مکہ کی فضیلت اور اس کی حرمت

آصف تنویر تیمی

حج کا موسم شروع ہوچکا ہے،دنیا کے کونے کونے سے ضیوف رحمن(رحمن کے مہمانان) کشا کشا مکہ اور مدینہ کی طرف کھچے چلے جارہے ہیں۔ ان دنوں مکہ میں بطور خاص سفید رنگ کی دوچار میں لپٹے ہوئے حجاج کرام سے مکہ کی رونق مزید دوبالا ہورہی ہوگی۔ جدھر دیکھو ادھر حجاج کرام کا قافلہ نظر آتا ہوگا۔ مکہ کی گلی گلی اللہ کے مہمانوں سے اٹی اور سجی ہوگی، گوشے کوشے سے تلبیہ اور توحید کی پکار سنائی دیتی ہوگی۔ فی الحال عمرہ کے ارکان ادا کئے جارہے ہوگے۔ طواف اور صفا ومروہ پر لوگوں کا ہجوم ہوگا۔ کیا ہی دلکش نظارہ ہوگا۔ اللہ ان زائرین کی زیارت کو شرف قبولیت عطا فرمائے،اور خادم حرمین شریفین اور پوری مملکت توحید کو اس کا بہتر بدلہ دنیا وآخرت میں عطا کرے۔
اللہ رب العزت نے تمام مخلوقات کو وجود بخشا،اور بعض کو بعض پر فضیلت دی اور ان میں سے چند کو پسند بھی فرمایا،ارشاد باری تعالی ہے:﴾اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے، ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں،اللہ ہی کے لئے پاکی ہے وہ بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں﴿[القصص:۸۶]۔ وہ جگہیں جنہیں اللہ رب العالمین نے دیگر جگہوں پر شرف بخشا ہے ان میں مکہ مکرمہ بھی ہے۔ جو بلدامین،مہبط وحی (وحی کے نزول کی جگہ) اورمنبع رسالت جیسی خصوصیات سے مالا مال ہے۔ یہی وہ شہر ہے جس کی قسم اللہ تعالی نے کھائی ہے:﴾ میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں۔ اور آپ اس شہر میں مقیم ہیں﴿[البلد:۲-۱] ۔
مکہ معظمہ کی فضیلت اور حرمت کے تعلق سے متعدد آیات اور حدیثیں موجود ہیں ان میں سے چند ذیل کے سطور میں قلمبند کیے جاتے ہیں:
۱- اسی مکہ میں بیت اللہ شریف ہے جو اللہ تعالی کا سب سے پہلا گھر ہے،فرمان الہی ہے:﴾ اللہ تعالی کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ( شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت و ہدایت والا ہے﴿[آل عمران:۶۹]۔
۲- ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روئے زمین کی سب سے پہلی مسجد کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ سب سے پہلی مسجد مسجد حرام ،اس کے بعد مسجد اقصی ہے۔اور دونوں کے مابین چالیس سال کا فرق ہے۔ [بخاری:۶۶۳۳]
مکہ کو اللہ تعالی نے امن کا گہوارہ بنایا،یہاں خون خرابا نہیں ہوسکتا،یہاں کے درخت کاٹے نہیں جاسکتے، یہاں کے پرندوں کو بھگایا نہیں جاسکتا،کھجور کی ٹہنیاں بھی کاٹی نہیں جاسکتیں اور یہاں کی گری پڑی چیزیں بھی اٹھائی نہیں جاسکتیں سوائے اس کے کہ اٹھانے والا صاحب سامان تک پہنچانے کا عزم مصمم رکھے۔
ابوشریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مکہ کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے کسی انسان نے اسے حرام قرار نہیں دیا۔ کسی بھی صاحب ایمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ وہاں کسی کا خون بہائے، کسی درخت کو کاٹے۔ کسی کا وہاں قتال کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ کو حجت بنانا جائز نہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی کودن کے ایک پہر کے لئے قتال کی اجازت دی تھی اور پھر دوسرے پہر اس کی حرمت بحال ہوگئی“۔[بخاری: ۴۰۱،مسلم:۴۵۳۱]
مسجد حرام میں ایک وقت کی نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” میری اس مسجد میں ایک نماز دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک ہزار گنا فضیلت رکھی ہے سوائے مسجد حرام کے۔ اور مسجد حرام میں ایک وقت کی نماز کا دیگر (مساجد) کے مقابلے میں ایک لاکھ گنا ثواب ہے“۔[مسنداحمد:۴۹۶۴۱،اس کے محققین نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے]
مکہ قرآنی آیات کی روشنی میں ام القری ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:﴾اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کردیں او ر جمع ہونے کے دن سے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرادیں۔ ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا﴿[الشوری:۷]۔ جتنے بھی شہر اور گاو ¿ں ہیں سب مکہ کے تابع ہیں۔
مکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا قبلہ نہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا:﴾اور جس جگہ سے آپ نکلیں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور جہاں کہیں تم ہو اپنے چہرے اسی طرف کیا کرو تاکہ لوگوں کی کوئی حجت تم پر باقی نہ رہ جائے﴿[البقرہ:۰۵۱]۔
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے نکلے تو گھر کے آگے دورکعت نماز پڑھی اور کہا: ”یہ قبلہ ہے“۔
[بخاری: ۸۹۳،مسلم: ۱۳۳]۔
حرم مکی امن وسکون کا گہوارہ بھی ہے۔ جو اس کے اندر داخل ہوجاتا ہے وہ محترم اور محفوظ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:﴾جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اس میں جو آجائے امن والا ہوجاتا ہے﴿[ آل عمران:۷۹]۔اور فرمایا:﴾کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو باامن بنادیاہے حالانکہ ان کے اردگرد سے لوگ اچک لیے جاتے ہیں، کیا یہ باطل پر تو یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالی کی نعمتوں پر ناشکری کرتے ہیں﴿[العنکبوت:۷۶]۔ اور فرمایا:﴾کیا ہم نے انہیں امن وامان اور حرمت والے حرم میں جگہ نہیں دی؟ جہاں تمام چیزوں کے پھل کھچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس بطور رزق کے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر کچھ نہیں جانتے﴿[القصص:۷۵]۔
پیشاب اور پاخانے کے وقت بیت اللہ شریف کی طرف چہرہ یا پیٹھ بھی نہیں کرسکتے،اس سے اللہ کے گھر کی بے حرمتی اور توہین ہوتی ہے۔ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” پیشاب اور پاخانہ کرتے وقت تم سب قبلہ کی جانب چہرہ یا پیٹھ نہ کیا کرو،اس کے علاوہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرسکتے ہو“۔(واضح رہے کہ سعودی عرب کے اعتبارسے قبلہ کا سمت مغرب کی طرف نہیں ہے،مگر برصغیر کے اعتبار سے مشرق اور مغرب ہی سے بچنا ہے)
مکہ کی فضیلت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ حج کے سارے مناسک یہیں ادا کئے جاتے ہیں،بلکہ مکہ کی زیارت عبادت میں شمار کی گئی ہے، جس سے آدمی کا مقام بلند ہوتا ہے اور اس کے گناہ مٹتے ہیں۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” جس نے حج کیا اور اس دوران بے ہودہ باتیں یا گناہ کے اعمال انجام نہ دیئے تو وہ حج کے بعد ایسا پاک وصاف ہوتا ہے گویا کہ اس کی ماں نے آج ہی اسے جنا ہو“۔[بخاری:۱۲۵۱،مسلم:۰۵۳۱]
اللہ تعالی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں مکہ سب سے محبوب ترین شہر ہے۔مکہ سے بڑھ کر کوئی شہر افضل یا پسندیدہ نہیں ہوسکتا۔ عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے حوالے سے فرمایا:” اللہ کی قسم! تو دنیا کا سب سے بہتر زمین، اور اللہ کا سب سے پسندیدہ زمین ہے۔ اگر میں وہاں سے نہ نکالا جاتا تو میں اپنے تئیں ہرگز وہاں سے نہ نکلتا“۔[جامع ترمذی:۵۲۹۳،امام ترمذی نے اس کی سند کو حسن غریب صحیح قرار دیا ہے]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ ہی سے آسمان کا سفر جبریل علیہ الصلاة والسلام کی رفاقت میں طے کیا۔اللہ تعالی نے فرمایا:﴾پاک ہے وہ اللہ تعالی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے﴿[ نبی اسرائیل: ۱]۔
مکہ روئے زمین کا تین میں سے پہلا مقام ہے جہاں کا آدمی بغرض عبادت سفر کرسکتا ہے۔ دوسرا مقام مسجد نبوی اور تیسرا مقام مسجد اقصی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” (بغرض عبادت) سوائے تین مسجدوں کے سفرنہیں کیا جاسکتا؛ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی“۔[بخاری: ۹۸۱۱، مسلم: ۷۹۳۱]
اللہ تعالی نے مکہ میں واقع بیت اللہ شریف کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے۔ اگر اس بابرکت گھر اور مکہ کی فضیلت نہ ہوتی تو ہرگز اللہ رب العالمین اس عظیم گھر کی نسبت اپنی طرف نہ کرتا۔ اللہ تعالی نے فرمایا:﴾اور جب کہ ہم نے ابراہیم(علیہ السلام) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کردی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف قیام رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا“۔ [الحج:۶۳]
مکہ کی طرف اگر کوئی ٹیڑھی نگاہ بھی اٹھاکر دیکھے، برائی کا محض ارادہ بھی کرے،یہاں کے باشندوں کو ڈرانے دھمکانے اور مصائب میں مبتلا کرنے کا سوچے تو بھی ایسے لوگوں کی اللہ تعالی سخت گرفت کرے گا،بلکہ ایسے ظالموں کے لئے دردناک قسم کا عذاب اللہ تعالی نے تیار کررکھا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:﴾جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکنے لگے اور اس حرمت والی مسجد سے بھی جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے مساوی کردیا ہے وہیں کے رہنے والے ہوں یاباہر کے ہوں، جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے ﴿۔[الحج:۵۲]
اللہ تعالی ہمیں مذکورہ فضائل وبرکات سے لطف اندوز ہونے اور مکہ کی حرمتوں کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

(مضمون نگارجامعہ امام ابن تیمیہ،بہارکے استاذ ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں