تھوڑی سی مسکراہٹیں ان میں بھی بانٹیئے

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
جس وقت تک آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے‘ وزیر اعظم نریندر مودی ایک دن کے برت رکھ چکے ہوں گے۔ غالباً آزاد ہندوستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع رہا ہوگا جب کسی وزیر اعظم نے اپوزیشن کے رویہ کے خلاف احتجاجی اقدام کے طور پر برت رکھا ہے۔ اپوزیشن نے پارلیمانی سیشن کی کاروائی چلنے نہیں دی۔ اس کے خلاف ان کا احتجاج انوکھا سہی واجبی تو ہے۔ پارلیمنٹ کی کاروائی پر فی منٹ ڈھائی تا تین لاکھ کے مصارف ہوتے ہیں‘ اتنے دن کاروائی نہیں چلنے دی‘ کتنے کروڑوں کا نقصان ہوا‘ ظاہر ہے وزیر اعظم کو اس کا اتنا ہی افسوس ہوگا جتنا مختلف بینکس اسکامس پر ہوا ہے۔ جتنا کہ ہزاروں کروڑ لے کر رفوچکر ہونے والے نیرو مودی‘ مالیہ‘ للت مودی وغیرہ پر ہوا ہوگا۔ بلاشبہ وہ اس بھارت مہان کے مہان پردھان منتری ہیں جو ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ چاہتے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے اچھے دن آجائیں۔۔۔ بیرونی ممالک کے بینکوں کیا خفیہ اکاؤنٹس سے کالا دھن واپس لائیں۔ اب وہ کیا کریں کہ خود اپنے ملک کے بینکوں سے ہزاروں کروڑ غائب ہوچکے ہیں۔ شائد یہ اتفاق ہی ہوگا کہ یہ ہزاروں کروڑ لے کر ملک سے فرار ہونے والوں کی اکثریت سے ان کے روابط بڑے اچھے رہے۔ ایسا ہوتا ہے۔۔۔ پچھلی حکومتوں کے دور میں بھی ہوا ہوگا۔بہر حال جو بھی ہوا‘ انہیں تو ایک دن کا برت رکھنا تھا نا۔۔۔ کیوں نہ رکھیں؟ راہول گاندھی نے بھی تو رکھا تھا نا۔۔۔ اگر چہ کہ برت سے پہلے ڈٹ کر ’’چھولے بٹورے ‘‘ بھی کھائے۔ سیاسی برت کے موقعوں پر ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ویسے یہ چھولے بھٹورے انہوں نے برت شروع کرنے سے پہلے کھائے‘ برت کے دوران تو نہیں کھائے۔ ان کا مضحکہ اڑانا غلط ہے۔
مرن برت ‘ بھوک ہڑتال تو ہماری سیاست اور جمہوریت کا لازمی جز ہے۔ اگر بھوک ہڑتال یا احتجاجی برت کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ’’راماین‘‘ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ بھرت نے سری رام سے بن باس ختم کرکے اپنا راج پاٹھ سنبھالنے کے لئے کہا۔ جب ان کی بات نہیں سنی گئی تو انہوں نے برت رکھنے کا اعلان کیا‘ جس پر رام نے ان سے درخواست کی کہ وہ ایسانہ کریں۔ (وکی پیڈیا۔ راماین۔ ایودھیا کاکاندا)
بھوک ہڑتال یا برت عدم تشدد کے ساتھ احتجاج کی ایک کڑی ہے۔ بیسویں صدی میں امریکہ اور برطانیہ میں خواتین کے حق رائے دہی کے لئے تحریک چلانے والی خواتین کی بھوک ہڑتال کا ذکر ملتا ہے۔ 1909ء میں برطانوی جیل میں میرین ڈنکپ نے بھوک ہڑتال کی ‘ تاہم جیل حکام نے انہیں زبردستی خوراک دی‘ جسے اذیت رسانی کہا گیا۔ اس زبردستی کے نتیجہ میں میری کلارک کی موت واقع ہوئی تھی۔
اینگلو – آیرش جنگ (1916-23) کے دوران آیرش قائدین نے 94 روزہ احتجاج کے دوران بھوک ہڑتال کی اور اپنے حقوق منوائے تھے۔ اکتوبر 1923ء میں خانہ جنگی کے خاتمہ کے بعد آٹھ ہزار آیرش قیدیوں نے مسلسل قید کے خلاف بھوک ہڑتال کی اور بڑی حد تک ان کے مطالبات تسلیم کرلیئے گئے تھے۔
تاریخ میں بھوک ہڑتال برت یا مرن برت کے لئے سب سے زیادہ مشہور گاندھی جی ہوئے۔ برطانوی سامراج کے خلاف انہوں نے کئی بار برت رکھے۔ اور آزادی کے بعد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے بھی انہوں نے مرن برت رکھا تھا۔ بھگت سنگھ نے 116 دن تک بھوک ہڑتال کی۔ برطانوی سامراج کو ان کے آگے جھک جانا پڑا تھا۔
1952ء میں پوٹی سری راملو نے تلگو ریاست کے لئے 58 دن تک بھوک ہڑتال کی اور اس میں اپنی جان قربان کردی۔ ان کی موت نے حکومت ہند کو دہلاکر رکھ دیا۔ اور آخر کار لسانی بنیادوں پر آندھراپردیش کی تشکیل ہوئی۔
لگ بھگ نصف صدی بعد آندھراپردیش سے تلنگانہ کی علحدگی اور ایک نئی ریاست کی تشکیل کے لئے مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے تاریخ ساز مرن برت رکھا۔ جس سے ان کی صحت ناساز ہوگئی۔ مرکزی حکومت اس موقع پر کوئی جوکھم لینا نہیں چاہتی تھی۔ چنانچہ اس نے تشکیل تلنگانہ کا اعلان کردیا اور یو پی اے کو یہ اعلان مہنگا پڑا کیونکہ تلنگانہ اور آندھرا دونوں جگہ سے اس کا اقتدار ختم ہوگیا۔ خود ٹی آر ایس نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔
جہاں تک بھوک ہڑتال یا مرن برت کے لئے عالمی شہرت حاصل کر نے والوں کا جائزہ لیا جائے تو منی پور کی آئرن لیڈی ایروم شرمیلانے اپنی ریاست کے قوانین‘ پولیس مظالم کے خلاف 16 سال تک بھوک ہڑتال کی۔ 2000ء سے ان کی بھوک ہڑتال کا آغاز ہوا تھا۔ 2016ء میں انہوں نے ایک تاریخ مرتب کرتے ہوئے بھوک ہڑتال ختم کی۔ ان 16 برسوں میں انہوں نے غذا نہیں لی۔ آئینہ نہیں دیکھا اور نہ ہی سر میں کنگھی کی۔ اس خاتون کو ساری دنیا نے سراہا۔ مگر خود منی پور کے عوام نے بڑی سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ جب انتخابات میں وہ امیدوار بنیں تو انہیں 100 ووٹ بھی نہیں ملے۔
بھوک ہڑتال اور مرن برت کے لئے انا ہزارے کافی جانے جاتے ہیں۔ اس بزرگ رہنماء نے بدعنوانی ‘ رشوت سے پاک ہندوستان کے لئے کئی تحریکات چلائیں۔ مرن برت رکھے۔ قانون حق معلومات ان ہی کی بھوک ہڑتال کی دین ہے۔ لوک پال بل کے لئے بھی انہوں نے مرن برت رکھا تھا۔ حکومت کے تیقن پر انہوں نے برت توڑا اور حکومت نے بھی وعدہ وفا نہیں کیا۔
نرمدا آندولن کی محرک میدھا پاٹیکر نے کئی بار بھوک ہڑتال کی اور مرن برت رکھے۔ اکثر ہندوستانی جیلوں میں جیل حکام کے خلاف اور غیر انسانی سلوک پر قیدی احتجاج کرتے ہیں۔ بھوک ہڑتال شروع کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر انہیں کامیابی ملتی ہے۔
فلسطینی مجاہدین ‘ اسرائیلی جیلوں میں مہینوں بھوک ہڑتال کرتے ہیں ۔ چونکہ خبریں سنسر ہوکر دنیا تک پہنچتی ہیں۔ اس لئے صحیح اطلاعات نہیں ملتیں۔ جہاں تک وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک روزہ برت کا تعلق ہے۔ ان کے لئے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ کیونکہ اپنے دورہ امریکہ کے دوران وہ نوراتری کے برت پر تھے۔ جتنے بھی دن وہ امریکہ میں رہے‘ انہوں نے کوئی خوراک نہیں لی بلکہ صرف لیموں پانی پر رہے‘ سادہ پانی لیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک روزہ برت کے دوران ان سے یگانگت کا اظہار کرنے والے بی جے پی قائدین جو پورے ملک میں برت رکھیں گے ‘ ان کا کیا حال ہوگا۔ راہول گاندھی اور ان کے ساتھیوں کی طرح کیا یہ بھی برت شروع ہونے سے پہلے ڈٹ کر کھائیں گے۔ اگر کھا بھی لیں تو وہ کوشش کریں گے کہ وہ تصاویر سوشیل میڈیا پر وائرل نہ ہوں۔ کیونکہ اگلا گرا تو پچھلا ہوشیار۔
برت واقعی رکھا جائے تو دوسروں کی بھوک کی احساس ضرور ہوگا۔
ہندوستان ترقی پذیر ملک ہے جو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونے کے لئے بے چین ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک کی نظر ہم پر ہے۔ ہمارے وسائل پر ہے۔ افرادی قوت پر ہے۔ آج ترقی یافتہ ممالک کو ترقی یافتہ بنانے میں ہندوستانی ٹیکنو کریٹس کا بڑا اہم رول ہے۔ تاہم اس حقیقت کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے کہ اب بھی ہماری آبادی کے ایک بڑے حصہ کو پیٹ بھر دو وقت کی روٹی نہیں ملتی۔ اب بھی غربت اور فاقہ کشی سے اموات واقع ہوتی ہیں کیونکہ ہر شہری کو بالخصوص سماج کے غریب طبقہ کو ان کا حق نہیں ملتا۔ ہزاروں لوگ فاقہ کشی سے مرجاتے ہیں اور سینکڑوں ٹن غلّہ گوداموں میں سڑ جاتا ہے۔ پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت بہت کچھ دیا جاسکتا ہے۔ مگر سسٹم ناکارہ ہے ۔ جس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کا ایک تہائی اناج کی پیداوار ہندوستان میں ہوتی ہے اورافسوس کہ سربراہی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے 30 فیصد ضائع ہوجاتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی آبادی کا 14.5 فیصد حصہ ناقص خوراک کی وجہ سے بیمار رہتا ہے۔ ہر روز 190.7 ملین ہندوستانیوں کو فاقہ سے رہنا پڑتا ہے۔ ناقص خوراک کی وجہ سے ہر روز3 ہزار بچے کسی نہ کسی مرض کا شکار ہوکر فوت ہوجاتے ہیں۔ 24 فیصد پانچ سال سے کم عمر بچوں کی موت واقع ہوتی ہے۔5 سال سے کم عمر 21 فیصد بچوں کا وزن کم ہوتا ہے۔ 51.4 فیصد 15 سے 49 سال کی عمر کی ہندوستانی خواتین خون کی کمی کی وجہ سے مختلف امراض کا شکار ہوتی ہیں۔
کاش ایک دن کا برت رکھنے والے اس بات کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لیں ۔ برت رکھنے سے انہیں دوسروں کی بھوک کا احساس ہوتا ہے جیسا کہ روزہ رکھنے سے ہوتا ہے۔ مگر برت اور روزہ میں فرق ہے۔ روزہ احتجاج یا دکھاوے کے لئے نہیں رکھا جاتا بلکہ تزکیہ نفس اور روزہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ جب سے سیاسی افطار پارٹیوں کا دور شروع ہوا‘ تب سے رمضان اور روزہ ی عظمت اور تقدس متاثر ہوا ہے۔ روزہ دار ‘ ہر غلط اور حرام خوراک اور عمل سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔ سیاسی افطار پارٹیوں کا اہتمام کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ اس کے اسپانسر کون ہیں؟ لینڈ گرابرس؟ سود خور؟ شراب کے ٹھیکہ دار ؟ یا حقوق العباد کو پامال کرنے والے؟ یہ کون دیکھتا ہے۔ فکر تو صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ کس طرح سے اعلیٰ سطحی افطار ڈنرس میں شرکت کی جائے۔ غنیمت تو یہی ہوتا ہے کہ ان افطار پارٹیوں میں اکثریت روزہ داروں کی نہیں ہوتی۔ چونکہ ان افطار ڈنرس کا مقصد آپسی رواداری ‘ بھائی چارگی ‘ ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوتا ہے‘ اس لئے اس بارے میں زیادہ کچھ کہنا لکھنا مناسب نہیں۔
ویسے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی مثال ضرور دی جاسکتی ہے جنہوں نے راشٹراپتی بھون میں افطار ڈنر کی روایت کو ختم کیا۔ اس جواز کے ساتھ کہ اس میں شریک ہونے والے سب ہی مرفع حال ہوتے ہیں۔ انہوں نے راشٹراپتی بھون میں ہونے والے افطار ڈنر کے سرکاری بجٹ کے مساوی رقم اپنی جیب سے اضافہ کرکے اس مجموعی رقم سے یتیم خانوں میں طعام کا اہتمام کیا۔ ایسا ہی ہمیں کرنا چاہئے کیونکہ بقول شاعر ؂
تھوڑی سی مسکراہٹیں ان میں بھی بانٹیئے
ویرانیوں نے لے لیا جن کو حصار میں

(مضمون نگار ’ گواہ اردو ویکلی ‘ حیدر آباد کے چیف ایڈیٹر ہیں)
ای میل: fazilparvez@gmail.com
فون: 09395381226

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں