ایک پیغام ذمہ داران مدارس کے نام (قسط نمبر 2)

سراج الدین قاسمی
مدارس کی ترقی، کافی حد تک مہتمم صاحب کی محنت ،محبت، للہیت اور سوجھ بوجھ پر موقوف ہوتی ہے ۔
مہتمم حضرات دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔
(1) علم دین سے نا آشنا، مدارس کے نشیب و فراز سے نا بلد، سیاسی یا سماجی اعتبار سے قدآور اور مالدار ۔
(2) علم دین کے حامل، مدارس کے حالات سے واقف ،سیاست وثروت سے ،عموما دور، مگر مذہبی بصیرت سے معمور ۔
اب ان دونوں طرح کے افراد میں، کون کتنے کامیاب ہو تے ہیں اور کون نہیں؟
ہم کچھ کہیں گے تو شکایت ہو گی ۔
آیئے! ایک سیاسی، سماجی، شخصیت کا قول نقل کرتے ہیں، جو ایک جامعہ کی کمیٹی کے رکن بھی ہیں، مگر دین ومذھب کی بصیرت سے عاری ہیں ۔
چند روز پہلے کی بات ہے، وہ خود راقم السطور سے کہنے لگے، جس کو سن کر قدرے حیرانی کے ساتھ مجھے خوشی بھی ہوئی، کہ ایک حق اور سچ بات جو ہم چاہتے ہو ئے نہیں کہہ پاتے تھے، انہوں نے خود ہی کہدی ۔۔
وہ کہنے لگے :
جب مدارس کا چندہ علماء و اساتذہ ہی کرتے ہیں، تو ہم کمیٹی کے لوگوں کو تو مدارس کے معاملات میں مداخلت بالکل نہیں کرنی چاہیے ۔
مزید یوں کہا :
اب وہ مدارس ہی کامیاب ہیں، جن کی باگ ڈور علماء کے ہاتھوں میں ہے ۔
اور
خدا ان کو خوب خوب جزائے خیر دے ۔
وہ یہ بھی کہہ بیٹھے :
کہ اسی لئے علماء کرام، اپنے مدرسے الگ قائم کررہے ہیں اور ماشاءاللہ خوب ترقی کررہے ہیں ۔
اب ہم مدارس کے اسی قسم کے (ناخواندہ، غیر عالم ) مہتمم صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہیں گے ۔
سیٹھ جی مہتمم صاحب!
اگر آپ واقعی اپنے مدرسے کی، ترقی چاہتے ہیں ،تو بہتر تو یہی ہے کہ آپ یہ اہتمام دوسری قسم کے (علم دین سے واقف مدارس کے حالات سے آشنا )افراد کو سونپ دیجئے!
ورنہ کم از کم اتنا تو ضرور ہی کیجئے! کہ مدرسہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت بالکل بند کر دیجئے!
ساتھ ہی اپنی کمیٹی کے اپنی طرح کے افراد کو بھی اس کا مشورہ دیجئے، کہ وہ بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مدرسہ میں دخل اندازی سے باز آجائیں!
اور آپ کے مدرسہ کے ناظم یا صدر مدرس صاحب، جو ابھی تک آپ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں ،صدق دل سے ان کو مدرسہ سونپ دیجئے!
جی ہاں
۔۔۔صدق دل سے ۔۔
سونپ دینے کی بات اس لئے کہی گئی ہے، کہ دکھلاوے کے لیے تو آج تک سب یہی کہتے آئے ہیں کہ :
مولانا صاحب!
آپ سیاہ سفید کے مالک ہو جیسا چاہو ویسا کرو!
مگر یہ پرانے زمانے کی ایک کہاوت کی طرح ہوتا ہے کہ :
ویسے تو تم مالک ہو پر کوٹھیاں کٹھلوں کو ہاتھ نہ لگائیو ۔۔
نیتاجی مہتمم صاحب!
مدرسہ آپ کا ہے ،آپ ہی کا رہے گا ۔یہ ناظم صاحب اگر اس کے مکمل ذمہ دار بن گئے ،تو مدرسہ کو ترقی ہوجائے گی اور کل کے دن ،اگر یہ حضرت یہاں سے جدا ہو نے لگے، تو آپ کے مدرسہ کو اپنے سر پر اٹھا کر ساتھ نہیں لے جائیں گے ۔
ہاں۔۔۔ البتہ مدرسہ کو ابھی بھی آپ کی ضرورت پڑا کرے گی، تو آپ کو ساتھ دینا ہوگا ۔جب بھی ناظم صاحب آپ کو یاد کریں، تو فورا بھاگے چلے آنا ہوگا ۔آپ کا مدرسہ ترقی کرے گا اور خوب ترقی کرےگا ۔
پردھان جی مہتمم صاحب!
برا مت مانئے گا!
ہوتا یہ ہے کہ :
یہی ناظم صاحب ۔صدر مدرس صاحب یا دیگر کوئی اور استاد صاحب، جنھوں نے رمضان المبارک میں خون پسینہ بہاکر کئی لاکھ کا چندہ کر کے آپ کے دست راست میں دیا ۔
جب یہ بیچارے مدرسہ کی اپنی واجبی تنخواہ یا مدرسہ کی کسی ضرورت پوری کرنے کے لیے کچھ رقم لینے آپ کے دولت کدہ پر حاضری دیتے ہیں، (گویا اپنے لئے قرض یا بھیک مانگنے گئے ہوں )تو اندر سے آپ کا وہ پوتا جو کئی ہزار کی فیس دیکر سینیٹ میریز اسکول میں پڑھتا ہے، آکر کہتا ہے :
آپ کل آنا ! پردھان جی میٹنگ میں ہیں ۔
اور جب یہ کل آتے ہیں، تو بناوٹی استقبال کے ساتھ، ایک کپ چائے پلاکر، پھر کل پر ٹال دیا جاتا ہے، کہ ٹھیک ہے، انتظام کرتے ہیں ۔
اور جب کل کے وعدے کی کل پر، کل کو پھر یہ بیچارے آتے ہیں، تو تنخواہ کے مطالبے پر مسکراتے ہوئے،آپ یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ :
مولوی صاحب!
آپ کو تنخواہ لینے کی بڑی جلدی آرہی ہے، ہم کہیں کوبھاگ تھوڑی رہے ہیں؟ ۔۔۔
اور ۔۔۔اور ۔۔۔ مہتمم صاحب!
مدرسہ کی ضرورت کے لئے تو مدرسہ کا پیسہ دیتے ہوئے، آپ کی جان ہی نکلنے کو ہوجاتی ہے ۔
چنانچہ آپ پیشانی پر سلوٹیں لاتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں ۔
ارے حضرت!
کیا ضرورت ہے اس (مثال کے طور پر انورٹر وغیرہ ) کی ۔؟
یہ مدرسہ ہی تو ہے ،کوئی گھر تھوڑی ہے ۔؟
یہ سب سہولیات تو گھروں میں ہوتی ہیں مدرسوں میں کہاں ہوں ۔۔
پھر
مولانا صاحب یا قاری صاحب (صدر مدرس یا ناظم صاحب )
دل مسوستے ہوئے، جھنجھلا تے ہوئے،
بڑ بڑاتے ہوئے ،
اور نہ جانے کیا کیا سوچتے ہوئے، دبے دبے قدموں سے واپس چلے آتے ہیں، اور وہ فیصلہ لے چکے ہوتے ہیں، کہ بس یہاں یہ سال پورا کرنا ہے اور بس ۔۔۔
پھر کیا ہوتا ہے؟
پھر وہ ہوتا ہے جو ہوتا چلا آرہا ہے ۔یعنی یہ حضرت ایک نئے مدرسہ کی داغ بیل ڈالدیتے ہیں، جس پر آپ بھی چراغ پا ہوتے ہیں ۔لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکا تے ہیں ۔بےشمار الزامات کی بونچھا ان پر کردی جاتی ہے ۔
جو ابھی تک بڑے اچھے تھے ۔امانت دار تھے ۔دیانت دار تھے ۔نیک صالح تھے، وہ یکایک خائن ۔بددین ۔بدمعاش اور پتہ نہیں کیا کیا بن جاتے ہیں ۔
پھر آپ چھوٹے بڑے مدارس میں فون کرتے ہیں کہ ہم کو ایسا ایسا کوئی بڑھیا ساعالم دلوادیجئے!
مگر کوئی نہیں ملتا ۔
ملتا ہے تو ٹکتا نہیں ۔مدرسہ کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے ۔
اور پھر اسی پر بس نہیں، بلکہ اس کے بعد آپ لوگوں میں آپس میں اختلافات شروع ہوجاتے ہیں ۔
مہتمم صاحب!
یہ سب کچھ اس لئے ہوا، کہ آپ جس کے اہل نہیں تھے، آپ نے اپنے کو اس اس کا اھل سمجھے رکھا اور جو اھل تھے، ان کو دور کئے رکھا ،اس لئے یہ سب کچھ ہوا ۔
گو یا کہ اس سارے معاملے کے ذمہ دار آپ ہیں ۔
برا نہ مانئے! مہتمم صاحب!
اگر یہ شکایات آپ لوگوں کی طرف سے نہ ہوں، تو تو پھر یہ دوسرے حالات پیدا نہ ہوں ۔
اور میں یہ کہنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا، کہ جہاں آپ جیسے حضرات، اہتمام سنبھالے ہوئے ہیں، مگر اختیارات مکمل طور پر صدق دل سے مدرسہ کے صدر مدرس کو دے رکھے ہیں، تو وہ مدارس ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، مگر ایسا کم ہے ۔
………………………………………………………………………

آیئے ! کچھ گفتگو ہردو قسم کے مہتمم صاحبان سے متعلق کرتے ہیں ۔
ہر مدرسہ کے دو جزء نہایت اہم ہوتے ہیں ۔
1 استاذ۔۔ 2 طالبعلم ۔
استاذ کے تقرر اور طالبعلم کے داخلہ میں اگر کچھ باتیں ملحوظ رہیں، تو مدرسہ ترقی کرتا ہے ورنہ نہیں ۔
استاذ مخلص ۔محنتی اور جفاکش ہونا ضروری ہے ۔
بڑی عجیب بات یہ ہے کہ بوقت تقرر اس سے یہ سوال کرلیا جاتا ہے کہ :
آپ کا چندہ کتنا ہے؟
آپ کتنا چندہ کرسکتے ہو؟
اب جب یہ سوال ہی بے جا کرلیا گیا، تو کبھی کبھی جواب بھی بھونڈا مل جاتا ہے ۔
“”دیکھو جی میں چندہ بالکل نہیں کروں گا “”
سوال تو اس کی تعلیمی لیاقت کا ہونا چاہیے، اور مدرسہ کےدیگر امور کی تفویض کے سلسلہ میں گفتگو ہونی چاہیے، اور سب سے اہم بات یہ کہ تقرر کی بات چلانے سے پہلے ہی ان کےطرز زندگی، رہن سہن، اخلاق و کردار کی تفتیش ہونی چاہیے ،
اور بقول کسے :
مدارس میں صلاحیت سے زیادہ صالحیت کا خیال رکھنا چاہیے ۔
مہتمم صاحبان!
آپ استاذ کا تقرر چندہ کی بنیاد نہ کریں، بلکہ صلاحیت اور محنت کی بنیاد پر کریں ۔
معاملات واضح انداز میں طے کریں ۔ان میں کوتاہی پر حکمت کے ساتھ نشاندہی کریں اور امور مفوضہ کی تکمیل پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں ۔خارجی اوقات میں نگرانی یا تدریس پر اضافی معاوضہ دینے کی کوشش کریں! مقامی وبیرونی مدرس کی تنخواہ میں کچھ نہ کچھ تفاوت لازم ہے، کیوں کہ بیرونی مدرس وہ خانگی ودیگر امور انجام نہیں دے سکتا جو مقامی دے لیتا ہے ۔
مدرسہ کے مفاد میں اگر امامت نہ کر نے کی آپ شرط لگائیں، توامامت کی رائج الوقت 60 فیصد تنخواہ الگ سے دی جانے ۔
ہر سال تنخواہ میں اضافہ تعلیمی حسن کارکردگی کی بنیاد پر کریں۔ چندہ کی بنیاد پر نہیں ۔
ہاں۔۔۔۔ چندہ پر انعام سے ضرور نوازا جائے ۔
طالبعلم کے داخلہ کے سلسلہ میں اس کی گزشتہ تعلیمی کیفیت کو مد نظر رکھا جائے ۔
اگر تعلیمی کیفیت اطمینان بخش نہ ہو، توآگے نہ بڑھا یا جائے ۔
جدید داخلہ میں بہت ہی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ۔
تصدیق نامہ کے بغیر ہرگز داخلہ نہ لیا جائے ۔
جعلی تصدیق نامہ ثابت ہوجائے پر اخراج کردیا جائے ۔
دین و شریعت سے غافل استاد یا طالبعلم کو مدرسہ سے علیحدہ کرنے میں دریغ نہ کیا جائے ۔