نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
رمضان المبارک سال کا سب سے مقدس اور اہم ترین مہینہ ہے ،اس ماہ میں مسلمانوں پر روزہ رکھنا فرض کیاگیا ،اسی میں قرآن کریم کا نزول ہوا،اسی میں لیلة القد رہے جس ایک رات کی عبادت ہزار راتوں کی عبادت سے افضل ہوتی ہے ۔اسی ماہ کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کا اہتمام کیا جاتاہے ۔
روزہ اسلام کے پانچ فرائض میں سے ایک ہے جس کا مقصد تقوی کا حصول اور دلوں میں اللہ تعالی کی رضا ءورغبت کا پیدا ہونا ہے ۔قرآن کریم نے واضح طور پر کہاہے اے ایمان والو!تم پر ماہ صیام کا روزہ فرض کیاگیاہے جیساکہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیاگیا تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہوجائے ۔لغت میں تقویٰ کا معنیٰ ڈرنا، بچنا اور چھوڑ دینا آتاہے ۔اصطلاح میں تقویٰ کا مفہوم ہے اللہ تعالی کی محبت میں نفسانی خواہشات پر عمل نہ کرنا، اللہ جل شانہ کے سامنے جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے گناہوں سے اجتناب کرنا، پرہیزگاری اختیار کرنا، برے کاموں، بے حیائی اور بے ہودہ باتوں سے نفرت کرنا، ہر شیطانی خواہش کو سینے میں دفن کردینا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہر وہ کام کرنا جس سے رب تعالیٰ راضی ہو تا ہے۔ ان تمام کاموں کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی زندگی اپنے پر وردگارکے احکامات اور رسول عربی کے سنہرے اور خوب صورت اطوار کی عکاس بن جائے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ تقویٰ دراصل اللہ تعالیٰ سے ڈرنے، شریعت پر عمل کرنے، جو مل جائے اس پر قناعت کرنے اور قیامت کے دن کی تیاری کرنے کا نام ہے ۔
رمضان المبارک اور قرآن کریم کا گہرا رشتہ ہے ۔اسی ماہ میں قرآن مقدس کا نزول ہواجو کتاب ہدایت اور سرچشمہ فلاح ہے ، جس میں پوری انسانیت کی کامیابی وکامرانی کا سامان ہے۔ جو مکمل فطری دستور حیات مہیا کرتا ہے۔ اس کی ہدایات پر عمل کر نے والا سعادت دارین سے ہمکنار ہوتا ہے۔جو سیدھی اور سچی راہ دکھاتا ہے۔قرآن حکیم وہ واحد کتاب ہے جس کے حفاظ دنیا میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں ۔جس کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ جس کا پڑھنا اور سننا دونوں باعث ثواب ہے ۔
قرآن مجید میں معاشرہ کے تمام طبقات کے لیے واضح رہنما ہدایات ہیں۔وہ اونچے اخلاق ، عمدہ اوصاف اور پاکیزہ صفات کا داعی ہے۔ نارو اسختی و درشتگی، فحاشی وبیہودہ گوئی، کبر ونحوت، فخر وغرور، خاندانی و قبیلہ جاتی تعلی، غیبت وچغلخوری، زناکاری وبدکاری، چوری وڈاکہ زنی، تعصب وہٹ دھرمی، آپس کے اختلافات جیسے مذموم صفات پرنکیر کرتے ہوئے حتی الامکان ان سے منع کرتا ہے۔ ارفع وادنیٰ، کالے اور گورے کے کے درمیان تفریق کے تصور کو نیست و نابود کرتے ہوئے اسے معاشرہ کا کینسر بتلا تا ہے۔ کیونکہ اس سے معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوگا اور قوم روبہ تنزل ہوگی۔انسانوں کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے کائنات میں غور وفکر کی دعوت دیتاہے کہ غور کرو اور سوچو !کون ہے اس دنیا کا خالق ،کس نے آسمان زمین کی تخلیق کی ہے ،کس نے دن ورات کو بنایاہے ،کون ہے اس کا ئنات کا پرودرگا ر ۔انسان جب غور وفکر کرتاہے تو اس نتیجہ پر پہونچتاہے کہ یہ دنیا خود بخود وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ کوئی نہ کوئی اس کا خالق اور پر وردگار ہے جو اللہ رب العزت کی ذات ہے ۔انسانوں کو اللہ تعالی نے اپنا خلیفہ بناکر زمین پر بھیجاہے ،انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ انسانیت کی بھلائی کا کا م کریں،بنی نوع آدم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں ۔انہیں نیکیوں کی جانب آمادہ کریں ۔برائیوں سے بچائیں ۔بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کا کام کریں ۔اللہ تعالی کی واحدانیت کی تبلیغ کریں ۔شرک وبدعت کے خلاف مہم چلائیں ۔اللہ تبارک وتعالی نے جنہیں یہ ذمہ داری سونپی انہیں یہ بھی بتادیاکہ یہ سب کام متحدہوکر کرناہے ،آپس میں کوئی تفرقہ اور انتشار نہیں ہونی چاہیئے ۔چناں چہ قرآن کریم میں فرمایاگیا ” اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور اختلاف مت کرو “ (سورہ آل عمران ۔آیت نمبر1-3) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے واضح طور پر کہ دیاکہ ذمہ داریوں کی بحسن وخوبی ادائیگی اور اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے آپسی اتحاد و اتفاق ضروری ہے ۔اس کے بغیر کامیابی نہیں مل سکتی ہے ۔ماہ مبارک اور قرآن کریم کے درمیان گہرا رشتہ ہونے کی وجہ سے ہم امت مسلمہ کو اس ماہ مبارک میں یہ عہدو پیمان ضرورکرلینا چاہیئے کہ اب ہماری زندگی میں اتحادواتفاق ترجیحی طور پر شامل رہے گا ۔ہم بحیثیت قوم متحد اور متفق ہوکر کوئی کام کریں گے ۔اختلاف وانتشار کو روز مرہ کی زندگی سے نکال پھیکیں گے ۔مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے قرآن کریم نے انہیں خیر امت کا بھی لقب دیا ہے ۔ کہاگیا ” تم بہترین امت ہو بھلائی کا حکم کرتے ہواور برائیوں سے روکتے ہو “(سورہ آل عمران ۔آیت نمبر 110)۔قرآن کریم شاہراہ حیات اورکامیابی کی شاہ کلید ہے ۔اس میں انسانوں بالخصوص مسلمانوں کی مکمل رہنمائی کی گئی ہے ،انہیں اپنی ذمہ داریوں کا مکمل احساس کرایاگیاہے ۔ اسلئے یہ کہنا بجا ہے کہ امت مسلمہ کی کامیابی وکامرانی ،اہمیت و عظمت ۔فتح ونصرت اور دونوں جہاں کی سرخروئی کا تعلق قرآن مجید سے وابستہ ہے ۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسی مفہوم کی ادائیگی اپنے اس شعر میں کی ہے ۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی آیات میں غور وفکر کرتے وقت ہمیں ان امور کا بھی جائزہ لینا چاہیئے کہ آج ہم مسلمان کیوں پوری دینا میں پسماندہ اور ذلت خواری کے شکار ہیں؟ ۔اقتصادی ،معاشی ، تعلیمی ،سماجی، تجارتی ،سیاسی سمیت تمام شعبوں میں امت مسلمہ کیوں زوال پذیر ہے؟ ۔ اپنی کن بداعمالیوں کی وجہ سے آج ہم ذلت ورسوائی کا سامنا کررہے ہیں ۔ روشن ماضی اور قابل فخر تاریخ کے باوجود آج کیوں امت مسلمہ کے افراد در در کی ٹھوکرے کھارہے ہیں؟ کیوں عالمی طاقتیں ہمار استحصال کررہی ہیں۔جائزہ بتاتاہے کہ ان سب کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات کی روگردانی ،قرآنی احکامات کی خلاف ورزی اور شرعی احکامات کو پس پشت ڈالناہے ۔کامیابی ،کامرانی اور قابل رشک زندگی کیلئے مومن کامل اور اللہ تعالی کا سچا فرماں بردار ہوناضروری ہے ۔قرآن کریم نے کہاہے” اور تم ہی سربلند رہوگے بشرطیکہ تم مومن بن جاﺅ “(سورہ آل عمران ۔آیت نمبر 139)۔
قرآن کریم نے حصول علم کی جانب بھی ہماری بے پناہ توجہ مبذول کرائی ہے ،علم کو کامیابی کی کنجی قراردیاہے ،دین میں غور وفکر کرنے کا حکم دیا ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ اسلام میں علم کی بے پناہ اہمیت ہے ،کامیابی کامرانی اور فتح ونصرت کیلئے علم پر قدرت ہونااور تمام نافع علوم کا سیکھنا ضروری ہے ۔مسلمانوں کی پسماندگی اور زوال کی بنیادی وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ تعلیمی میدان میں مسلمان دوسری قوموں سے بہت پیچھے ہیں ۔یہودی ونصاری کی حالیہ ترقی اور دنیا بھرمیںان کے رعب ودبدبہ کی اہم وجہ ان کی علمی ترقی ،سائنسی کامیابی اور جدید ایجادات ہیں ۔جبکہ ہماری سوسائسٹی میں علم کی کوئی قدر ومنزلت نہیں رہ گئی ہے ،علم دینی اور علم دنیوی کے دو حصوں میں تقسیم کرکے علم کی اہمیت کو کم کرکے بتانے کی کوشش ہوتی ہے جبکہ اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔ کسی تقسیم کے بغیر ہر ضروری اور نافع علم کو سیکھنے کاحکم دیاگیاہے ۔سیاسی ،سماجی اور اقتصادی کامیابی کاتصور حصول علم اور سائنسی مہار ت کے بغیر محال ہے ۔تاریخ کے اوراق یہی بتاتے ہیں کہ جب تک ہم مسلمان قرآن کریم پر عمل پیرا رہے ،کتاب ہدایت کے مطابق زندگی گزرتی رہی، حصول عمل پر ہماری توجہ مبذول رہی ۔ ہم کامیاب وکامران رہے ۔آج ہم نے قرآنی احکامات سے روگردانی کرلی ہے، علم حاصل کرنا چھوڑدیاہے تو ذلت وخواری ہمار امقدربن چکی ہے ۔
رمضان کی اہم خصوصیات میں شب قدر ہے جو ہزاروں راتوں سے افضل ہے ۔اللہ تعالی نے اس رات کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ”ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیااور یہ شب قدر ماہ مبارک میں پائی جاتی ہے جس میں عبادت کرنا ایک ہزار مہینہ عبادت کرنے سے افضل ہے ۔اللہ تعالی نے مزید ارشاد فرمایاکہ شب قدر میں فرشتے اور روح اترتے ہیں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر،یہ رات سراسر سلامتی کی ہو تی ہے اور طلوع فجر تک رہتی ہے“۔حدیث شر یف میں بتایاگیاہے کہ شب قدر دعاءکی قبولیت کی رات ہے۔ اس میں اپنے لئے ،دوست و احباب کے لئے ،اوروالدین کے لئے،تمام گزرے ہوئے لوگوں کے لئے دعا ءمغفرت کرنی چاہئے ۔
رمضان المبارک کے اختتام پر اللہ تعالی نے ہمیں عید الفطر کی مسرت سے نواز ہے ۔یہ عالم اسلام اور امت مسلمہ کا عظیم تہوار ہے ۔پورے ماہ میں روزہ رکھنے ،قرآن کریم کی تلاوت کرنے ،اس کی آیات میں غور وفکر کرنے ،شب قدر کی تلاش ، اعتکاف کا اہتمام اور ذکر واذکار کے بعد جیسے شوال کا چاند طلو ع ہوتاہے اللہ تعالی انعام کے طور پر عید الفطر کا تحفہ دیتاہے جس میں تمام مسلمانوں کے چہرے پر مسکراہٹ ، رونق اور بشاشت ہوتی ہے ۔کھلے میدان میں دور رکعت نماز اداکرکے امت مسلمہ کے افراد اللہ تعالی کی واحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کاشاندار مظاہرہ کرتے ہیں ۔شریعت کی اطاعت کا اقرار کرتے ہوئے قرآن کریم کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہیں ۔ہماری عید ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم بحیثیت امت مسلمہ ایک ہیں ،ہماری زندگی کامقصد اور نصب العین اللہ تعالی اسلام کی برتری اور اس کے آفاقی نظام کا فروغ ہے ۔ہماری خوشی ومسرت ایک ہے ،ہمارے مسائل ایک جیسے ہیں ،ہم سب برابر اور یکساں ہیں ۔کسی کو کسی پر کسی طرح کی کوئی تفریق نہیں ہے ،عید کی مسرت ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ ماہ مبارک میں ہم نے جو ریاضت ومجاہدہ کیا ہے ،نفسانی خواہشات کے خلاف ہم نے جو عمل کیا ہے ۔اللہ تعالی کی رضا مندی کیلئے ہم نے جن اعمال کا اہتمام کیا ہے اس کاسلسلہ جاری رہنا چاہیئے ۔پوری سال ہمیں اسی طرح باہم شیر وشکر اور عبادت گزار بند ہ ہوکر اپنی زندگی گزارنی چاہیئے ۔عید کی یہ خوشی ہماری توجہ اس جانب بھی مبذول کراتی ہے کہ ہم کمزورں ،مظلوموں اور غریبوں کا ساتھ دیں ۔سب کے ساتھ مل کر خوشیاں منائیں ۔
(کالم نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)