حافظ محمد سیف الاسلام مدنی
ملت ٹائمز نے جو ہیڈنگ مولانا سجاد نعمانی کے تعلق سے لگائی ہے، وہ بالکل درست تو نہیں کہی جا سکتی، لیکن اس سے یکسر بے توجہی بھی نہیں کی جا سکتی، یہ حقیقت ہے کہ مولانا سجاد نعمانی نے انٹرویو کے شروع اور آخر میں بڑی وضاحت سے یہ بات کہی کہ میں مولانا سلمان ندوی کے بیان کا خیر مقدم کرتا ہوں اور پوری ملت اسلامیہ کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے، مولانا سجاد نعمانی نے ملی افراد سے یہ درخواست بھی کی اب اس معاملے کو زیادہ طول نہ دیا جائے، اور اگلا لائحہ عمل تیار کیا جائے، لیکن ٹھیک مولانا سجاد نعمانی صاحب سے بھی وہی غلطی ہوگئی جو مولانا سلمان حسینی ندوی سے ہوئی، انہوں نے بھی ایک وضاحتی بیان جاری کرکے کہا تھا کہ میں اپنے ایجنڈے سے بابری مسجد کا معاملہ خارج کرتا ہوں لیکن ویڈیو کے آخر میں یہ کہہ گئے کہ اگر میری واپسی بورڈ میں ممکن ہو سکتی ہے تو پہلے بورڈ کی تطہیر کی جائے، اور اویسی صاحب، کمال فاروقی اور دیگر لوگوں کو باہر کیا جائے اس کے ، بعد سے سوشل میڈیاکی سرخیوں پر پھر مولانا ندوی آگئے اور معاملہ دبنے کے بجائے اور ابھر گیا، اسی طرح سے مولانا سجاد نعمانی نے امت سے اپیل ضرور کی کہ وہ اس معاملہ کو طول نہ دیں مگر ایک غلطی کر بیٹھے اور یہ کہہ دیا کہ وسیم رضوی نے میرے خلاف جو مقدمہ درج کیا ہے اس میں میرے تعلق سے کوئی نئی بات نہیں لکھی، بلکہ اسی ویڈیو کا حوالہ دے کر، مقدمہ درج کرایا ہے جو میرے محترم دوست مولانا سلمان ندوی نے انڈیا ٹی وی پر دکھایا تھا اور کہیں نہ کہیں وسیم رضوی نے اسی کو بنیاد بنایا ہے،!
یہ وہ ہیڈنگ ہے جو قدرے تبدیلی کے ساتھ ملت ٹائمز کے پورٹل سے شائع ہوئی، گویا کہ مولانا سجاد نعمانی خود اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ کسی حد تک اس ویڈیو کو بنیاد بنایا گیا ہے جو مولانا سلمان ندوی نے دکھائی تھی، اب دیکھئے کس طریقہ سے کچھ شدت پسند لوگ ملت ٹائمز کو ایکسپوز کررہے ہیں اور اسکے بائکاٹ کی اپیل کررہے ہیں۔
جہاں تک ویڈیو کی تعلق ہے، تو میں یہ کہوں گا، کہ مولانا سجاد نعمانی کا ویڈیو یوٹوب پر موجود ہے اور لاکھوں لوگ اس ویڈیو کو دیکھ چکے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اگر وسیم رضوی پہلے ہی سے اس ویڈیو کو جانتا تھا تو اس سے قبل اسنے مولانا سجاد صاحب پر مقدمہ کیوں دائر نہیں کرایا انڈیا ٹی وی کے انٹرویو کے بعد ہی کیوں؟
جہاں تک ملت ٹائمز کی بات ہے، شمش تبریز قاسمی ایک حق پسند غیر جانبدار صحافی ہیں اور بذات خود عالم بھی ہیں دارالعلوم دیوبند جیسے مستند ادارے سے فارغ ہیں، جس طریقہ سے انکے خلاف محاذ آرائی ہو رہی ہے وہ قابل مذمت ہے!
فیسبوک پر لکھے ہوئے آرٹیکل پڑھ کر یہ اندازہ ہوا ہے کہ علماء اور پڑھا لکھا طبقہ کس قدر جلد باز ہوتا ہے، اور تنقید بھی برائے تعمیر نہیں، بلکہ برائے تخریب کرتا ہے جو بظاہر دیکھنے اور پڑھنے میں دشمنی اور عناد پر مبنی معلوم ہوتا ہے!
اگر اہل دانش اور اہل علم حضرات کو انکی ہیڈنگ قابل اعتراض معلوم ہوئی تو اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں، کہ کسی کو گالیاں دی جائے کسی کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے، اور اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت دیا جائے، جو حضرات کسی کے خیر خواہ ہوتے ہیں وہ انداز تعمیری رکھتے ہیں متعصبانہ نہیں!