سہیل انجم
تقریباً ایک سال قبل کرناٹک اردو اکادمی نے ’اردو صحافت کے دو سو سال‘ کے موضوع پر ایک انتہائی اہم سمینار کا انعقاد کیا تھا۔ اس کے بعد قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی جانب سے اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن منانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سلسلے کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں صحافت سمیناروں کا اہتمام کیا گیا جن میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً سو مقالے پیش کیے جا چکے ہیں۔ جشن صحافت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسی تسلسل میں بہار اردو اکادمی نے بھی ۱۶؍ اور ۱۷؍ اپریل کو پٹنہ میں دوروزہ صحافت سمینار کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا ’اردو صحافت: کل، آج اور کل‘۔ بہار اردو اکادمی کے فعال اور متحرک سکریٹری جناب مشتاق احمد نوری نے اکادمی کو انتہائی سرگرم کر دیا ہے اورعموماً کوئی نہ کوئی پروگرام منعقد ہوتا رہتا ہے۔ یہ راقم کی خوش نصیبی تھی کہ اسے بھی مذکورہ سمینار میں شرکت کی دعوت دی گئی جس کو اس نے عدم فرصت کے باوجود یہ سوچ کر قبول کر لیا کہ اسی بہانے بہار میں اردو دوستوں کے ذوق و شوق کا اندازہ ہوگا اور بہت سی اہم شخصیات سے ملاقات اور فیضیاب ہونے کا شرف بھی حاصل ہوگا۔ بہر حال یہ سمینار انتہائی اہم اور کامیاب ثابت ہوا۔ نوری صاحب نے صحافیوں کی تینوں نسلوں یعنی بزرگ، سینئر اور نوآموز صحافیوں کو ایک اسٹیج پر بیٹھنے کا موقع فراہم کر دیا۔ میں اکثر و بیشتر کہا کرتا ہوں کہ اردو صحافیوں میں جنریشن گیپ ہے۔ ان میں آپس میں رابطے کی کمی ہے۔ لیکن مذکورہ سمینار میں اس کمی کا احساس نہیں ہوا۔ سمینار کے دوران تقریباً بیس مقالے پیش کیے گئے جو واقعی بہت اچھے تھے۔ ان مقالوں میں موضوع کا حق ادا کیا گیا۔ یعنی اردو صحافت کے ماضی، حال اور مستقبل کا جائزہ لیا گیا۔ مقالہ نگاروں نے صحافت کے مثبت اور منفی دونوں پہلؤوں کو پیش کیا اور خود احتسابی کے مرحلوں سے خود کو گزارا بھی۔ جہاں اس بات کا شکوہ کیا گیا کہ اردو صحافت میں زوال آیا ہے وہیں اس کی نشاندہی بھی کی گئی کہ زوال تمام زبانوں کی صحافت میں آیا ہے اور یہ کہ اردو صحافت بھی زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور آئی ٹی انقلاب نے اس کے دامن کو بھی امکانات سے بھر دیا ہے۔ بیس مقالوں میں صحافت کی زلف گرہ گیر کو سلجھانے کی کوشش بھی کی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ زبان و بیان کے معیار میں آئی گراوٹ کے باوجود اس زلف کے دیوانوں کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس انتہائی کامیاب سمینار کے لیے جناب مشتاق احمد نوری قابل مبارکباد ہیں۔ سمینار میں ایک خاص بات یہ نوٹ کی گئی کہ بہار میں اردو زبان سے لوگوں کی دلچسپی برقرار ہے۔ اس کا ثبوت وہ سامعین تھے جو صبح سے شام تک سمینار ہال میں تشریف فرما رہے۔ دہلی میں لنچ کے بعد نصف سے زائد کرسیاں خالی ہو جاتی ہیں اور صرف وہ لوگ بچتے ہیں جن کو مقالہ پیش کرکے اعزازیہ لینا ہوتا ہے۔ لیکن مذکورہ سمینار کے سامعین کی دلچسپی آخر تک قائم رہی، صرف چند کرسیاں ہی خالی ہوئیں۔ راقم نے ایک اور اہم بات نوٹ کی۔ وہ یہ کہ اہل بہار کی اردو سے دلچسپی مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ دہلی میں ادبی کتابوں کی فروخت بہت کم ہے۔ مصنفین خود کتابیں چھپواتے ہیں اور دوست احباب میں مفت تقسیم کر دیتے ہیں۔ یہاں ایسے بہت سے ’اردو دیوانے‘ بھی ہیں جو مفت میں بھی کتاب کو ہاتھ میں لینا گوارہ نہیں کرتے۔ جبکہ پٹنہ کے سبزی باغ میں کتابوں کی ایک معروف اور قدیم دکان ’بک امپوریم‘ میں ادبی کتابوں کی بھرمار دیکھی۔ یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ لوگ بڑی تعداد میں ادبی کتابیں اور رسالے خریدتے ہیں۔ وہاں کے لوگ مفت میں کتاب پڑھنے کا شوق نہیں پالتے۔ اس رحمانیہ ہوٹل کی چائے سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملا جو اب بھی ادیبوں اور شاعروں کا ایک اہم مرکز بنا ہوا ہے او رجس نے کلیم الدین احمد سمیت جانے کتنے شہرہ آفاق ادیبوں اور شاعروں کی مہمان نوازی کی ہے۔ راج بھاشا بہار میں ڈپٹی ڈائرکٹر اردو اور بھاشا سنگم اور آمد کے مدیر جناب خورشید اکبر ہوں یا ایس سی ای آر ٹی سے وابستہ اور متن اور مکالمہ کے مصنف قاسم خورشید ہوں، بہار ودھان پریشد میں ایڈمنسٹریٹو افسر اور شاعر و ادیب عطا عابدی ہوں یا سہ ماہی دسترس دھنباد کے مدیر ڈاکٹر رونق شہری اور شاعر و ادیب عالم خورشید ہوں یا پھر دوسرے ہمعصر ادیب و شاعر ہوں سب اسی جگہ ادبی مباحثوں میں حصہ لے کر گیسوئے اردو کو ہمرشتۂ شانہ کرتے رہتے ہیں۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ حالیہ برسوں میں اردو صحافت پر سمیناروں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ متعدد اردو اکادمیوں نے صحافت کو اس لائق سمجھا ہے کہ اس پر سمینار کیے جائیں اور مقالوں کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے۔ یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے اور امید ہے کہ آگے بھی جاری رہے گا۔ اردو صحافت مختلف تبدیلیوں اور تجربوں کی گزرگاہوں سے گزرتے ہوئے آج اس نقطہ اتصال تک آپہنچی ہے جہاں سے دو راستے پھوٹتے ہیں۔ ایک راستہ قربانیوں سے بھرپور شاندار ماضی کی بازیافت تک لے جاتا ہے تو دوسرامادی آسائشوں اور دنیاوی چمک دمک کے آستانے تک پہنچاتا ہے۔ پہلا راستہ بڑا ہی پر پیچ ہے، خارزار ہے، آسائشوں سے ناآشنا ہے۔ اسی کوچے میں دار ورسن کی منزلیں بھی ہیں اور اسی میں جشن مقتل بھی برپا ہوتا ہے۔لیکن یہ وادی اردو صحافیوں کے لیے اجنبی نہیں۔ وہ اس گزرگاہ کے پرپیچ راستوں سے ناآشنا نہیں۔ اردو صحافیوں نے اسی کوچے میں اپنے خون جگر سے شمعیں روشن کی ہیں اور اپنے سروں سے دارورسن کو سجایا ہے۔ اپنے تلووں کو لہو لہان کیا ہے اور پا بہ جولاں رقص بھی کیا ہے۔ انگشتِ فگار اور خامۂ خوں چکاں سے حکایت درد دل لکھی ہے اور نغمہ ہائے جنوں قلمبند کیے ہیں۔ صحافت بھی ادب کی مانند سماج کا آئینہ ہوتی ہے۔ سماج کروٹ لیتا ہے تو صحافت بھی کروٹ بدلتی ہے۔ اس کے آئینے میں سلسلہ روز وشب کے بطن سے پیدا ہونے والے حالات وواقعات اور حادثات وسانحات کی خوش رنگ و بدرنگ شکلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اور کبھی کبھی یہی صحافت سماج کو آئینہ بھی دکھاتی ہے۔ جب سماج میں اتھل پتھل مچی ہو اور معاشرتی قدریں شکست وریخت سے دوچار ہوں تو صحافت کے سامنے نئے نئے چیلنجوں کے در وا ہو جاتے ہیں، نئی آزمائشیں راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور نئے فتنے سر اٹھانے لگتے ہیں۔ گندم نما جوفروش صحافی وقت کے دھارے میں بہہ جاتے ہیں۔ لیکن حقیقی صحافی جن کے قلم میں وقت کی کلائی مروڑنے کی قوت ہوتی ہے اس دھارے کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت صحافت اور صحافیوں کا اصل امتحان اسی وقت ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی آئی ٹی انقلاب سے عبارت ہے۔ جہاں دوسری زبانوں کی صحافت نے اس انقلاب سے استفادہ کیا ہے وہیں اردو صحافت بھی اس کے فیوض و برکات سے مالامال ہے۔ یہ بات بڑی حوصلہ بخش ہے کہ صحافیوں کی نئی پود انفارمیشن ٹیکنالوجی سے پوری طرح لیس ہے۔ آج اگرچہ اردو زبان کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے تاہم اردو صحافت مائل بہ فروغ ہے۔ لیکن کوئی بھی انقلاب جہاں اپنے دامن میں بہت سی خوبیاں سمیٹے ہوتا ہے وہیں وہ کچھ خامیاں اور برائیاں بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔ لہٰذا آئی ٹی انقلاب اردو صحافت کے لیے کچھ خرابیاں بھی کر آیا ہے۔ حالیہ برسوں میں اردو اخباروں کی تعددا سیلاب کے پانی کی مانند بڑھی ہے۔ لیکن جس طرح سیلاب اپنے ساتھ وبائی امراض کا تحفہ بھی لے کر آتا ہے اسی طرح کثرتِ اخبار بھی بہت سی صحافتی خرابیاں وبائی شکل میں اپنے ساتھ لے کر آئی ہے۔ لیکن بہر حال اس اردو کش ماحول میں وہ لوگ لائق مبارکباد ہیں جو تمام تر پریشانیوں اور آزمائشوں کے باوجود اخبارات نکال رہے ہیں۔ خدا کرے کہ صحافت میں در آئی خرابیاں عارضی ثابت ہوں۔ وہ ایک بار پھر اپنے درخشاں ماضی کا احیاء کرے اور ایک بار پھر مولانا آزاد، مولانا ظفر علی خاں، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا مودودی، مولانا فارقلیط، مولانا عبد الماجد دریابادی، حیات اللہ انصاری، عشرت علی صدیقی اور ان جیسے دوسرے صحافی پیدا ہوں جو صحافت کو اس کی معراج پر لے جائیں۔ اردو صحافت کے مستقبل سے مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ جب تک اردو لکھنے پڑھنے والا ایک بھی شخص زندہ ہے اردو صحافت بھی زندہ رہے گی۔ خواہ اس کی شکل کچھ بھی ہو۔ اسے کوئی مٹا نہیں سکے گا۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور مصنف ہیں )
sanjumdelhi@gmail.com