غزل
کبھی حیات کی زنجیر سا لگے ہے مجھے
کبھی وہ عکس کبھی آئنہ لگے ہے مجھے
جنون عشق کا چہرہ بھی کیا لگے ہے مجھے
کبھی امید کبھی حوصلہ لگے ہے مجھے
کبھی حیات کی زنجیر سا لگے ہے مجھے
میں تیرے در پہ جبیں کیا جھکا لیا تب سے
زمیں زمان سبھی زیرِ پا لگے ہے مجھے
جو کل تلک مرے دل کی دعا سا لگتا تھا
وہ شخص آج محض بد دعا لگے ہے مجھے
وہ ہنس رہے ہیں مگر طنز لے کے باتوں میں
دلوں کے بیچ یہاں فاصلہ لگے ہے مجھے
جو میرے اشک پہ روتا رہا کئی برسوں
نہ جانے رشتئہ انساں میں کیا لگے ہے مجھے
یہ زندگی بھی جو پائی تو چند لمحوں کی
یہ ہلکے پانی پہ اک بلبلہ لگے ہے مجھے
میری ہنسی کو جو لوٹا ہے زندگی کے لیے
ہنسے وہ شخص تو کیوں ضرب سا لگے ہیں مجھے
نثار آپ کا لہجہ قسم خدا کی یہاں
کسی غریب کے دل کی صدا لگے ہے مجھے
٭٭٭٭
احمد نثار
E-mail: ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in