ہالینڈ،20؍جنوری
ایجنسی ؍ملت ٹائمزبیورو
ڈچ حکام کے مطابق ہالینڈ میں پناہ گزینوں کی مجوزہ رہائش گاہ کے خلاف احتجاج متشدد صورت اختیار کر گیا۔ گزشتہ ماہ بھی ایسے ہی ایک مظاہرے کے دوران جھڑپوں کے بعد پولیس کو ہوائی فائرنگ کا سہارا لینا پڑا تھا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ڈچ میڈیا اور حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیر کی شب ہالینڈ کے کئی قصبوں میں مہاجرین کی مجوزہ رہائش گاہوں کے خلاف پر تشدد احتجاج کیا گیا۔ تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے ہالینڈ میں خاصی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
گزشتہ برس کے اختتام پر بھی ہالینڈ کے شہر اُٹرَیشٹ کے قریب ہی واقع گیلڈرمالسن نامی قصبے میں پناہ گزینوں کی مجوزہ رہائش گاہ کے خلاف مظاہرہ کیا گیا تھا۔ احتجاج میں شامل نوجوان مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں کے بعد صورت حال کو قابو میں لانے کے لیے پولیس کو ہوائی فائرنگ کرنا پڑی تھی۔
پیر اٹھارہ جنوری کی رات ایسے ہی مناظر دوبارہ اس وقت دیکھے گئے جب ہالینڈ کے ہِیش نامی قصبے میں ایک ہزار سے زائد افراد مہاجرین کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ صورت حال اس قدر کشیدہ ہو گئی کہ پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس دوران پولیس نے کتنے مظاہرین کو گرفتار کیا اور کتنے لوگ پر تشدد مظاہرے کے دوران زخمی ہوئے۔
گزشتہ رات آٹھ بجے ہِیش قصبے کی بلدیہ میں ایک اجلاس ہو رہا تھا جس کے دوران قصبے میں آئندہ دس برسوں کے لیے پانچ سو پناہ گزینوں کو رہائش فراہم کرنے کے لیے فیصلہ کرنا تھا۔ منصوبے کے مخالفین نے اپنے فیس بک پیج کے ذریعے مقامی افراد سے بلدیہ کے باہر احتجاج کے لیے جمع ہونے کی اپیل کی تھی۔
تاہم ولندیزی خبر رساں ادارے اے این پی کے مطابق درجنوں مظاہرین نے بلدیہ کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کے بعد ماحول کی کشیدگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ اس کے بعد مظاہرین خالی عمارت پر آتش بازی مواد اور انڈے پھینکتے ہوئے حملہ آور ہو گئے۔قصبے کے میئر نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ مظاہرین کے بے قابو ہونے کے بعد انہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس کو اضافی اختیارات دے دیے گئے تھے۔ رات گئے پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے اور امن و امان بحال کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
یورپ میں جاری پناہ گزینوں کے موجودہ بحران کے دوران ہالینڈ میں چوّن ہزار سے زائد تارکین وطن کو پناہ دی گئی ہے۔ ڈچ حکومت کو پناہ گزینوں کے لیے رہائش فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری جانب مہاجرین کے بارے میں ولندیزی عوام کی رائے بھی منقسم ہے۔
گزشتہ رات ہونے والے فسادات ہالینڈ کے دائیں بازو کے معروف رہنما اور فریڈم پارٹی کے سربراہ گیئرٹ ولڈرز کی تقریر کے ایک گھنٹے بعد شروع ہوئے تھے۔ ولڈرز نے گزشتہ روز مطالبہ کیا تھا کہ مسلمان مردوں کو پناہ گزینوں کے مراکز میں مقید رکھا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمن شہر کولون میں خواتین پر ہونے والے جنسی حملوں کے بعد ولندیزی خواتین کے تحفظ کے لیے ایسے اقدامات نہایت ضروری ہیں۔