مالدیپ کا سیاسی بحران

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
مالدیپ سے ایک مرتبہ پھر سیاسی اتھل پتھل کی خبریں آرہی ہیں ، پندرہ دنوں کیلئے وہاں ایمرجنسی کا نفاذ ہوچکاہے ، سپریم کورٹ کے دو ججز گرفتار کر لئے گئے ہیں، عوام میں بے چینی ، انتشار اور افتراق ہے ، محمد نشیط اور عبد اللہ یامین کی سیاسی چپلقش کی وجہ سے دنیا کا یہ خوبصورت ترین ملک کئی سالوں سے مسلسل سیاسی بحران کا شکار ہے ، کچھ لوگ عبد اللہ یامین کی حمایت کررہے ہیں ، کچھ لوگ محمد نشیط کے ساتھ ہیں تو وہیں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہیں دونوں میں سے کوئی پسند نہیں ہے۔ مالدیپ میں راقم الحروف کا ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرا ہے، سیاسی حالات کو ، عوام کے مزاج اور رجحان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے، اس لئے آئندہ سطور میں ہم بین الاقوامی میڈیا سے ہٹ کر وہاں کی زمین حقائق پیش کرنے کی کوشش کریں گے اور کچھ تاریخی حقائق کا بھی تذکرہ کریں گے ۔
1965 میں برٹش حکومت سے آزادی ملنے کے بعد اس ملک نے بے مثال ترقی کی ہے ، ایک آزاد مملکت کے طور پر دنیا میں اپنی شناخت قائم کرنے میں اسے کامیابی ملی ہے ، پچاس سال پہلے جس ملک کے کی اقتصادی سطح پر کوئی حیثیت نہیں تھی آ ج وہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہے اور عالمی سطح پر سیاحوں کا سب سے بڑا مرکز بنا ہوا ہے ، فش انڈسٹری کے بجائے ٹورزم انڈسٹری نے دنیا بھر میں اس ملک کو نمایاں شناخت عطا کیا ہے۔ سال 2017 میں 14لاکھ سیاحوں نے وہاں کا سفر کیا ہے۔ آزادی ملنے کے بعد عبد القیوم مامون نے اقتدار پر قابض ہوکر حکومت کی اور مسلسل ۳۵ سالوں تک ان کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ دوڑ رہی ، عوام کے شدید احتجاج کے بعد انہیں اقتدار کو چھوڑ کر اس ملک کو الود اع کہنا پڑا ، جمہوری نظام کے مطابق انتخابات کرائے گئے اور 2009 میں صحافت سے سیاست میں قدم رکھنے والے محمد نشیط یہاں کے صدر منتخب ہوگئے ، لیکن وہ بھی اس ملک کے لئے زیادہ بہتر ثابت نہیں ہوئے کیوں کہ انہوں نے سیکولزم کا لبادہ اوڑھ کر ملک کی ثقافت اور شناخت کو ختم کرنا شروع کردیا، اسلامی آثار کو فروغ دینے کے بجائے وہ سیکولر اسٹیٹ مشن پر عمل پیرا ہوکر حکومت کرنے لگے، مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کو وہاں تعمیر کرنے کا منصوبہ پیش کیا ، ایک اسلامی ریاست کے بجائے ملک کی تصویر ایک سیکولر اسٹیٹ کی حیثیت سے انہوں نے پیش کی ، ہندوستان نے بھی اس معاملے میں ان کا بھر پور ساتھ دیا اور مالدیپ ۔ ہندوستان کی دوستی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا، بہر حال محمد نشیط کے اس نظریہ کے بعد سخت عوامی ردعمل سامنے آیا، فوج نے بغاوت کی اور انہیں صدارت سے استعفی دینا پڑا۔ 2013 میں دوبارہ الیکشن ہوا جس میں پی پی پی کو کامیابی ملی اور 35 سالوں تک صدر رہنے والے مامون عبد القیوم کے بھائی عبداللہ یامین صدر بن گئے ۔ انہوں نے صدر بننے کے بعد ملک میں اسلامی ثقافت کو فروغ دیا، بے حیائی اور عریانیت کے اسباب پر قدغن لگائی ، مساجد ، اسلامک اسکول اور علم دین کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی ، عوام نے بھی شرو ع میں بے پناہ خوشی کا اظہار کیا ۔اس دوران انہوں نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے مخالفت کے تمام درواز ے بند کرنے کی کوشش کی ، سابق صدر محمد نشیط پر دہشت گردی کا الزام عائد کرکے 13 سالوں کیلئے قید کی سزا سنائی دی، اپنی پارٹی کے کئی باغی ممبران کو بھی انہوں نے جیل کی سلاخوں میں بند کردیا ، دوسری طرف انہوں نے ہندوستان کو نظر انداز کرتے ہوئے چین کے ساتھ تعلقات میں وسعت پیدا کی ، چین نے وہاں سرمایہ کاری پر خاص توجہ دی بات اس وقت خراب ہوئی جب عوام کو یہ خبر ملی کہ چین سے عبد اللہ یامین نے کئی جزیرے فروخت کردیئے ہیں ، یہ اطلاع عوام کے سروں پر بجلی بن کر گری ، عوام کے ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی اس کی شدید مذمت ہونے لگی ، مخالف آوازوں کو بند کرنے کیلئے یہ اپنے تمام مخالفین کو جیل کی سلاخوں میں بند کرنے لگے ، حالیہ بحران اس وقت پیش آیا ہے جس مالدیپ کی سپریم کورٹ کے جج نے سابق صدر محمد نشیط سمیت جیل میں بند تیرہ سیاسی لیڈروں کو رہانے کا فیصلہ سنادیا ۔عدلیہ کے اس فیصلہ کے بعد عبد اللہ یامین نے نیشنل ٹی وی چینل سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں 15 دنوں کیلئے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا ، قوم کے نام خطاب میں انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ ملک کا تمام نظام حسب سابق باقی رہے گا، ایمرجنسی کی وجہ بتاتے ہوئے کہاکہ عدلیہ نے فوجی بغاوت کی سازش رچی تھی اور اس کے پس پردہ سابق صدر محمد نشیط کا ہاتھ ہے ، یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جن دنوں مالدیپ میں یہ سب چل رہا تھا محمد نشیط برطانیہ کے بجائے سری لنکا کی راجدھانی میں قیام پذیر تھے ۔ عبد اللہ یامین سپریم کورٹ کے جج عبد اللہ سعید اور دیگر کو گرفتار کرنے کا حکم بھی صادر کردیا ۔
ججز کی گرفتاری کے بعد صورت حال سنگین ہوگئی ہے ، سابق صدر محمد نشیط اور عبد القیوم نے ہندوستان سے فوجی مداخلت کی اپیل کی ہے ، ہندوستان اس سے پہلے بھی 1980 میں مداخلت کرکے وہاں کی مدد کرچکا ہے ، دوسری طرف چین کی بھی پورے معاملے پر نظر ہے اور چین کبھی یہ برداشت نہیں کرے گا ہندوستان وہاں مداخلت کرے اور عبد اللہ یامین کی صدارت پر کوئی زد پڑے ۔ دوسری جانب ہندوستان کا مفاد محمد نشیط کی حکومت میں واپسی سے وابستہ ہے ، اقوام متحدہ ، امریکہ سمیت کئی ملکوں نے عبد اللہ یامین کے سپریم کورٹ کے احکامات کی اتباع نہ کرنے پر مذمت کی ہے ۔بہر حال مالدیپ کا یہ داخلی معاملہ ہے ، اس کی بھلائی اور بہتری اسی میں ہے کوئی بیرونی مداخلت نہ ہو اور وہاں کے ارباب سیاست خود یہ معاملہ حل کرلیں ۔
مالدیپ بحر الہند میں واقع ایک جزیرہ نما ملک ہے ، پانی اور سمندر کے درمیان اس کا جائے وقوع ہے ، خشکی سے زیادہ پانی کا حصہ یہاں پایا جاتا ہے ،90000 ہزار مربع کیلومیٹر اور 35000 ہزار مربع میل کل رقبہ ہے ، پورے ملک میں کل12 سو کے قریب جزیرے ہیں ، جس میں دو سو آباد ہیں، کچھ پر ریزوٹس(Resots) بنے ہیں،بعض جزیروں کا استعمال کاشت کاری کیلئے ہوتا ہے ، بقیہ غیر آباد ہیں ،ایک جزیرہ سے دوسرے جزیرہ میں جانے کیلئے کشتی کا سہارا لینا پڑتاہے ، ایک جزیرہ کا جغرافیہ عموماً ڈھیڑھ دو کیلومیٹر کا ہوتاہے ، وہی دو کیلومیٹر کا رقبہ جزیرہ کی آبادی کیلئے سب کچھ ہوتا ہے ، خشکی کا وہی حصہ انہیں نصیب ہوپاتا ہے بقیہ ساری ضروریات انہیں سطحِ ماء پر مکمل کرنی ہوتی ہے ، سطح سمندر سے صرف ڈیرھ میٹر اوپر آبادی ہے اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ نیچا ملک مانا جاتا ہے ، سطح ماء سے اس قدر قلیل فاصلہ ہونے کے بناپر مالدیپ کو خطرات درپیش ممالک میں شامل کیا جاتا ہے ، ملک کا سب سے بڑا جزیرہ گین (Gan) ہے جو تقریباً 8 کیلومیٹر پر مشتمل ہے ، ملک کی راجدھانی مالے ہے جو صرف تین کیلومیٹر پر مشتمل ہے ، اس کے مساوی دو تین جزیرے بھی اس میں شامل کرلئے گئے ہیں۔ بارہویں صدی میں عرب تاجر شیخ ابو البرکات نے اس وقت کے بادشاہ کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جسے انہوں نے قبول کرلیا اور پوری رعایا کو اسلام میں داخل ہونے کا حکم دے دیا۔ مالدیپ کے تمام شہری مسلمان ہیں دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ سعوی عرب کے بعد یہ دوسرا ملک ہے جہاں سو فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com


مدرسہ سراج العلوم فتح پور(چھٹملپور ،ضلع سہارنپور) میں 10 فروری کو تحفظ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ،اہم علماءکرام کی ہورہی ہے شرکت ،یہاں کلک کرکے جانیں مکمل تفصیلات

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں