر سطح پر پسماندہ بنا دیا جائے تاکہ وہ ان کے خلاف آواز بلند نہ کرسکیں ، ظالمانہ نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت ان میں باقی نہ رہے عوام کو اس طرح بے دست و پا بنانے کیلئے فرعونی نظام رائج کرنے والے حکمراں انہیں تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ عوام کے پاس علم نہ ہو ، ان کے پاس کسی طرح کی صلاحیت نہ ہو۔ کیوں کہ علم ایک روشنی ہے ، وجود علم کے بعد ذہن و دماغ کی کیفیت بدلتی ہے ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ، ماحول کا ادارک کرنے کی طاقت ملتی ہے ، صاحب علم و نظر ایک بہتر نظام لانے کی کوشش کرتا ہے ، ظالمانہ نظام کے خلاف وہ سخت ردعمل اپناتا ہے اور ایسے فرعونوں کے خلاف بغاوت کرکے ان کے مظالم سے عوام کو نجات دلانے کی تحریک چلاتاہے ۔ اپنے اندر اسے کچلنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ اس لئے ایسے لوگوں کو صحت کی دولت سے محروم رکھا جاتا ہے، جابرانہ نظام اور اقتدار کے لالچی حکمران رعایا اور عوام کیلئے بہتر صحت کا نظام فراہم نہیں کرتے ہیں، ہسپتال اور طبی سہولیات سے ہر ممکن دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماحول کو پرامن نہیں رکھا جاتا ہے ، عوام کو آپس میں الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے ، حکمراں طبقہ کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ عوام آپس میں متحد نہ ہوجائے انہیں پرسکون ماحول میسر نہ ہوجائے کیوں کہ جواب عوام کے پاس تعلیم نہیں ہوتی ہے ، صحت کی دولت سے وہ محروم ہوتے ہیں، ماحول خلفشار اور انتشار کا شکار رہتا ہے، آزادی پر پابندی عائد ہوتی ہے تو ایسے ماحول میں کسی انسان کا ظالمانہ نظام کے خلاف بولنا، آواز اٹھانا اور حکمرانون کے خلاف تحریک چلانا، پبلک کو بیدار کرنا تقریباً ناممکن کے درجے میں ہوتاہے۔ دنیا آج بہت ترقی کرچکی ہے ہر طرف جمہوریت اور سیکولرزم کے نعرے لگائے جارہے ہیں ، فریڈم اور اظہار رائے کی آزادی کی بات کی جارہی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ آج بھی فرعونی نظام رائج ہے، ارباب اقتدار فرعون، ہامان اور قارون کو ہی اپنا پیشوا مانتے ہوئے عوام کو کچلنے اور دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے تعلیم ، صحت ، آزادی اور پرامن ماحول پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ اس لئے کل کی طرح آج بھی مضبوط جمہوریت کو فروغ دینے ، غریبوں میں تعلیم لانے ، انہیں معاشی طور پر مضبوط کرنے ، ان کے حوصلوں کو پروان چڑھانے اور ماحول کو سازگار بنانے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے خود عوام کو میدان میں آنا ہوگا، انہیں اپنے حقوق کی طلب کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی، ارباب اقتدار سے سینہ سپر ہونا ہوگا۔
ہمارا ملک ہندوستان آزادی کے بعد تمام پہلوؤں پر غور کرتا ہوا آرہا ہے ، دستور اور آئین میں بھی ہر ممکن کمزورں کو ان کا حق دینے انہیں پستی سے نکالنے ، جہالت دور کرنے ،علم کی روشنی سے مالا مال کرنے ، غربت کے خاتمہ اور اس طرح کی کوششیں کی گئی ہیں ، یہ بات یقینی بنائی گئی کہ یہاں عوام کو مکمل آزادی دی جائے گی ، کمزورں، دلتوں ، پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کے ساتھ کسی طرح کا بھید بھاؤ نہیں رکھا جائے گا ، انسانیت کی بنیاد پر سبھی کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا ، اقتدار ، معیشت ، تعلیم ، صحت ، ادب و ثقافت اور تمام امور میں بھی برابری رکھی جائے گی ، سبھی کی شراکت ہوگی ، اظہار رائے کی مکمل آزادی ہوگی ، انہیں زندگی میں کبھی بھی پسماندہ ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا جائے گا اور یہی ہونا چاہیے کیوں کہ فطری اور پیدائشی طور پر سبھی برار ہیں، ایک انسان کو دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے ، ملک اور سماج میں سبھی انسان یکساں سلوک اور حقوق کے حقدار ہوتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ آئین اور دستور میں سب کچھ صراحت ہونے کے باوجود اس کا عملی مظاہرہ نہیں ہوپاتا ہے، کہیں خاندانی اور نسلی نظام حاوی ہے تو کہیں کوئی دولت اور طاقت کی بنیاد پر دوسرے انسانوں کو اپنا غلام سمجھتا ہے ۔ امریکہ خود کو جمہوریت کا علمبردار اور سیکولرزم کا خالق سمجھتا ہے لیکن سب سے زیادہ نسلی تفاخر اور خاندانی عصبیت وہیں پائی جاتی ہے ، گورے کالے کا رنگ امریکہ میں سب سے زیادہ ہے ، علاقائی تعصب ، مذہبی تعصب اور اس طرح کی چیزیں جمہوریت کے علمبردار امریکہ پوری دنیا میں پہونچ رہی ہے اور ہر جگہ وہی فرعونی نظام رائج ہے ۔ جہاں ایک شخص کے ہاتھوں میں تمام اختیارات ہیں دوسرے بے بس اور بے سہارا ہیں اور انہیں اتن ابے بس بناکر رکھا گیا ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے حق کی آواز بھی بلند نہیں کرسکتے ہیں ۔ ایسے اوصاف کے حامل تقریباً دنیا کے سبھی مقامات پر ہیں امریکہ میں ٹرمپ کی شکل میں موجود ہے تو ایسے ہی نظام پر عمل پیرا ہندوستان میں ایک تنظیم کا سربراہ ہے جن کے ہاتھوں میں تمام اختیارات ہیں اور ان کا ایجنڈا ہے کہ پورے ہندوستان کی عوام ان کی ذہنی غلامی کرے، ان کے تھوپے گئے نظام کی پیروی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ بچے۔ اسی مقصد کے حصول اور انسانوں پر غلامی کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے یہ لوگ اسلام کو مسلسل ٹارگٹ کرتے ہیں، مذہبِ اسلام کی تعلیمات حاصل کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں، مذہب اسلام میں خامیاں تلاش کرتے ہیں جو لوگ اسلام کے آفاقی پیغام کی نشر و اشاعت کرتے ہیں ان پر بندشیں لگارہے ہیں، ان کی آواز کو روک رہے ہیں کیوں کہ اسلام کا نظام ان کی راہ میں حائل ہے۔ اسلام مساوات، بھائی چارہ ، انصاف اور آزادی کی تعلیم دیتا ہے ۔ کامیاب اور باعزت زندگی جینے کیلئے کسی بھی انسان کو ان چار چیزوں کی ضرورت ہے اور یہ صرف مذہبِ اسلام میں ہے ۔ قرآنی تعلیمات ان کے مشن اور ناپاک ایجنڈے کے خلاف ہے ، قرآن کہتاہے کہ کسی ایک انسان کو کسی دوسرے انسان پر کوئی برتری اور فوقیت نہیں ہے ، عجمی ، عربی ، گورے کالے ، ایشین ، یورپین ، مالدار غریب ، مالک ملازم سبھی برابر ہیں، تمام کو یکساں حقوق حاصل ہے ، کسی کو کسی کا آقا بننے اور دوسرے کو غلام بنانے کا اختیار نہیں ہے ۔ قرآن کریم کا واضح پیغام ہے کہ اگر کوئی مشرف اور قابلِ تعظیم ہوسکتا ہے ، کسی کو کسی پر فوقیت دی جاسکتی ہے تو محض تقوی کی بنیاد پر ۔ یعنی علم ، صلاحیت اور تقوی ہی فوقیت اور برتری کی وجہ ہے بقیہ کوئی بھی چیزیں برتری کے لائق نہیں ہے ۔ اسلام کا یہ نظریہ آفاقی ، عالمگیر ، انسانیت ، اخوت ، آزادی، بھائی چارگی ، انصاف اور مساوات پر مبنی ہے ، اس نظریہ میں کشش ہے ۔ اس کی بنیاد پر جو کوئی بھی اسلام کے بارے میں پڑھتا ہے ، ریسرچ کرتا ہے، ان عظیم خوبیوں کا علم ہوتا ہے وہ اس کی طرف کھینچا ہوا چلا آتا ہے، اسلام کو اپناتا ہے، دینِ محمدی کی آغوش میں آکر اسے سکون نصیب ہوتا ہے اور پھر یہیں سے اس کا یہ ذہن بنتا ہے کہ یہ دنیا صرف چند لوگوں کیلئے نہیں ہے ،انسانی غلامی کا کوئی وجود نہیں ہے ، یہاں اقتدار ، حکومت اور دولت پر صرف چند لوگوں کا قبضہ درست نہیں ہے کوئی بھی اپنی صلاحیت اور لیاقت کی بنیاد پر اس مقام کو حاصل کرسکتا ہے۔ ہر کسی کو آزادی، انصاف ، مساوات اور بھائی چارگی کے ساتھ جینے کا حق ہے ۔ اقتدار اور طاقت کو خود تک محدود رکھنے والے اور فرعونی نظام کو اپنے لئے آئیڈیل بنانے والے اسی بنیاد پر اسلام کے خلاف مسلسل ریشہ دوانیاں کررہے ہیں، اسلامی تعلیمات پر بندشیں عائد کررہے ہیں، مسلمانوں بالخصوص مسلم اسکالرس اور علماء کو طر ح طرح کی اذیتوں سے دو چار کررہے ہیں ۔ اسلام تک رسائی کی ہر کوشش کو ناکام بنارہے ہیں ۔امریکہ سے لیکر ہندوستان تک اسلام نشانے پر ہے اور اس کا واحد مقصد یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات تک کسی کی رسائی نہ ہونے پائے ورنہ ان کی سیاست خطرے میں پڑ جائے گی ، اقتدار سے محروم ہوجانے کا اندیشہ ستانے لگے گا ، مال و دولت چھن جانے کا خوف ستانا شروع کردے گا ، انسانوں کو غلام سمجھنے ، اپنی مرضی مسلط کرنے اور ماتحت رکھنے کا فرعونی نظام مکمل نہیں ہوپائے گا ۔ کیوں کہ ان کے یہاں ہر ایک کو انصاف ، مساوات ، بھائی چارگی اور آزادی حاصل نہیں ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ فرعونی نظام کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے کسی قوم اور گروہ کے خلاف تشدد بھڑکانا ، تعصب کو جنم دینا ، نفرت کی مہم چھیڑنا انسانیت سوز حرکتیں کرنا ، جان و مال اور عزت و آبرو سے کھلواڑ کرنا اور یہ سب ہورہا ہے جہاں تک بات ہے قانون اور آئین کی تو اس کا مقصد کچھ آقاؤں کو خوش رکھنا اور کثیر تعداد کو اپنا ماتحت بنانا تاکہ بظاہر لگے کہ یہ انصاف اور قانون کی بالادستی ہے جبکہ سچائی یہ ہوتی کہ انصاف ملنا انتہائی دشوار ہوتا ہے اور ایک عام آدمی کی رسائی نہیں ہوپاتی ہے ، صحیح کہاہے جس نے بھی کہاہے کہ عصر حاضر کے نظام میں حصول انصاف کیلئے صبرِ ایوب ، عمرِ نوح اور دولت قارون چاہیئے ، ہمارا ملک انہیں حالات سے گزر رہا ہے اور یہی عالمی منظرنامہ بھی ہے ۔
(مضمون نگار معروف اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)