شام کے جلتے دن رات

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
شام کی ہر شام خون میں ڈوبی ہوتی ہے ، آنے والی صبح ایک نئی قیامت کی تصویر پیش کرتی ہے، شب و روز کا ہر لمحہ خوف ، دہشت ، بھوک مری، بیچارگی اور المناکی کے عالم میں گزرتاہے ۔قتل وغارت گری ،بے گناہوں کا قتل عام ، آبادی پر میزائل حملہ، شہروں کی تاراجی شام کی عام کہانی بن گئی ہے ، الجزیرہ کی ایک رپوٹ کے مطابق 2011 سے اب تک 4,65,000 جاں بحق ہوچکے ہیں، تین ملین سے زائد شدید زخمی ہیں، ملک کی آدھی سے زائد آبادی ہجرت کرکے ترکی یا کسی اور ملک میں جائے پناہ لئے ہوئی ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد شہری آٹھ سالوں سے محصور ہیں، یہ درج شدہ واقعات ہیں جبکہ متأثرین کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔
سوال یہ ہے کہ شام کی اس ہولناک تباہی کیلئے ذمہ دار کو ن ہے؟ بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ کون اتار رہا ہے؟ معصوم بچوں کی تڑپتی لاشوں کیلئے ہم کسے مجرم قرار دیں؟ شہروں کی تباہی کا ٹھیکرا کس کے سر پھوڑا جائے ؟ اپنا گھر چھوڑ کر زندگی کی آس میں در بدر ہونے والے شامیوں کا قصور وار کسے ماناجائے؟۔ امریکہ اور اسرائیل کو ہم ہمیشہ ایسے کاموں کیلئے مجرم گردانتے ہیں، شام میں جاری قتل عام کیلئے روس کو سبھی مسلمان ذمہ دار مان رہے ہیں، اقوام متحدہ پر غم و غصہ اتار رہے ہیں، حقوق انسانی کی تنظیموں کو برا بھلا کہا جارہا ہے ، ایران کو کٹہرے میں کھڑا کیا جارہے لیکن سچائی یہ ہے کہ شام میں جاری قتل عام کیلئے ذمہ دار ہم مسلمان خود ہیں، ہماری ناکام پالیسی نے ہمیں خود اپنوں کے قتل پر مجبور کردیا ہے ، فطری دولت اور اثاثوں سے مالا مال مشرق وسطی نے خود اپنی تباہی کا جال اپنے لئے بنا ہے۔ شام کوئی پہلا ملک نہیں ہے جہاں بے گناہوں کا قتل ہورہا ہے بلکہ اس سے قبل افغانستان میں دس لاکھ سے زائد بے گناہوں کا قتل ہوچکاہے، عراق کی 13 لاکھ عوام امریکی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے ، لیبیا تباہ و برباد ہوکر خانہ جنگی کا شکار ہے ، مشرق وسطی کو جمہوریت کا خواب دیکھانے والا تیونس اب تک جنگ کے ماحول سے باہر نہیں نکل سکاہے ۔ فلسطین پر نصف صدی قبل سے ہی اسرائیل قابض ہے ۔ یہ سب صلیبی اور صہیونی جنگ کا حصہ ہے ، صدیوں تک آپسی حریف بن کر زندگی گزارنے والے یہودی اور عیسائی باہم ایک ہوکر مسلمانوں کو اپنا حریف بنا چکے ہیں اور پورے مشرق وسطی پر قبضہ ان کا دیرینہ خواب ہے، خیبر سے نکالے جانے کے واقعہ کو یہودیوں نے ابھی تک فراموش نہیں کیاہے ، ماضی کی تاریخ سے عبرت لیتے ہوئے یہ قوم روشن مستقل کی تعمیر کیلئے مسلسل جدوجہد کررہی ہے ، اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے مسلسل کوشاں ہے۔ شام میں جاری لڑائی، بے گناہوں کا قتل عام اور شہریوں کی ملک بدری بھی اسی جنگ کا حصہ ہے ۔
تیونس ، لیبیا ، مصر سمیت وہ تمام ممالک جہاں 2011 میں عرب بہاریہ کی تحریک شروع ہوئی تھی ،حکمرانوں کے خلاف علم احتجاج بلند ہوا تھا وہاں حکومت تبدیل ہوگئی ہے ، سابق حکمرانوں کی جگہ امریکی منشاء کے مطابق کام کرنے والے حکمران اقتدار پر براجمان ہیں۔ دونوں کے درمیان آقا اور تنخواہ دار ملازم جیسا رشتہ ہے۔ شا م واحد ملک ہے جہاں مسلسل احتجاج، مظاہرہ اور ہرممکن کوشش کے باوجود اقتدار کی تبدیلی نہیں ہوسکی ہے، بشار الاسد کے خلاف امریکہ، روس سمیت کسی بھی طاقتور ملک نے اس سلسلے میں بولنے تک جرات نہیں کی ہے۔ اس لئے کہ شام میں تبدیلی اقتدار کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، الٹے باغیوں اور مظاہرین کے خلاف سخت اقدامات کئے گئے، اسرائیل کے سہارے بشار الاسد نے بے گناہوں پر حملہ کرکے ان کی آواز دبانے کی کوشش کی۔ روس کی مداخلت کے بعد بشار الاسد کے حوصلے اور بلند ہوگئے ہیں۔ اس وقت روس اور ایران بشار االاسد کی پست پر ہیں۔ شام میں روس کے اثر و رسوخ پر امریکہ کو تشویش ضرور ہے لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے سے عدم تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ظلم کے ننگا ناچ کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ در اصل مشرق وسطی میں امریکہ کے بڑھتے اثر رسوخ کودیکھتے ہوئے روس نے بھی ایران کی مدد سے شام میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے اور دنیا کی دونوں سپر پاور طاقتیں مقبوضہ علاقے کے حصے بخرے کرنے اور معاشی اثاثوں کی بندر بانٹ کے درپے ہیں۔ پس پردہ یہ دونوں جارح عالمی طاقتیں مشرق وسطیٰ میں امن کے بجائے اپنا تسلط مستحکم بنانا چاہتی ہیں۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق امریکہ اور روس نے فضائی نقل و حرکت کے لئے معلومات کے تبادلے کا معاہدہ کر رکھاہے جس کا مقصد یہ ہے کہ فضا میں ایک دوسرے کے ہدف کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، تاکہ حادثاتی طور پر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ دنیا کا دستور بھی یہی رہاہے کہ طاقتور قومیں کسی بھی ضابطہ ،قانون اور معاہدہ کا پابند خود کو نہیں سمجھتی ہیں، اپنے مقاصد کی تکمیل اور حکومت کا رقبہ بڑھانے کیلئے کسی بھی معاہدہ کی خلاف ورزی میں اسے کوئی دریغ نہیں ہوتا ہے، انسانیت کے قتل عام، بے گناہوں کی موت اور معصوم بچوں کی آہ و بکا سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے ، ان کے نزدیک طاقت کے فروغ ، سلطنت کی وسعت اور اقتدار کی مضبوطی اہم ہوتی ہے۔ امریکہ اور روس نے سپر پاور ہونے کے بعد مسلم ملکوں پر قبضہ کرنے کیلئے یہی فارمولا اپنایا ہے ۔
شام یا یا دیگر مسلم ممالک میں جو کچھ ہوا ہے یا ہورہا ہے وہ ان کی پالیسی کا حصہ ہے ،حقوق انسانی تنظیم یا اقوام متحدہ جیسے اداروں کے قیام کا مقصد دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ناجائز کام کرنا اور اپنی طاقت کو فروغ دیناہے۔ ہمارے مسائل کا حل انہیں لعن طعن کرنے اور حقوق انسانی کی پامالی کا طعنہ دینے میں نہیں ہے اس لئے ہمیں اپنے حکمرانوں کو غیرت دلانی ہوگی ، انہیں ذمہ داریوں کا احساس دلانا ہوگا ، شام کے جلتے دن رات کا درد ان تک پہونچانا ہوگا ۔ مسلم ممالک جب تک خود اپنی پالیسی نہیں بنائیں گے ، خارجہ پالیسی میں مکمل خود مختار نہیں ہوجائیں گے ، جدید جنگی آلات پر انہیں قدرت حاصل نہیں ہوگی اس وقت تک غیروں کے ظلم و ستم کا یہ سلسلہ نہیں رکے گا اور یکے بعد دیگر مسلم ممالک بھی تباہ و برباد ہوتے رہیں گے۔ مسلم حکمرانوں تک اپنی آواز پہونچانے کیلئے ان ممالک کے سفارت خانہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرسکتے ہیں، بذریعہ میل یا ڈاک خط بھیج کر اپنا حتجاج درج کراسکتے ہیں، آخری درجہ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کا استعمال ہے جسے کرتے رہنا چاہیئے ۔
اب بھی وقت ہے کہ امریکہ کے اشارے پر اپنی خارجہ پالیسی طے کرنے والے مسلم حکمران ایمانی غیر ت کو زندہ کریں ، اپنی حیثیت اور شناخت قائم کریں ،ڈر اور خوف محسوس کئے بغیر خود مختاری کا ثبو ت پیش کریں۔ اقتصادی امور میں دوسروں کی تابعداری کے بجائے اپنا ضابطہ اور نظام بنائیں ۔ دوست اور دشمن کے درمیان شناخت کریں اور اس فرمان کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ یہودی ونصاری کبھی بھی آپ کے خیر خواہ اور دوست نہیں ہوسکتے ہیں، صلیبی وصہیونی جنگ ابھی جاری ہے ۔اسلام کی سربلندی ، عظمت رفتہ کی بحالی اور باوقار زندگی جینے کیلئے دنیا کی سپر پاور طاقتوں سے آنکھیں ملائے بغیر کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے ۔ شام کا معاملہ دنیا کا سب سے سنگین مسئلہ ہے ۔ گذشتہ پچاس سالوں میں سنی مسلمانوں کے قتل عام کے دسیوں واقعات کے ساتھ گذشتہ 8 سالوں سے سنی مسلمانوں کا شامی حکومت یا روس کے ہاتھوں مسلسل قتل عام ہورہا ہے۔ شام کے سنی مسلمانوں کی بدنصیبی یہ ہے کہ یکطرفہ کئی محاذ سے ان پر حملہ ہورہا ہے ، حلب ، دمشق ، غوطہ جیسے شہروں میں بشار الاسد کی فوج فضائی حملہ کرکے بے گناہوں کا قتل کررہی ہے ، رقہ ، حصکہ ، قمیشلی اور ڈیر الزور میں یہ داعش کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں۔ امریکہ ، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی برادری کو شام میں جمہوری حکومت کے قیام سے کوئی مطلب نہیں ہے ، خطہ میں شعیت کی بالادستی قائم رکھنے کیلئے ایران بشارالاسد کا اقتدار میں باقی رہنا ضروری سمجھتا ہے ، مشرق وسطی میں قدم جمانے کیلئے بشار الاسدکا ساتھ دیئے بغیر روس کیلئے کوئی چار ہ نہیں ہے ۔ عرب ممالک خود اپنی حفاظت کیلئے امریکی افواج کے محتاج ہیں، کردوں کی بغاوت نے ترکی کو بھی بے بس کر رکھا ہے ، پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی اب تک اتنی مضبوط نہیں ہوسکی ہے کہ وہ روس ، شام اور ایران کے سفیروں کو طلب کرکے اپنا احتجاج تک درج کراسکے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں