پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
نسل پرستی ،آمریت اور ذات ومذہب پر مبنی قانون کا تصور اب تقریبا ناممکن ہوچکاہے ،اکیسویں صدی میں جمہوریت کا بو بالا ہے ،آمریت اور نسل پرستی کی شدت کے ساتھ دنیا بھر میں مخالفت جاری ہے ،جن چند ممالک میں جمہوریت کا فقدان ہے وہ عالمی میڈیا اور حقوق انسانی کے کارکنان کے یہاں مسلسل موضوع بحث ہے ،ایسے ممالک کو عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامناہے جہاں آج جمہوریت کے بجائے بادشاہت ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے اکیسوی صدی میں یہ سب کچھ اسرائیل میں ہورہاہے ۔گذشتہ 18 جولائی 2018 کو اسرائیل کی پارلیمنٹ کنیسٹ نے اپنے سترویں یوم تاسیس پر نسل پرستی پر مبنی ایک قانون پاس کیا ہے جس کا نام Jewish nation-state’ law ہے ۔اس قانون کے مطابق اسرائیل پر صرف یہودیوں کا حق ہے ،کسی اور مذہب کے ماننے والوں کو یہاں رہنے کا حق حاصل نہیں ہوگا ، اسرائیل میں آباد عربوں کو دوسر ے درجے کا شہری سمجھاجائے گا ۔اکثریت اور اقلیت کے درمیان مساوات برقرار نہیں رکھے جائیں گے ۔تعلیم ،صحت ،انصاف ،تحفظ،آزادی،ملازمت اور دیگر تمام خدمات میں یہودیوں کی طرح عربوں کو حقوق نہیں دیئے جائیں گے ۔اس بل میں عربی کو ختم کرکے عبرانی کو سرکاری زبان کا درجہ دیاگیاہے ،عربی زبان کا مقام گھٹاکر اسے محض”خصوصی حیثیت “دی گئی ہے۔اس قانون میں فلسطینی علاقوں میں یہود یوں کی آبا د کاری کو ایک قومی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔قانون کے مطابق :” ریاست یہود آباد کاری کی ترقی کو ایک قومی قدر سمجھتی ہے اور وہ اس کے قیام کی حوصلہ افزائی اور فروغ کے لیے اقدامات کرے گی“۔بیت المقدس کو اسرائیل کی قومی راجدھانی کہاگیاہے۔
اسرائیل میں آباد عربوں کی آبادی اٹھارہ لاکھ کے قریب ہے۔وہ کل 90 لاکھ آبادی کا 20 فی صد ہیں۔ ایک طویل عرصے سے یہ شکایت کرتے چلے آرہے ہیں کہ ان سے اسرائیل میں دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کیا جارہا ہے اور اب شکایت حقیقت میں تبدیل ہوکر قانون بن چکی ہے ۔بل میں یہ بھی کہاگیا ہے ”اسرائیل یہود یوںکا تاریخی مادرِ وطن ہے۔ انھیں اس میں قومی خود ارادیت کا خاص الخاص حق حاصل ہے“۔
گذشتہ دو ماہ سے مذکورہ بل پر پارلیمنٹ میں بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری تھا جسے 18 جولائی بروزجمعرات کو اسرائیلی کنیسٹ نے منظور کرلیا ۔120 ممبران پارلیمنٹ میں سے 62 نے موافقت میں ووٹ دیا جبکہ 55نے مخالفت کی اور یوں اکثریت کے فیصلے سے یہ بل پاس ہوگیا ۔انتہا پسند وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے الکنیست میں ووٹنگ کے بعد کہا ” صہیونیت اور اسرائیل کی تاریخ میں یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے“ایک ہفتہ قبل اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے نتین یاہو نے یہ بھی کہاتھا کہ ” ہم اسرائیل کی جمہوریت میں تمام شہری حقوق کو یقینی بنائیں گے لیکن اکثریت کے بھی حقوق ہیں اور اکثریت ہی فیصلہ کرتی ہے۔ایک واضح اکثریت آنے والی نسلوں کے لیے ریاست کے یہودی کردار کو یقینی بنانا چاہتی ہے“۔
اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو کے جملے بتارہے ہیں کہ انتہاءپسندی ،تشدداور دہشت گردی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے ،اسرائیل کا اصل ایجنڈہ فاشسزم کا فروغ اور انسانی حقوق کی پامالی ہے ،نسل پرستی پر مبنی قانون کی منظوری جمہوریت کی توہین اور سیکولرزم کو قتل کرنے کے مترادف ہے ۔الجزیرہ کے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اسرائیل پارلیمنٹ سے منظور شدہ یہ قانون نسل پرستانہ ہے ،عالمی آئین کے مطابق یہ سنگین جرم اور ممنو ع ہے جس پر اقوام متحدہ کو نوٹس لینی چاہیئے ۔اس کے علاوہ مزید 65 ایسے اسرائیلی قانون ہیں جسے بنیاد بناکراسرائیل اور فلسطین میں آباد عربوں اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایاجاتاہے ۔
عربوں نے اس امتیازی قانون کو بالکل مسترد کردیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہودی اکثریت اس طرح کی قانون سازی کے ذریعے عرب آبادی اور تمام مذاہب کے پیرو کار عربوں کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتی ہے۔اسرائیل میں عرب اقلیتی حقوق کے لیے کام کرنے والے قانونی مرکز عدالہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”یہ قانون دراصل نسل پرستانہ پالیسیوں کے ذریعے نسلی برتری کو آگے بڑھانے کی ایک کوشش ہے“۔ اس سے عرب اقلیت میں تنہائی کا احساس مزید گہرا ہوگا۔عرب رکن پارلیمان احمد طبی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” میں نہایت افسوس اور صدمے کے ساتھ جمہوریت کی موت کا اعلان کرتا ہوں“۔الجزیرہ کی رپوٹ کے مطابق لیکڈ پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم میناچم بیجن کے بیٹے بینی بیجن نے نتین یاہو کے اس اقدام کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہاپارٹی قیادت سے اس طرح کے فیصلے کی توقع نہیں تھی جس میں ذرہ برابر انسانیت نہ ہو ۔رپوٹ کے مطابق وہ ووٹنگ میں بھی شریک نہیں ہوئے ۔
سعودی عرب ،ترکی اور انڈونیشا سمیت متعدد ممالک نے اسرائیل کے اس قانو ن کو مسترد کرتے ہوئے سخت مذمت کی ہے ،ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک فاشسٹ ریاست قرار دے یا ہے ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہاں ایڈولف ہٹلر کی روح بیدار ہونا شروع ہو گئی ہے۔یہ قانون منظور کروا کر اسرائیلی حکومت نے اپنی حقیقی خواہشات کو آشکارا کرتے ہوئے تمام غیرقانونی اور خلاف ضابطہ اقدامات کے علاوہ جبر کی پالیسی کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے۔موجودہ اسرائیلی حکومتی اقدامات ہٹلر کے آریائی نسل کے خبط کے مساوی ہیں۔
تعجب خیز بات یہ ہے کہ اسرائیل کے اس اقدام پر پوری دنیا میں سناٹا طاری ہے ۔عالمی ذرائع ابلاغ میں اس خبر کی کوئی اہمیت نہیں ہے ،حقوق انسانی کے کارکنان انسانی حقوق کی پامالی پر مشتمل اسرائیلی قانون کو نظر اندازکررہے ہیں،جمہوریت کے سورما مذمت کرنے کے بجائے اس انتہاءپسندی پر خاموش ہیں ۔اسرائیل کی اس ہٹ دھرمی پر اقوام متحدہ نے بھی کوئی ایکشن نہیں لیاہے ،ٹرمپ کے صدر بننے کے اسرائیل کی امریکی سرپرستی بہت مضبوط ہوچکی ہے۔جمہوریت کا قتل ،انصاف کا مذاق ،عالمی قوانین کی توہین ،فلسطنیوںپر ظلم وزیادتی ،مسلمانوں کا قتل عام ،عرب شہریوں کے ساتھ دوہرا رویہ اور دہشت گردی اسرائیل کی خاص شناخت بن گئی ہے ۔اگر اس کاد س فیصد بھی کسی مسلم ملک میں ہوتا،وہاں کی زمین پر صرف مسلمانوں کا حق قراردیاجاتاتو دنیا بھر میں ہنگامہ برپا ہوتا ، اسے جمہوریت کا قتل عام ،سیکولرزم کی موت اور انسانی حقوق کی پامالی کہاجاتا۔ٹی وی چینلوں پر مہینوں ڈبیٹ اور مباحثہ کا انعقاد ہوتا،دسیوں مضامین لکھ کر مسلمانوں کی غلط شبیہ پیش کی جاتی ۔ اقوام متحدہ سے بھی اس قانون کو مسترد کردیاجاتا،انٹر نیشنل قانون کے خلاف بتایاجاتالیکن معاملہ نسل پرست یہودیوں کا ہے ،مشرق وسطی میں واقع ایک امریکی چھاﺅنی کا ہے ،دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد ریاست اسرائیل کا ہے اس لئے عالمی میڈیا میںاس موضوع پر خاموشی ہے ، سی این این سمیت چند میڈیا ہاوئس نے اپنی ویب سائٹ پر یہ خبر شائع کرتے وقت متنازع قانون لکھنے سے گریز کیاہے ۔اقوام متحدہ کی اس پر کوئی توجہ نہیں ہے اور نہ ہی دنیا بھر کے انصاف پسندوں کیلئے یہ دلچسپی کا موضو ع ہے ۔کیوں کہ اصل منشاءعالم اسلام کے خلاف جنگ چھیڑنا، مسلمانوں کو پریشان کرنا اور انہیں مختلف مسائل میں الجھائے رکھناہے ۔اس مقصد کیلئے کہیں اور کبھی جمہوریت کی تعریف وحمایت کی جاتی ہے تو کہیں اور کبھی آمریت و فاشسزم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔
stqasmi@gmail.com
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)