آسٹریا،21؍جنوری
ملت ٹائمز ؍ایجنسی
یورپی ریاست آسٹریا نے رواں برس کے لیے اپنے ہاں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے کے حوالے سے حد مقرر کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ آسٹرین چانسلر نے وسیع پیمانے پر بارڈر کنٹرول بڑھانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔آسٹریا کے چانسلر ویرنر فیمان نے کہا، ہم تمام تارکین وطن کو آسٹریا، جرمنی یا سویڈن میں پناہ نہیں دے سکتے۔ فیمان نے یہ اعلان بدھ کے روز دارالحکومت ویانا میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
قریب ساڑھے آٹھ ملین آبادی والی مغربی یورپ کی چھوٹی سی ریاست آسٹریا میں گزشتہ برس ستمبر سے اب تک ہزار ہا پناہ گزین پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ آسٹریا پہنچنے والے اکثریتی پناہ گزین جرمنی کا رخ کرتے رہے تاہم تقریباً نوے ہزار تارکین وطن نے گزشتہ برس وہاں سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ شام، عراق، افغانستان، پاکستان اور شمالی افریقی ملکوں سے پناہ کے لیے آسٹریا پہنچنے والے مہاجرین کے حوالے سے مقامی آبادی میں پائے جانے والے خدشات کے سبب انتہائی دائیں بازو کی قوتوں کو تقویت مل رہی ہے اور نتیجتاً پناہ گزینوں کی حد مقرر کیے جانے کے حوالے سے مطالبات سامنے آ رہے تھے۔
آسٹرین حکومت کی طرف سے اعلان کردہ منصوبوں کے تحت پناہ گزینوں کو ملکی آبادی کے 1.5 فیصد تک مقرر کیا جائے گا اور وہ بھی آئندہ چار برسوں کے دوران۔ اس حساب سے رواں برس پناہ کی درخواستوں کی حد ساڑھے سینتیس ہزار مقرر کی گئی ہے جبکہ سن 2019 تک یہ تعداد پچیس ہزار تک پہنچ جائے گی۔
پریس کانفرنس میں جب فیمان سے یہ دریافت کیا گیا کہ اگر پناہ کی درخواست جمع کرانے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہوئی تو پھر کیا ہوگا، تو ان کا جواب تھا کہ ابھی متعلقہ ماہرین اس معاملے کا جائزہ لیں گے۔ نائب چانسلر رائن ہولڈ مٹرلہنر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ویرنر فیمان نے مزید کہا، ہمیں بڑے پیمانے پر سرحدوں کی نگرانی بڑھانی ہو گی۔
دریں اثناء آسٹرین وزیر داخلہ یوہانا مکل لائٹنر نے کہا کہ ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ پناہ گزینوں کو دستاویزی کارروائی یا اندارج کے بغیر آسٹریا میں جگہ دی جائے۔ انہوں نے مزید کہا، آسٹریا کی سرحد پر ہی سیاسی پناہ کی درخواستیں نہ لینے والے اور تارکین وطن کو واپس بھیجنے یا انہیں ہمارے محفوظ پڑوسی ملکوں کی طرف روانہ کرنے والے دوسرے راستے کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ نے یہ بات پبلک براڈکاسٹر ORF سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔بعد ازاں جرمنی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مہاجرین کے بحران کے حل کے لیے ترکی کی مدد سے یورپی یونین کی سطح پر کوئی حل تلاش کرنے کی کوششوں کے لیے آسٹرین فیصلہ مدد گار ثابت نہیں ہو گا۔