پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
ہندوستان میں عدم رواداری کا بول بالاہے ،اقلیتوں کو مختلف مسائل کا سامناہے ،پولس افسران مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ اپناتے ہیں، عدالت سے بھی انہیں جلد انصاف نہیں ملتاہے،نفرت انگیز مہم چلانے والوں کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی ہے ،مسلمانوں کے خلاف فساد بھڑکانے والے اور ان کے خلاف بیان بازی کرنے والوں کی حکمراں جماعت بی جے پی کی جانب سے حمایت کی جاتی ہے ،ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کو گؤ کشی پر پابندی سے اقتصادی نقصانات کا سامناہے ،مبینہ طور پر قانون شکنی کے الزام میں انہیں پریشان بھی کیا جاتاہے ،بی جے پی کے کچھ ممبران مسلمانوں کی بڑھتی آباد ی پر پابندی عائد کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کامطالبہ کررہے ہیں،شک کی بنیاد پر مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جاتاہے ،دہشت گردی کا فرضی الزام عائد کرکے برسوں انہیں قیدی بناکر رکھا جاتاہے ۔بی جے پی رہنماء مختلف مواقع پر مسلمانوں کو شیطان کہتے ہوئے اور ان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے بھی سنے گئے ہیں ۔
عالمی مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والی تنظیم یو ایس سی آئی آر ایف (United States Commission on International Religious Freedom) کی ر پوٹ کے یہ چند اقتباسات ہیں جو اس نے ہندوستان کی مذہبی آزادی کے تناظر میں پیش کئے ہیں، یہ رپوٹ سال 2015 کے بارے میں پیش کی گئی ہے جس میں ہندوستان کی مذہبی آزادی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ،اقلیتوں کو در پیش مسائل اور مسلمانوں، عیسائیوں سکھوں کے ساتھ پیش آنے والے ظلم وستم کے واقعات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ،رپوٹ میں واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ ہندوستان میں سال 2015 میں عدم رواداری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ،مسلمانوں اور عیسائیوں کو مختلف مواقع پر پریشان کیا گیاہے ،تبدیلی مذہب قانون کی مخالفت بھی کی گئی ہے اور اس کی آڑ میں مسلمانوں کو ستایا بھی گیا ہے ،مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزبیان دینے والے شاکسی مہاراج اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسے بی جے پی لیڈورں کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے ان کی حمایت کی گئی ہے ،وزارت داخلہ کی ایک رپوٹ سے بھی ان باتوں کی تصدیق ہوتی ہے جس میں یہ کہاگیا ہے کہ سال 2015 میں 2014 کے مقابلہ میں فرقہ وارانہ فسادات میں 17 فیصد کا اضافہ ہواہے ،یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان تمام فسادات میں مذہب کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتاہے اور ان کا جانی ،مالی ہر طرح کا نقصان کیا جاتاہے ۔رپوٹ میں واضح طور پر حکمراں جماعت بی جے پی کے رویے کی مذمت کی گئی ہے اور مسلمانوں ،عیسائیوں سکھوں سمیت دیگر اقلیتوں پر ہونے والے حملے کے لئے انہیں ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔امریکی کمیشن کی اس رپورٹ میں یہاں پیش آنے والے ہر واقعہ کا احاطہ کیاگیا ہے دادری سے لے کر مختلف شہروں میں پیش آنے والے مسلم مخالف فسادات اور کنٹر ادیب ایم ایل گلبرگی کے قتل سے لے کر ایم بی اے گریجویٹ ذیشان علی خان کو مسلمان ہونے کی وجہ سے ملازمت نہ دینے جانے سمیت متعدد واقعات کو رپوٹ میں بطور ثبوت کے پیش کیا گیا ہے ،ملک میں عدم رواداری سے متعلق عامر خان اور شاہ رخ خان کے اظہار تشویش اور اس کے ردعمل میں شدت پسند وں کی جانب کئے جانے والے احتجاج کا بھی جائزہ لیا گیا ہے ۔
ہندوستان نے اس رپوٹ پر سخت ردعمل کا اظہا رکرتے ہوئے یہ تو کہ دیا ہے کہ ہندوستان تکثیریت بر مبنی ایک سماج او ر معاشرہ کانام ہے جہاں تمام مذاہب کو یکساں حقوق حاصل ہے،مذہب کے نام پر کسی کے ساتھ کوئی تفریق نہیں برتی جاتی ہے ،تنظیم کے ذمہ داروں کو اس ملک کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے اور نہ ہی یہ رپوٹ حقائق پر مبنی ہے ،لیکن صورت واقعہ یہ نہیں ہے، رپوٹ میں ہندوستانی معاشرہ کی موجودہ صورت حال کی صرف دس فیصدہی عکاسی کی گئی ہے ،جوکچھ یہاں ہورہاہے اگر ان تمام کو پیش کردیا جائے ، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ موجودہ حکومت کی معصبانہ پالیسی کو منظر عام پر لایا جائے تو ہندوستانی حکومت دنیا کے سامنے مکمل طور پر برہنہ ہوجائے گی اور کہیں منہ چھپانے کا موقع نہیں ملے گا، اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ یو ایس سی آئی آر ایف رپوٹ کے تناظر میں ہندوستان اپنا جائزہ لے ،اقلیتوں کے مسائل حل کرے ،انہیں ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کرے ، نعرہ بازی کے بجائے اسے عملی جامہ پہنائے۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مذہبی عدم روادری کے واقعات میں اضافہ کوئی نئی اور مخفی بات نہیں ہے ،مذہبی خطوط پر عوام کو تقسیم کرنے کیلئے خود بی جے پی ذمہ دار ہے ،دہلی اور بہار الیکشن کے دوران بی جے پی نے جس طر ح کی سیاست کی ، ہندوووٹوں کو حاصل کرنے کیلئے جو حربے اپنائے گئے وہ آج بھی ریکاڈ میں موجود ہیں ،اس کے بعد مذہب کے نام پر جس طرح پے درپے مسلمانوں کا قتل ہواہے ،گائے کے نام پر محمد اخلاق سمیت پورے ملک میں تقریبا دس سے زائد مسلمانوں کا بہیمانہ انداز میں خون کیا گیا ہے ، ہزاروں مسلمانوں کو فسادات کے نام پر تہ تیغ کیا گیا ہے ،کئی مسلم افسران کو مارا گیا ہے ،اشتعال انگیزی اور نفرت آمیز مہم کا تسلسل اب بھی جاری ہے ،لوجہاد اور گھر واپسی جیسے مسائل نے دنیا بھر میں ہندوستان کو بدنام کیا ہے ،علاوہ ازیں مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا پن کا رویہ ،پولس افسران کا تعصب اور بے گناہوں کو دہشت گرد قراردے کر جیل کی سلاخوں میں ڈالنا ، ان کی زندگی برباد کرنا ایک مستقل مسئلہ ہے جس سے ہزار کوششوں کے باوجود بھی نجات نہیں مل رہی ہے ،ابھی کل کی بات ہے مالے گاؤں بم دھماکہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں نو مسلمان باعزت بری کئے گئے لیکن آج پھر 12 مسلمانوں کو جیش محمد سے تعلق رکھنے اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتا ر کرلیا گیا ہے ،ٹائمز آف انڈیا کی رپوٹ کے مطابق آٹھ افراد کی گرفتاری دہلی سے عمل میں آئی ہے جبکہ چار افراد کو دیوبند سے گرفتار کیا گیا ہے ،غیر قانونی تنظیم سے تعلق رکھنے ،دھماکہ خیز مواد تیا ر کرنے اور مجرمانہ سازش رچنے کے الزام میں ان کے خلاف ایف آئی آر بھی در ج کرلی گئی ہے ۔
یو ایس سی آئی آر ایف امریکہ کی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جسے 1998 کے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت قائم کیا گیاتھا، یہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے ،اس کا م دنیا بھر کے ممالک میں جانا ،وہاں کے سرکاری افسران ،ارباب اقتدار ،عوام ،مذہبی رہنماء ،ماہرین سیاست اور مختلف گروپ کے لوگوں سے ملاقات کرنا ہے ،،بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال، میٹگ کاانعقاد ،امریکہ میں وزرات خارجہ کے وفد سے ملاقات اور اس طرح کی دیگر چیزیں اس کے ا ختیارات میں شامل ہیں ، کمیشن ہرسال یکم مئی کو اپنی سالانہ رپوٹ پیش کرتی ہے جس میں امریکہ سمیت دنیا بھر کے تمام ملکوں کی مذہبی آزادی کا جائزہ پیش کیا جاتاہے ، سال رواں اس کمیشن نے ہندوستان کو بھی آئینہ دکھایا ہے ،اس سے قبل بھی کئی مرتبہ میں یہ کمیشن ہندوستان میں عدم رواداری پر سوالات اٹھاچکی ہے ،اس کمیشن کو گذشتہ ماہ مارچ میں ہندوستان آنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے تاہم اس نے عہدکیاہے کہ ہم ہندوستان پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں اور 2016 کی رپوٹ بھی پیش کریں گے ۔
مذہبی آزادی کے پس منظر میں امریکی کمیشن نے ہندوستان کو صحیح آئینہ دکھایا ہے لیکن اس کمیشن سے یہ شکایت بھی ہے کہ دنیا بھر کو مذہبی آزادی کاسبق پڑھانے والی یہ کمیشن خودا پنے یہاں اس پر کیوں توجہ نہیں دیتی ہے ،امریکہ اور یورپ میں پائے جانے والی مذہبی عدم رواداری کا جائزہ کیوں نہیں لیتی ہے ،ہندوستان سے زیادہ تشویشناک حالات امریکہ ،جرمنی ،چین اور یورپین ممالک کی ہیں جہاں کبھی روزہ رکھنے ،نمازپڑھنے اور دیگر شعائر اسلام کی ادائیگی پر پابندی عائد کی جاتی ہیں ،کبھی مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے ،کبھی مساجد کے میناروں کو منہدم کرنے کا حکم نامہ جاری کیا جاتاہے ،کبھی مسلمان ہونے کی وجہ سے ، اسکول ،ریسٹورینٹ ،شاپنگ مال،پروگرام ہال ،کانفرنس اور دیگر مقامات سے نکال دیا جاتاہے ،کبھی مذہب کے نام پر ملازمت نہیں دی جاتی ہے ،کبھی برقعہ پر پابندی پہننے پر روک لگائی جاتی ہے ،کبھی سیاسی ،سماجی ،تعلیمی سطح پر امتیازی سلوک برتاجاتاہے۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com