کرناٹک اسمبلی انتخابات اور عوام کی ذمہ داری

نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
2019 کے عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے، اس سے قبل ہونے والے اسمبلی انتخابات پر مرکز میں بر سر اقتدار بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کی خصوصی نظر ہے ۔ گجرات، ہماچل پردیش، تری پورہ اور میگھالیہ سمیت کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے بعد کرناٹک اسمبلی انتخابات پر سبھی کی نظریں جمی ہوئی ہیں ۔تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے۔ 12 مئی کو یہاں ووٹ ڈالے جائیں گے اور 15 کو گنتی ہوگی ۔دونوں انتخابات جیتنے کیلئے بی جے پی نے فرقہ پرستی کی سیاست شروع کردی ہے۔ یکے بعد دیگر ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہورہے ہیں جس میں بی جے پی لیڈران اور اس سے جڑے لوگ ملوث پائے جارہے ہیں ۔ بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں فسادات کا سلسلہ مزید طویل ہوگیا ہے ۔ گذشتہ 25 مارچ کو رام نومی کے جلوس پر بھی بنگال، بہار، راجستھان سمیت ملک کی متعدد ریاستوں میں فساد کی چنگاری بھڑک گئی اور ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا گیا ، ان پر حملہ کیا گیا، خواتین کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔ میڈیا اور دیگر زمینی رپوٹس کے مطابق آسنسول، بھاگلپور اور الور وغیرہ میں رام نومی کے جلوس کے موقع پر فساد کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ہتھیار تقسیم کئے گئے تھے اور یہ پلاننگ تھی کس طرح کے اشتعال انگیز نعرے لگانے ہیں ۔کس طرح مسلمانوں کو نشانہ بناناہے۔ آل انڈیا ملی کونسل کے مقامی ذمہ داران نے بھی ان باتوں کی تصدیق کی ہے ۔ بنگال کے علاوہ یہ تمام ریاستیں وہ ہیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ۔
نیشنل کرائم ریکاڈ بیورو کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں 2000 سے زائد فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے ہیں جس میں تین سو کے قریب عوام کی اموات ہوئی ہے ، ہزاروں کا نقصان ہواہے ۔سب سے خاص بات یہ ہے کہ 2014 کے مقابلے میں گذشتہ تین سالوں میں فسادات کی شرح 41 فیصد بڑھ گئی ہے ۔یہ فسادا ت بھی یوپی ۔مدھیہ پردیش۔ گجرات ۔مہاراشٹرا ۔بہار اور راجستھان میں سب سے زیادہ ہوئے ہیں جہاں بی جے پی یا اتحادی کی حکومت ہے۔ اتر پردیش سب سے ٹاپ پر ہے ۔ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپوٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت کی مدت جیسے جیسے بڑھ رہی ہے ویسے فسادات کی فیصد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ چناں چہ 2014 کے مقابلہ میں 2015 میں زیادہ فسادات ہوئے ۔اسی طرح بالترتیب 16 اور 17 میں فسادا ت ہوئے ہیں ۔2018 کی رپوٹ آنی ابھی باقی ہے جو ملک بھر میں جاری پرکشیدہ ماحول کے پیش نظر سب سے زیادہ اعداد و شمار پر مشتمل ہوگی ۔
مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کے خلاف بھی کریک ڈاﺅن جاری ہے۔ بی جے پی حکومت آنے کے بعد دلت سماج شدید پریشانی اور مصائب کا سامنا کررہا ہے۔ گذشتہ 2اپریل کو دلتوں کی جانب سے بھارت بند تحریک کے دوران بھی ان پر حملہ کیا گیا ۔انہیں نقصان پہونچانے کی کوشش کی گئی۔ ان کی گرفتاری کی سلسلہ جاری ہے اور اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں دلتوں کو مسلسل ٹارگٹ کیا جارہا ہے، انہیں پریشان کرکے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ تمہیں زبان کھولنے کا حق نہیں ہے، ہم سے برابری کی باتیں کرنا چھوڑ دو۔ چناں چہ سچائی یہی ہے کہ 2018 میں بھی دلتوں کو انسانی وقار نہیں مل سکا ہے۔ سماجی افرا تفری کے وہ شکار ہیں ۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر انہیں غلام بنانے کی سازش کی جارہی ہے ۔
ان تمام فسادات کا مقصد جذباتی بنیاد پر ہندﺅوں کو متحد کرنا ، ہندو مسلم کے درمیان نفرت قائم کرنا اور مذہبی بنیاد پر اقتدار تک پہنچنا ہے ۔ کرناٹک جیتنے کے پیش نظر اب یہ سب منظم انداز میں کرناٹک میں کرائے جارہے ہیں۔کئی مقامات پر وہاں فسادات رونما ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جانے والا میڈیا اپنی ذمہ داری صحیح انداز میں نہیں نبھارہا ہے۔ حقائق پیش کرنے کے بجائے حکمراں پارٹی کی قصیدہ خوانی اس کا مشغلہ بن گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کرناٹک جیسی ریاست کے بارے میں بھی عوام کو زیادہ پتہ نہیں ہے جس نے تمام محاذ میں ترقی کی ہے ۔ ہندوستان کی تمام ریاستوں میں ترقی کے اعتبار سے کرناٹک نمبر ون ہے ۔ سب سے زیادہ آئی ٹی آئی اور دیگر تعلیمی ادارے وہاں ہیں۔ عوام خوشحال ہے ۔ ملازمت کی شرح دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں بہتر ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے سوچھ ابھیان بھارت مہم میں بھی نمبر ون یہی ریاست ہے ۔ ہر شعبہ میں کرناٹک نے صرف ترقی کی ہے بلکہ اسے نمبر ون کا مقام حاصل ہے لیکن میڈیا کی جانبداری اور عدم ایمانداری کی وجہ سے عوام ان حقائق کو جاننے سے محروم ہے ۔ دوسری طرف خلاف واقعہ اور منفی جملے اور نفر ت انگیزیں باتیں میڈیا کی سب سے اہم نیوز ہوتی ہیں۔ انہی چیزوں پر مکمل توجہ ہوتی ہے۔ میڈیا کی اس رپوٹنگ کی وجہ سے غلط ماحول قائم ہوتاہے۔ منفی فضاء بنتی ہے۔ ملک کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے ۔ ووٹرس دھوکہ کے شکار ہوجاتے ہیں اور وہ صحیح لیڈر کو منتخب کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ہمارے پا س ایسا کوئی نظام بھی نہیں ہے جس میڈیا کے منفی پروپیگنڈہ سے بچا جاسکے یا ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کی جائے اور اگر کوئی صورت نکلتی بھی ہے تو اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔
اب تک جن ریاستوں میں انتخابات ہوئے ہیں وہاں کے نتائج عوام کی مرضی کے خلاف آئے ہیں ۔جیتنے والی پارٹیوں کو عوامی حمایت کے بجائے مشین کے ذریعہ کامیابی ملی ہے۔ انگوٹھے کی جگہ مشین کا فارمولا کام کررہا ہے۔ اس طریقہ پر عوام کا اعتماد اٹھ گیاہے ۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی مشین کے ذریعہ ووٹنگ نہیں ہورہی ہے ۔ جمہوریت کی بقا اور شفاف انتخابات کا دار و مدار اسی پر ہے کہ بیلٹ پیپر سے انتخابات کرائے جائیں۔ عوام یہی چاہتی ہے اور اسی میں جمہوریت کی بقاء اور استحکام کا راز مضمر ہے ۔ الیکشن کمشنر کو اس جانب توجہ دینی چاہیئے اور عوامی رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے بلیٹ پیپر کے نظام کو دوبارہ واپس لانا چاہیے۔
ملک کے ماجودہ ماحول اور میڈیا کی جانبدارانہ رپوٹنگ کے دور میں کرناٹک کی عوام کیلئے سخت آزمائش ہے ، میڈیا کے ذریعہ منفی پیروپیگنڈہ کرکے یہ دکھایا جارہا ہے کہ وہاں سدار میا حکومت نے عوام کیلئے کچھ نہیں کیاہے جبکہ زمینی سچائی اس کے برعکس ہے ۔ گراؤنڈ رپوٹ یہ بتاتی ہے کہ کرناٹک تمام شعبوں میں نمبر ون ہے ۔ ہندوستان کی تمام ریاستوں میں وہ خوشحال ہے اور ترقی میں اس کوئی نظیر نہیں مل سکتی ہے۔ کرناٹک کی انہیں خوبیوں کی بنیاد پر پوری دنیا کی نگاہ اس پر مرکوز ہے۔ وہ تعلیمی مرکز اور ٹیکنالوجی کا گہوارہ ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ عوام تعلیم یافتہ اور باشعور ہے ۔اس لئے پوری دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ کرناٹک کی عوام کیا فیصلہ کرتی ہے ،کن کو ووٹ دیتی ہے ۔اگلی حکومت کن کی ہوگی ۔کیاوہاں کی تعلیم یافتہ عوام بھی میڈیا کے پروپیگنڈہ کا حصہ بن کر ووٹنگ کرے گی ۔ حقائق کے پیش نظر ٹی وی رپوٹ کی بنیاد پر اپنی قیادت کا انتخاب کرے گی یا پھر وہ حکمت عملی اور شعور سے کام لے گی ۔ زمینی حقائق کے مطابق وہاں کی عوام اپنا ووٹ دے گی ۔کرناٹک کے موجودہ ماحول میں وہاں کے علماء، ائمہ ، پنڈٹوں، دانشوران، سماجی کارکنان، مذہبی رہنما ، ماہرین تعلیم ، مختلف مذاہب اور سماج سے تعلق رکھنے والے قائدین اور تمام سرکردہ شخصیات کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام میں سیاسی بیداری پیدا کر ے۔ ان پارٹیوں کے حق میں تحریک چلائے جنہوں نے عوام کیلئے کام کیاہے۔ ان کے حق میں فضا ساز گاریں کریں، جن کی وجہ سے کرناٹک نے نمایاں ترقی حاصل کی ہے ۔ جن کے دور اقتدار میں جمہوریت اور سیکولرزم کے اصولوں کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے ۔کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج براہ راست 2019 کے لوک سبھا انتخابات پر اثر انداز ہوں گے ۔ یہیں سے اس کے بارے میں فیصلہ طے کیا جائے گا ،عوام کی ذہنیت تبدیل ہوگی ۔ اس لئے اہل کرناٹک پر بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کو سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور ان طاقتوں کو شکست سے دوچار کریں جنہوں نے اقتدار پانے کے بعد نفرت ۔ ہندو مسلم ۔ فساد اور غریبوں کا استحصال کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا ہے ۔
(کالم نگار معروف اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)