ٹی وی اسٹوڈیو میں سازش، اپنوں کا پیروپیگنڈہ

 شمس تبریز قاسمی
خبر درخبر(565)
راجستھان کے الور میں ہجومی تشدد کے شکار مرحوم پہلو خان کے قتل کے بعد چند ایک مسلم دانشور نے کہا تھا کہ کیا ضرورت تھی گائے کے دودھ کی ڈیری کھولنے کی یہ جانتے ہوئے کہ مودی حکومت میں گؤ رکشکوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ،کسی کو بھی گؤ کشی کے الزام میں یہاں قتل کردیا جاتا ہے ۔ گذشتہ دنوں ٹی وی اسٹوڈیو میں مفتی اعجاز ارشد قاسمی پر ہوئے حملہ کے بعد یہ جملہ مسلسل میرے ذہن میں گردش کررہا ہے ۔
بہر حال آپ کو مرحوم پہلو خان کے سلسلے میں دانشوران کی جانب سے کہے گئے جملہ کے بارے میں تعجب نہیں کرنا چاہئے جس طرح مجھے مفتی اعجاز ارشد قاسمی پر سپریم کورٹ کی وکیل لکشمی ورما عرف فرح فیض کے ہوئے حملے پر جاری تبصرہ کے سلسلے میں کوئی تعجب نہیں ہے کیوں کہ ہماری قوم کی یہ مجموعی عادت بن چکی ہے کہ جب ان پر یا ان کے کسی فرد پر حملہ ہوتا ہے تو اس کا دفاع کرنے اور مقابل کو جواب دینے کے بجائے وہ پہلے اپنی غلطیوں کی تلاش میں مصروف ہوجاتی ہے کہ فلاں غلطی اور کوتاہی کی وجہ سے یہ سب ہوا ، اگر یہ نہیں ہوتا تو اس حادثہ کا وجود ممکن نہیں تھا ۔
مفتی اعجاز ارشد قاسمی کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اسے دنیا دیکھ چکی ہے ۔ سورج کی طرح حقیقت عیاں ہے کہ حملہ کس نے کیا ، کیسے ہوا اور کسی طرح ایک مولانا کو ویلن بناکر پیش کیا گیا اس کے باوجود سوشل میڈیا پر کچھ مدارس کے فضلاءاور لبرلز طبقہ کی جانب سے انہیں اس بات کیلئے ذمہ دار اور مجرم گردانا جارہا ہے کہ انہوں نے عورت پر جوابی کاروائی میں ہاتھ کیوں اٹھایا ؟ ،خاموشی کے ساتھ عورت کے ہاتھوں انہوں نے مار کھانا گوارا کیوں نہیں کیا ؟، وہ وہاں گئے کیوں تھے؟ ۔ زی میڈیا میں جانے والوں کے ساتھ یہی ہونا چاہئے تھا جو کچھ ہوا اچھا ہوا ؟۔ کچھ لوگ دس قدم آگے بڑھ کر یہ انکشاف بھی کررہے ہیں کہ زی ہندوستان پر جو کچھ ہوا تھا وہ منصوبہ بند تھا ،مفتی اعجاز ارشد قاسمی اس گیم میں مکمل طو رپر شریک تھے ۔ یہ کوئی حادثہ اور حملہ نہیں تھا۔ انہوں نے یہ سب پیسہ کی خاطر کیا ۔ ان کی حرکت اس لائق نہیں ہے کہ ان سے ہمدردی کا اظہار کیا جائے ، ان کا دفاع کیا جائے یا پھر ایک عورت پر انہیں ترجیح دی جائے ۔۔۔۔ کچھ لوگ انہیں آر ایس ایس اور مودی کا قریبی بھی بتارہے ہیں ۔ ثبوت میں ان کے پاس مسلمانوں کے وفد کی مودی سے ہوئی ملاقات کی ایک تصویر ہے جس میں مفتی اعجاز ارشد قاسمی بھی نظر آرہے ہیں۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے گھر کی خبر نہیں ہوتی ہے لیکن بند کمروں میں بیٹھ کر فوراً دوسرے کے بارے میں انکشاف کرلیتے ہیں۔ ایسی تحقیق پیش کردیتے ہیں جہاں تک ملک کی اہم ترین خفیہ ایجنسیوں کی بھی رسائی نہیں ہوپاتی ہے ۔
اس طرح کے کمنٹس کرنے والوں پر مجھے کوئی حیرت نہیں ہے کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ سوشل میڈیا پر ان دنوں مدارس سے تعلق رکھنے والا ایک مختصر سا ایسا گروہ بھی سرگرم ہے جس کی انتہاء پسندی آر ایس ایس سے بڑھی ہوئی ہے ، مسجد کی جگہ مندر بنانے والوں کی حمایت اور اسلام کا دفاع کرنے والوں کی مخالفت اس کی خاص پہچان ہے ۔ انڈرائڈ فون میں اردو کی بورڈ کی سہولت ملنے کے بعد اس گروہ کے شب روز موبائل پر ایسی ہی حرکتوں میں گزرتے ہیں اور سنگھیوں کی طرح کبھی علماء و دانشوران پر الزام تراشی کرتے ہیں کبھی ملت کے سوداگروں کی حمایت کرتے ہیں ۔کبھی اپنوں کو دہشت گرد ٹھہراتے ہیں تو کبھی حسد کی آگ میں جل کر ملک کی داخلہ سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیکر سپریم کورٹ سے سی بی آئی انکوائری کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ جہاں تک بات لبرل طبقہ کی ہے تو علماء سے نفرت ان کی فطرت کا حصہ ہے ۔ ذرہ برابر بھی ان کے اپنے گمان میں کسی عالم کی غلطی نظر آتی ہے فوراً تنقید کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں ۔ اسٹوڈیو میں ہوئی لنچگ تو ان کیلئے ہاٹ کیک ہے ۔
مفتی اعجاز ارشد قاسمی کے قضیہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ کچھ لوگوں کا اختلاف صرف نظریات تک محدود نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کی فطرت میں عدوات کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہوتی ہے۔ یہ لوگ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، جہاں ذرہ برابر موقع ملتا ہے دل کی بھڑاس نکالنا شروع کردیتے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں بھی یہی ہورہا ہے کچھ لوگ ایک مولانا کے واقعہ کیلئے پوری قوم کو ذمہ دار ٹھہرا کر مدارس کی تعلیم و تربیت پر حملہ آور ہیں تو کچھ لوگ ہمیشہ کی طرح اپنی صف کے ایک فرد کی حمایت میں کھڑے ہونے کے بجائے آر ایس ایس کے مہیلا ونگ کی اعزازی صدر لکشمی ورما عر ف فرح فیض کے ساتھ مبینہ اظہار یکجہتی میں شریک ہوکر حقیقی سیکولر ہونے کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔ ایسا کوئی پہلی مرتبہ بھی نہیں ہوا ہے، اس سے قبل ڈاکٹر ذاکرنائیک اور مولانا انظر شاہ قاسمی کے سلسلے میں ہم نے اس کا بخوبی مشاہدہ کیا تھا۔
مفتی اعجاز ارشد قاسمی سے میری کوئی دوستی نہیں ہے، ماضی میں کئی مرتبہ میں نے ان کے خلاف بھی لکھا ہے کہ لیکن گذشتہ دنوں زی ہندوستان پر جو کچھ ہوا اسے دیکھنے کے بعد انہیں غلط ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے، کوئی بھی سماج اور معاشرہ ایک عورت کو مرد پر ہاتھ اٹھانے کا حق نہیں دیتا ہے۔ وکیل کی ذمہ داری آئین کا تحفظ، قانون کی پاسداری اور اس کا سبق پڑھانا ہوتا ہے لیکن جب ایک وکیل ہی آئین کی خلاف ورزی کرنے لگے ، سپریم کورٹ کی وکیل ہوکر لائیو شو میں کسی پرحملہ کردے تو اس وقت ضروری ہوجاتا ہے کہ آپ حق کا ساتھ دیں، غلط کو غلط کہیں ، ملی مفاد کی خاطر کچھ دیر کیلئے اپنائیت کا ثبوت پیش کریں ، ملی اتحاد کا مظاہرہ کریں ۔ ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری یہ تحریر مفتی اعجاز ارشد قاسمی کیلئے کوئی راحت کا سبب نہیں بنے گی ، ان کی تائید میں لکھے گئے چند جملوں سے انہیں رعایت نہیں دے دی جائے گی نہ ہی ہماری مخالفت اور الٹی سیدھی تحریر کی وجہ سے ان کی سزا میں اضافہ ہوجائے گا ، قانون اپنا کام کررہا ہے ، جلد عدلیہ میں یہ تصویر صاف ہوجائے گی کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔
مفتی اعجاز ارشد قاسمی کا شمار ایک باصلاحیت عالم دین میں ہوتاہے ، دارالعلوم دیوبند کے میڈیا سیل کے وہ ترجمان رہ چکے ہیں، ان کی تصنیف ” من شاہ جہانم “ صحافت کے موضوع پر ایک معرکۃ الآراء کتاب کہلاتی ہے ، جواہر لال نہرو یونیورسیٹی میں وہ شامل نصاب بھی ہے ۔ ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی چھپنے کے بعد ہاتھوں ہاتھ لیا جارہا ہے ۔دہلی وقف بورڈ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ٹی وی چینلوں پر اس طرح کے ڈبیٹ میں نہیں جانا چاہیئے تھا ، زی میڈیا کے کسی بھی چینل پر جانے کو درست نہیں ٹھہرا یا جاسکتاہے لیکن اگر کوئی شخص چلا جاتا ہے تو کیا اس پر ہوئے حملہ اور بغیرکسی جرم کے جیل بھیجے جانے کے حمایت کی جائے گی ،ایک ایسی خاتون کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جو ہندو ہونے کے باوجود مسلم جیسا نام رکھ کر اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اور ایک عالم دین پر حملہ کرنے کو بہادری سمجھتی ہے اور پھر خود ہی مظلوم بن کر کیس دراج کرادیتی ہے ۔
اسی عنوان پر خبر در خبرد کا گذشتہ کالم تھا جس پر دس سے زائد خواتین نے وہاٹس ایپ مجھے اپنا یہ تبصرہ بھیجا کہ مفتی اعجاز ارشد قاسمی نے جو کچھ کیا وہ ان کا فطری ردعمل تھا ۔ اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا ہے تو اتنا پر ہر گز اکتفا نہیں کرتابلکہ کچھ اور بھی کرتا ۔
مفتی اعجاز ارشد قاسمی ان 14 دنوں کی عدالتی تحویل میں ہیں۔اس کیس کو ہر ممکن پیچیدہ بنانے کی کوشش جاری ہے ،دسٹک جج کے پاس کیس منتقل کرادیا گیا ہے ،پورے معاملے کو دیکھ کر لگتاہے کہ انہیں پھنسانے اور معاملہ کو الجھانے میں پوری سرکای مشنری شامل ہے ۔سماعت کی تاریخ نہیں دی جارہی ہے ۔14 دنوں کی عدالتی تحویل میں اضافہ کا امکان ہے ،اس دوران یہ اندیشہ ہے کہ کچھ اور الزامات عائد کردیئے جائیں ۔ جس معاملہ پر انہیں جیل بھیج دیاگیاہے اس طرح کا معاملہ ٹی وی چینل میں باباسوامی اور یاسر جیلانی کے ساتھ بھی ہوچکاہے لیکن پولس میں شکایت تک درج نہیں کرائی گئی ۔وزیر قانون روی شنکر پرساد کے بیان سے یہ شک یقین میں تبدیل ہوگیا ہے کہ 17 جولائی کی شام کو زی میڈیا کے اسٹوڈیو میں جو کچھ ہوا تھا وہ منصوبہ بند تھا۔ایک سازش کے تحت یہ سب کرایاگیا جس کے شکار مفتی اعجاز ارشد قاسمی ہوگئے ۔ پولس کو پہلے سے اطلاع، اشتعال انگیز الفاظ کا استعمال ،حملہ کرنے سے پہلے یاسر جیلانی کا فرح فیض کے قریب جانا ، ہاتھ پکڑ کر اٹھانا اور پھر اس خاتون کا تھپڑ لگادینا یہ سب کچھ اتفاق نہیں ہوسکتا۔

   stqasmi@gmail.com