میانمار حکومت کا ایک اور ظالمانہ اقدام۔ ریکارڈ سے روہنگیا لفظ ختم کررہی ہے سرکار

میانمار: برما کے روہنگیائی مسلمانوں کی پریشانی میں اس وقت اضافہ ہوا جب روہنگیائی شدت پسند گروپ کے میانمار کی فوجی چوکیوں پر مبینہ حملہ کے جواب میں بے رحمی کے ساتھ کئے گئے آرمی اپریشن سے بچنے کے لئے نصف ملین سے زائد روہنگیائی اپنی جان بچاکر پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبورہوگئے۔
مگر یہ اب بحران سیاسی تباہی میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ سیلاب کی وجہہ سے روہنگیائی کیمپ دلدل میں تبدیل ہورہے ہیں اور وہیںیہ روہنگیائی لفظوں میں لڑائی میں پھنستے دیکھائی دے رہے ہیں۔
حکومت برما جس کومیانمار بھی کہاجاتا ہے روہنگیائی کا ہرنام خبرو ں سے مٹانے کاکام کررہی ہے۔
روہنگیائی صدیو ں سے برما میں زندگی بسر کررہے ہیں مگر اکثریتی طبقے کے بدھسٹ انہیں بنگلہ دیشی مداخلت قراردیتے ہوئے ’’ بنگالی‘‘ پکارتے ہیں۔ایک ایسی ملک میں جہاں درجنوں اقلیتی طبقات رہتے ہیں‘روہنگیائی پریشان حال زندگی گذار رہے ہیں۔
یہاں کے حالات اس وقت بھی آسان نہیں ہوئی جب حالیہ دنوں میں نوبل انعام یافتہ ایوارڈ جیتنے والی آنگ سانگ سوکی طویل جدوجہد کے بعد جمہوریت کا نفاذ عمل میںآیا جو اب حکومت کی سربراہ بنی ہوئی ہیں۔
حالیہ دنوں میں برمی انفارمیشن منسٹری نے بی بی سی اور ایشیائی سوسائٹی کے ساتھ ملکر کام کرنے والے ایک غیرمنافع بخش نیوز تنظیم جس کو امریکی امداد حاصل ہے ریڈیو فری ایشیاء کے ٹیلی ویثرن براڈکاسٹ میں’’روہنگیائی‘‘لفظ پکڑا۔
دونوں تنظیمیں شوز میں جو ڈیموکرٹیک وائس آف برما کے ساتھ شیئر کی ہوئی تھیں میں’’ روہنگیائی‘‘ کااستعمال کررہی تھی ‘ اور ڈیموکرٹیک وائس آف برما کو ریاست کا ایم آر ٹی وی چیانل اپریٹ کرتاہے۔
انفارمیشن منسٹری نے کہاکہ آر ایف اے اور بی بی سی کوزیادہ دنوں تک نشریات کی اجازت نہیں ملے گی اگر وہ ’’ روہنگیائی‘‘ لفظ کااستعمال کرتا ہے جس کا استعمال سخت منع ہے۔
دونوں آر ایف اے اور بی بی سی نے ان کے پروگرام سنسر کرنے کو مستر د کردیا اور پارٹنر شب چھوڑدی ہے ‘ جبکہ ان کے پروگرام برمیوں کے لئے شارٹ ویو‘ سوشیل میڈیا اورویب سائیڈ کے ذریعہ دستیاب ہیں۔
ملٹری ڈکٹیٹر شب کے دوران 1960سے 2010تک برمی میں تھی ۔ جمہوریت کے آغاز کے ساتھ تبدیلی کے حوصلے پیداہوئے اور بالخصوص آنگ سانگ سوکی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی 2015میں تاریخی کی کامیابی کے یہ بعد یہ تو او ربھی مضبوط ہوگیا۔
مگر پچھلے کچھ سالوں میں دیکھا گیا ہے کہ ناتو این ایل ڈی اورنہ ہی فوج پریس کی آزادی کو فروغ دینے کے اقدام اٹھارہی ہے۔
کتابوں پر صحافیوں کے لئے مخصوص قدیم سزائیں اب بھی برقرار ہیں۔ اس کی تازہ مثال رائیٹرس کے دورپورٹرس کایاو سوی اوو 28سال اور والونی 32سال کی گرفتاری ہے جنھوں نے تشدد کے دوران دس روہنگیائی مرد او ربچوں کی موت کے متعلق تحقیقات کی تھی۔
کئی لوگ سوال کررہے ہیں کیوں آنگ سانگ سوکی ایسا ہونے دے رہی ہیں۔