غزل
افتخار راغب
مصیبت میں زمیں بھی کم نہیں ہے
سو بے چینی کہیں بھی کم نہیں ہے
تمھارے دل میں کیا ہے کچھ تو بولو
تمھارا کچھ نہیں بھی کم نہیں ہے
نہیں جھکتا کسی کے خوف سے دل
یہ ننھی سی جبیں بھی کم نہیں ہے
گماں میرا رہے ہردم سلامت
اُنھیں مجھ پر یقیں بھی کم نہیں ہے
مشامِ جاں معطر اور دل بھی
یہ شاخِ یاسمیں بھی کم نہیں ہے
کسے معلوم تھا کھُل کر رہے گا
تمھاری آستیں بھی کم نہیں ہے
تمھیں ہے خوف ایٹم بم کا اتنا
یہ آہِ آتشیں بھی کم نہیں ہے
چلو کہہ دو کہ ہے تم سے محبت
نہیں ہے تو نہیں بھی کم نہیں ہے
ستم سہہ کر بھی دل رہتا ہے راغبؔ
کہ وہ ظالم حسیں بھی کم نہیں ہے
دوحہ قطر