محمد علم اللہ
میری بھانجی! عزیز از جان پیاری گڑیا زینب!
نیک تمنائیں! یہ لکھتے لکھتے رُک گیا کہ تمھاری تمناوں کا کس قدر خون ہوا ہے۔ مجھے امید ہے تم اس جا ہوگی، جہاں تم اپنی جیسی معصوم ہم جولیوں کے ہم راہ، تتلی بنی، رنگ بکھیر رہی ہوگی۔ وہاں لاتعداد خوب صورت اور معصوم بچوں نے، جنھیں شام، عراق، فلسطین، روہنگیا اور افغانستان میں اذیت کا کا نشانہ بناکر ہلاک کیا گیا، تمھارا خوش دلی سے استقبال کیا ہوگا۔ تم اُس جہان میں اب کوئی درد نہیں پاؤگی!
اچھا کیا تم وہاں چلی گئیں؛ اس کریہہ صورت عالم سے ایک ابدی دنیا کی جانب رُخ کیا، جہاں تمھیں کوئی گزند نہیں پہنچائے گا؛ غلیظ نگاہ نہ ڈالے گا۔ وہی مقام جنت ہے، جہاں محفوظ ہو، خوش ہو۔
ننھی پری! ایک یہ جگ ہے جہاں گیتی پہ ریکھائیں کھنچی ہیں، تم اس پار تڑپی ہو، میں اس پار تڑپتا ہوں۔ ایک یہ دُنیا کہ ہم دُور ہو کے بھی جڑے ہیں۔ میں نے تمھاری دل دوز کہانی اخباروں کے صفحات پر پڑھی، سوشل میڈیا پر دیکھی۔ یہ سائبر ورلڈ ہے کہ ہم دور ہوکے بھی باخبر ہیں۔
زینب! تمھاری عمر کی میری بھانجیاں ہیں، جو مجھے ازحد عزیز ہیں؛ وہ میرے پاس ہوتی ہیں، تو انھیں کہانیاں سناتا ہوں۔ ان کے ساتھ کھیلتا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوتی ہیں۔ تم بھی انھیں کی طرح ہو ، اس لئے تم بھی میری بھانجی ہی ہوئیں ۔سو میری بھانجی زینب! گاوں سے اب میں دہلی چلا آیا؛ اور اب میری ان سے بھی کئی سالوں سے ملاقات نہیں ہوسکی؛ لیکن تمھیں بتاوں، کہ وہ روزانہ فون پر مجھ سے کہانی سنتی ہیں۔ مجھے ان کی ادائیں بہت اچھی لگتی ہیں، جس طرح تمھاری امی اور ابو کو تمھاری پیاری اور معصوم ادائیں بھاتی ہوں گی۔
تمھاری خبر سن کر میں نراش بیٹھا تھا، کہ میری بھانجیوں نے فون کیا اور ضد کرنے لگی کہ ماما! کوئی کہانی سنائیے؛ میں نے سوچا، توتا مینا، خرگوش اور چیتے کی کہانی سنانے کے بجائے، ان سے تمھاری کہانی کہہ ڈالوں، لیکن مجھ میں ہمت نہ پڑی؛ بھلا اتنی ننھیوں کو میں تمھاری کہانی کیوں کر سناتا؛ تمھاری داستان سن کر تو شیطان بھی شرم سار ہوجائے۔ سو جیسے تیسے کرکے، انھیں کچھ فرضی قصے سنائے، لیکن مجھ بد نصیب سے تمھاری کہانی چپکی رہی۔
آج میں نے اپنی بھانجیوں کو فون نہیں کیا، سوچا تمھی سے بات کرتا ہوں،انھیں کی طرح تمھیں آج تمہیں کہانیاں سناتا ہوں، تو سنو ایک کہانی۔ ہمارے ہندوستان کی آپ بیتی۔ اس کی ایک ریاست ہے گجرات۔ دو ہزار دو میں وہاں فساد ہوا تھا۔ وہاں ایک دکھیاری رہتی ہے ، بلقیس۔ گجرات کے فسادات سے چھہ ماہ قبل اس کی شادی ہوئی تھی۔ اس بلوہ میں اس کے چودہ رشتہ داروں کو قتل کردیا گیا؛ بلقیس کی عصمت کو یوں تار تار کیا گیا، کہ اس کا پانچ ماہ کا حمل بھی ضایع ہو گیا۔ لاشوں کے ڈھیر میں پڑی جب وہ ہوش میں آئی تو مکمل طور پہ بے لباس تھی۔ بلقیس نہیں، انسانیت برہنہ تھی۔ اسے گجرات کے تھانوں سے یہ جواب ملا کہ ہم رپورٹ بعد میں لکھیں گے، پہلے اسپتال میں معائنہ ہوگا اور وہاں زہریلی سوئی لگادی جائے گی، تو کہاں رپورٹ لکھواؤگی؟ جاؤ کہیں اورجا بسو۔ بلقیس کی ایف آئی آر سپریم کورٹ کے حکم سے، یہاں کی سی بی آئی نے لکھی تھی۔
سنو میری ننھی! دوسری کہانی بھی آج ہی سن لو۔ مجھے دہلی میں پیش آئے دو ہزار بارہ کے نربھیا کی کہانی یاد آ گئی، جسے ایسے ہی دسمبر کی ٹھٹھرتی رات میں کچھ ذلیل لوگوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کے مار ڈالا تھا۔نربھیا بھی تمہاری طرح ؛پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننا چاہتی تھی ، مگر جیسے تمہارا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ، اس کا سپنا بھی پورا نہیں ہو سکا تھا ۔اس سرد رات میں اس کے ساتھ جو ہوا ، اس کی کہانی بہت افسردہ کر دینے والی ہے ؛ اس دن نربھیا کی چیخ اس قدر دل دوز تھی کہ پورا ہندوستان لرز اٹھا تھا۔ میری بچی! اس کے بعد اس دردناک اور شرم ناک واقعے کے ردعمل میں ہزاروں لڑکیاں اور لڑکے جلتی ہوئی شمعیں لیے دہلی کی سڑکوں پر نکل آئے تھے؛ جس طرح آج تمھارے درد کو لے کرکے کراچی تا خیبر چہار سو اضطراب دکھائی دے رہا ہے ۔
جس طرح سے تم پر بیتے ظلم نے ہر دردمند کو تڑپا کے رکھ دیا ہے، ویسے ہی ہمارے یہاں بھی اُس واقعے نے پورے سیاسی اور سماجی ماحول کو منتشر کردیا تھا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی خواتین ارکان نے، ایوان کو سر پر اٹھالیا تھا؛ سوشل میڈیا، ٹی وی ہو یا اخبار، اسی خبر سے اٹ گئے تھے؛ حکومت ہند نے دہلی سے سنگاپور تک، بہترین اسپتال میں اس کا علاج کر دیکھا، لیکن وہ بچ نہ سکی؛ پردھان منتری من موہن سنگھ خود اس کا تابوت لینے ائرپورٹ پہنچے تھے۔
نربھیا کے لیے خصوصی عدالت بنائی گئی تھی، جس نے ہر روز سماعت کرکے مجرموں کو پھانسی کی سزا تجویز کی، جسے دہلی کی ہائی کورٹ نے بحال رکھا اور آخری عدالت کے تین فاضل ججوں نے پھانسی کی سزا پر مہر لگا کر مجرموں کو ساڑھے پانچ سال میں سزا دے دی۔ ایسے نربھیا لوٹ نہ سکی، لیکن ورثا کے درد کا کچھ تو مداوا ہوا۔ تاریخ میں یہ بھی پہلی بار ہوا کہ تھا ہماری سپریم کورٹ کا فیصلہ سن کر جنتا نے تالیاں پیٹیں تھیں۔
پیاری گڑیا! بلقیس کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کے درد کو تم جیسی کوئی دکھیاری سمجھ سکتی ہے۔ تمھارے اور نربھیا کے بارے میں تو پھر بھی سب لکھ بول رہے ہیں، لیکن بلقیس دکھیاری کے بارے میں بہت کم لوگوں نے لکھا۔ حال ہی میں 41 قاتلوں کو ہائی کورٹ سے عمرقید کی سزا دی گئی ہے، لیکن ان پانچ پولیس اہل کاروں کو چھوڑدیا گیا، جو خود اس خونی ڈرامے میں شریک تھے، کیا ایسے ہی محافظ ہوتے ہیں؟ ان کے ساتھ سفید کوٹ پہنے ہوئے دو ڈاکٹر بھی تھے، جنھیں مسیحا کہتے حیا آتی ہے۔ ان کے بارے میں ہائی کورٹ نے دوبارہ سے سی بی آئی کو جانچ کرنے کا حکم دیا ہے۔
پیاری گڑیا! اب تم سے کیسے کہوں کہ اس مکر کی دُنیا میں لوگ حادثوں اور سانحوں کو بھی مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ایسے میں تم نے اس ریاکار دُنیا کو خیر آباد کہہ دیا تو اچھا ہی کیا۔
تم وہاں ہو، تو گجرات فساد میں ہوس کی بھینٹ چڑھ جانے والی بچیوں سے ملاقات کرنا، وہاں تو پڑوس بھی کوئی نہیں کہ تم ایک ہی گھر کی باسی ہوگی۔ درد کے ماروں کی جنت میں۔
میرے پاس لکھنے کو اور کیا ہے، پھر یہ بھی تم تک کیوں پہنچے گا! اجازت دو۔
خدا حافظ!
تمھارا دُکھی ماموں
محمد علم اللہ
نئی دہلی، ہندوستان۔