مرحوم شاہد علی خان (ایم ایل اے) کے ساتھ چند خوش گوار ساعتیں

محمد شمیم اختر ندوی
(چیرمین آل انڈیا سماجی ورفاہی کونسل پوپری)
غالبا 2010 کے اواخر میں بہار اسمبلی الیکشن کی تیاریاں زوروں پر تھی،جناب شاہد علی خان حلقہ سرسنڈ سے جدیو کے امیدوار تھے، الیکشن سے پہلے کا اخری جمعہ تھا اور پوپری جامع مسجد میں میرا بیان ہونا تھا،اطلاع ملی کہ آج شاہد علی خان مرحوم جمعہ کی نماز پوپری جامع مسجد میں ادا کرنےکے بعد پد یاترا شروع کر ینگے،راجد اور جدیو کے درمیان مسلمانوں کے منقسم ہونے کی وجہ سے تھوڑی تشویش لاحق ہوئی کہ کس موضوع پر جمعہ میں گفتگو کی جائے۔حالات کے تناظر میں سیاست کو موضوع سخن بنایا جائے یا کسی اور موضوع کا انتخاب کرکے دامن بچا لیا جائے؟ مسجد جانے سے پہلے بڑے بھائی ڈاکٹر کلیم اختر صاحب نے کہا کہ ماحول بہت گرم ہے، کس موضوع پر گفتگو کروگے؟میں نے کچھ دیر توقف کے بعد کہا کہ صرف اور صرف اتحاد ملت کی اہمیت و افادیت پر گفتگو ہوگی،مسلمان جدھر بھی جائیں متحد ہو کر جائیں تاکہ ووٹ ضائع نہ ہو اور میں بھی کسی ایک پارٹی کی زد پر نہ آسکوں، بہت خوش ہوکر آمادگی کا اظہار کیا۔
رمضان کی طرح مصلیان بڑی تعداد میں موجود تھے، الحمد للہ گفتگو شروع ہوئی اور بہت عمدہ گفتگو ہوئی، نماز کے بعد قصدا میں تاخیر سے باہر آیا تاکہ کسی سیاسی رہنما سے ملاقات بدگمانی کا باعث نہ بن سکے، میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس وقت تک نہ میں شاہد علی مرحوم کو براہ راست جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتے تھے۔ جب میں نماز کے بعد بھائی ڈاکٹر کلیم اختر صاحب کی کلینک میں حاضر ہوا تو فرمانے لگے کہ شاہد علی صاحب آپکی پہلی بار تقریر سنکر متعارف بھی ہوئے اور بہت خوش بھی، ملاقات کے منتظر تھے لیکن تمہاری آمد میں تاخیر کی وجہ سے سلام عرض کرکے ” پدیاترا “ کیلئے نکل گئے، خدا خدا کرکے یہ وقت آزمائش بحسن و خوبی تمام ہوا اور میں کل ہوکر پروگرام کے مطابق ممبئی کیلئے روانہ ہو گیا۔

آل انڈیا سماجی و رفاہی کونسل کے زیر اہتمام اصلاح معاشرہ کانفرنس اور مرحوم شاہد علی خان کی طرف سے حوصلہ افزائی

والد محترم حضرت مولانا محمد نبی اختر مظاہری رحمہ اللہ علیہ (پرنسپل و خطیب مدرسہ عزیزیہ جامع مسجد پوپری، رکن شوری امارت شرعیہ پٹنہ) کے انتقال پر ملال کے بعد دو کاموں کا خیال دل میں پیدا ہوا ، اولاً ان کی سوانح حیات کی ترتیب و اشاعت، ثانیاً ان کے ملی و سماجی خدمات کی پیروی کیلئےکسی تحریک و تنظیم کا قیام، الحمد للہ ” آل انڈیا سماجی و رفاہی کونسل “ کا قیام اسی حوالے سے عمل میں آیا اور اسی کے زیر اہتمام سوانح حیات بنام ( مولانا نبی اختر مظاہری حیات و خدمات) زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئی۔
آل انڈیا سماجی ورفاہی کونسل کے دستور کے مطابق اصلاح معاشرہ کانفرنس کی تاریخ 17مادچ 2012 طے پائی اور اسے کامیاب کرنے کے لئے کوششیں شروع ہوگئیں، دار العلوم دیوبند سے مولانا فرید الدین قاسمی، دار العلوم ندوہ العلماء سے مولانا سلمان نسیم ندوی، امارت شرعیہ سے امیر شریعت مولانا نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ، مولانا انیس الرحمن قاسمی ناظم امارت شرعیہ، مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی، مفتی سہراب ندوی اور مولانا محمد قاسم مظفر پوری، مولانا زبیر احمد قاسمی کنہواں ، قاری شبیر احمد شکر پوری، مولانا منیر عالم سلفی، قاری حفظ الرحمن بالا ساتھ و دیگر اکابرین کا وقت مل جانے کے بعد ممبئی میں بیٹھے ایک روز خیال آیا کہ جناب شاہد علی خان مرحوم (جوکہ الیکشن میں کامیاب ہو گئے ہیں ان کو بھی مدعو کرلیا جائے ( جناب شاہد علی خان مرحوم والد مرحوم کےبڑے قدر داں تھے اور ایام علالت میں عیادت ، انتقال کے بعد نماز جنازہ میں شرکت کیلئے نہ صرف تشریف لائے تھے بلکہ تعزیتی پیغام اخبارات میں ان کی طرف سے شائع بھی ہوا تھا )،بھائی ڈاکٹر کلیم اختر صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ شاہد علی خان صاحب تمہارا بارہا محبتوں کے ساتھ تذکرہ کرتے ہیں تم خود بات کرلو پھر میں بھی کرلوں گا، چنانچہ میں نے ان کو فون لگایا اور مقصد سے روشناس کرایا، بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ میرے لائق جو بھی کام ہو حکم فرمائیں ( یہ حکم کا لفظ ان کا تکیہ کلام تھا ) اولاً تو میں نے استغنی کا اظہار کیا لیکن ان کےاصرار پر دو کام ان کے سپرد کردیا گیا، ایک مولانا سلمان نسیم ندوی کو ایر پورٹ سے پوپری اجلاس گاہ تک لانا اور دوسرا اجلاس کیلئے لائٹ و ساؤنڈ کا انتظام و انصرام کرنا۔
الحمد للہ مرحوم نے نہ صرف اپنے وعدے کو بخوبی پورا کیا بلکہ بہت دیر تک اجلاس میں شریک رہے، کتاب کا رسم اجراء بھی آپ و دیگر اکابرین کےہاتھوں ہوا اور آپ کی مختصر پر مغز تقریر بھی ہوئی ، اجلاس کی بہت ساری تختیاں سیتامڑھی میں آپ کے وساطت سے لگائی گئیں تھیں۔
بفضلہ تعالی اجلاس فجر کی اذان تک پوری کامیابی کے ساتھ جاری و ساری رہا، تمام مقررین کیلئے قاضی شریعت حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری کے ایما پر عناوین پہلے سے ارسال کر دیئے گئے تھے، اس لئے اجلاس کی افادیت دوچند ہوگئی تھی۔
بڑے بھائی ڈاکٹر کلیم اختر صاحب کا اثر و رسوخ اور الحاج محمد علی کے کام کرنے کا ہنر دیکھنے کے لائق تھا، اسٹیج بہت عالیشان، وی آئی پی گیلری کا دلکش نظارہ، اسٹیج پر مہمانوں کا علاقے کے ممتاز لوگوں کے ہاتھوں گلدستوں سے پرجوش استقبال اور سامعین کے لئے خوبصورت پنڈال، سلیقے سے سجائی گئیں کرسیاں، مستورات کیئے ایک بڑے ہال میں اسکرین پر پورے پروگرام کا ٹیلی کاسٹ، تاحد نگاہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا مجمع گوش بر آواز ، ہفتوں پہلے سے نیپال ریڈیو پر اجلاس کے اعلانات، ان ساری چیزوں نے اس اجلاس کو تاریخ ساز بنا رکھا تھا۔
مولانا زبیر احمد قاسمی کنہواں فرماتے ہیں کہ بہار میں اس سلیقے کا کامیاب اجلاس میں نے پہلی بار دیکھا ( اندنوں مولانا بھی صاحب فراش ہیں اللہ حضرت کو صحت و عافیت عطا فرمائے اور آپ کے ادارہ میں منعقد ہونے والے اجلاس صد سالہ کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے )
سوئے اتفاق ہی کہا جائے کہ اجلاس کے بعد کئی بار مختلف موضوعات پر شاہد علی خان مرحوم سے فون پر باتیں ہوئیں لیکن براہ راست پھر دوبارہ ملنے کا اتفاق نہیں ہوسکا اور اب یہ خبر بجلی بن کر گری کہ موصوف راہئ عدم ہوگئے (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون) اللّٰہ مرحوم کی مغفرت فرمائے ، زلات کو حسنات سے مبدل فرمائےاور جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
ایک بار مرحوم کہنے لگے کہ مولانا میں نے ہندوستان کے اکابر علماء کی خدمت کی ہے، مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (صدر جمعیہ علماء ہند) کا پاؤں دبانے کا شرف ہمیں حاصل ہے، والد صاحب (بچے خان صاحب) کی زندگی میں سیتامڑھی آنے والے اکابر کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ڈرائیونگ کیا کرتا تھا اور خوب دعائیں لیتا تھا اور آج جو کچھ عزت ملی انہیں اللّٰہ والوں کی دعاؤں کا اثر ہے۔
مرحوم شاہد علی خان وجیہ قامت، خوبصورت بارعب شخصیت کے مالک تھے، اپنوں سے زیادہ برادران وطن میں مقبول تھےف، دوبار دو قلمدان کے بہار حکومت میں وزیر رہے ، البتہ کوئی اہم کارنامہ انجام دینے سے قاصر رہے، گزشتہ چند ماہ میں ان کی جو تصویریں وائرل ہو رہی تھیں اس سے محسوس ہورہا تھا کہ روز افزوں صحت گرتی جارہی ہیں، ایک بار تو تصویر دیکھ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسی حالت ہوگئی ہے علی الفور جمشید ربانی ندوی کو پوپری فون کرکے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ہاں بیمار چل رہے ہیں۔ یقیناً بہت افسوس ہو رہا ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں سیتامڑھی شہر اپنے دونوں دبنگ سیاسی رہنما جناب انوار ایم ایل اے اور اب شاہد علی خان سے محروم ہو گیا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے