احساس نایاب
نوجوان بچوں کے والدین، سرپرست اور قوم کے سبھی ذمہ داروں سے گذارش ہے کہ سماج دشمن اور مسلم دشمن عناصر سے ہوشیار رہیں ورنہ بیٹیوں کی ڈولی کی جگہ ان کے جنازے اٹھانے پڑیں گے کیوں کہ دشمنانِ اسلام کی طرف سے خطرے کی گھنٹی بچ چکی ہے،ہمارے بچوں کے اوپر ان دیکھا خطرہ سائے کی طرح منڈلا رہا ہے جو محبت کا چولا اوڑھے، میٹھی میٹھی باتوں میں مسلم لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر محبت کے نام پہ انکی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے اور یہ چھلاوے کوئی اور نہیں بلکہ آر ایس ایس سنگھیوں کے چیلے چپاٹے ہیں جو اپنے آقاؤں کے اشاروں پہ ہندوستان کی ہر ریاست، ہر شہر حتیٰ کہ ہر گاؤں اور محلے میں جال بچھاکر شکار کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھے ہیں،انہوں نے ہندتوا کی حفاظت کے نام پر اسلام کے خلاف بیحد گھناؤنی منصوبہ بندی کی ہے، انکی اس منصوبہ بندی کے تحت ایسے کئی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی تربیت کی جارہی ہے جو باآسانی کسی بھی مسلم لڑکے، لڑکیوں کو پیار محبت اور دوستی کے جال میں پھانس کر ان کے ایمان پر دھاوا بول سکے، اور فی الحال ان کے نشانے پہ مسلم لڑکیاں ہیں کیونکہ انہوں نے تین طلاق،خلع اور حلالہ کو لیکر مسلمانوں کی ازدواجی زندگیوں کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی، میاں بیوی میں نااتفاقیاں پیدا کر کے خاندانی نظام کے بنیادی ڈھانچہ کو کمزور کرنا چاہا لیکن جب انہیں یہ احساس ہوا کہ مسلم خواتین اپنی شریعت کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہیں تو انہوں نے اپنی سازش کا رخ نوجوان نسل کی طرف موڑ دیا جو ہماری قوم کا مستقبل ہیں. حالات حاضرہ کا صحیح جائزہ لیں گے تو انکی رچی گئی تمام سازشوں کی پرتیں ایک کے بعد ایک ہٹنے لگیں گی اور ماضی سے لیکر آج تک کے سارے حادثات کی وجہ صاف صاف نظر آنے لگے گی کہ کیسے انہوں نے سوشل میڈیا کو ہتھیار بناکر اسکا ناجائز استعمال کر مسلم لڑکے لڑکیوں کو پھنسایااور ان کی زندگیاں تباہ وبرباد کی ہیں۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم مسلم نوجوانوں سے جڑے حملوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیسے ان پہ بارہا حملے ہوئے اور کس طرح انہیں ہراساں کیا جارہا ہے. جیسا کہ ملک کا ہر با شعور فرد اس بات سے واقف ہے کہ 2014 سے لیکر آج تک ہر دن کوئی نہ کوئی مسلم نوجوان مآب لنچنگ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو رہا ہے، لوجہاد کے نام پہ آئے دن ہراساں کیا جارہا ہے، انہیں جانوروں کی طرح مارا پیٹا جارہا ہے، آخر یہ لو جہاد کا اصل معاملہ کیا ہے؟ کیا واقعی میں ہمارے نوجوان عشق و عاشقی کے مرض میں مبتلا ہیں یا کسی کی سازش کا شکار ہیں، ہمارے لئے اس کی حقیقت اور اس کی سچائی کو جاننا بیحد ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسے خوفناک واقعات سے اپنوں کو بچایا جاسکے. دراصل سنگھی دہشتگردوں نے اپنی تنظیم میں جن لڑکے، لڑکیوں کو شامل کیا ہوا ہے وہ انہیں ہر طرح سے تیار کررہے ہیں، پھر انہیں فیس بک واٹس اپ اور دیگر سوشل میڈیا پہ فیک آئی ڈی کے ذریعہ آیکٹیو کردیا جاتا ہے اور انکا کام ہوتا ہے کہ یہ مسلم نوجوانوں کے ساتھ دوستی کریں، پھر پیار، محبت کی باتیں کرکے انہیں اپنی محبت کا یقین دلائیں اور اسی دوران انہیں ملاقات کے لئے آمادہ کریں اور کسی بھی سنسان جگہ پہ بلائیں، جہاں پہلے ہی سے موجود بھگوادھاری غنڈے چھپ کر لڑکے کا انتظار کررہے ہوتے ہیں اور جیسے ہی لڑکا ملاقات کے لئے طئے شدہ جگہ پہنچتا ہے، تو سارے کے سارے بھگوے غنڈے اُس اکیلے لڑکے پہ جنگلی کتوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں، اُس کی پٹائی کر اُسے بےجان کردیتے ہیں اور اس طرح کے واقعات میں اکثر ان لڑکوں کی جان بھی چلی جاتی ہے، جیسا کہ راجستھان میں افرازول کو بے رحمی سے زندہ جلاکر ماردیا گیا. پھر بڑی بےحیائی سے اس درندگی کی تصاویر اور ویڈیوز بناکر سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کردی جاتی ہیں، اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں میں ڈر اور دہشت قائم کرنا ہوتا ہے اور حیرانگی تو اُس وقت بڑھ جاتی ہے کہ اکثر و بیشتر اس طرح کے حملوں کے دوران پولس کی موجودگی بھی دیکھی جا چکی ہے …
یہاں پہ یہی غورطلب بات ہے کہ آخر پولس کی موجودگی کے باوجود انکے حوصلے اتنے بلند کیسے ہورہے ہیں جس سے یہ کھلے عام آدم خور بنے گھوم رہے ہیں اور راہ میں آنے والے ہر انسان پہ حملہ آور ہورہے ہیں چاہے وہ کوئی عام انسان ہو یا میڈیا سے جڑی شخصیات ہوں، جیسے کچھ دن قبل ” پنکھڑی اور اُسکی ٹیم پہ حملہ کیا گیا ” کہیں انہیں پولس اور حکومت کی شہ تو نہیں مل رہی ہے ؟ کچھ اسی طرح مسلم لڑکیاں بھی جابجا انکی سازش کا شکار بن رہی ہیں، آزاد خیالات اور جدید زمانے کے ساتھ خودمختار زندگی کی چاہت، عیش وعشرت کی ہوس اور مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی حماقت تو کہیں چند کمسن عمر کی ناسمجھی، نادانی میں اپنی عزت کا سودا کررہی ہیں، جہاں لڑکوں کے لئے جان کا خطرہ ہے وہیں لڑکیوں کی عصمت و عفت اور ایمان خطرے میں ہے یا یوں کہیں کہ ہماری قوم کا مستقبل ہی خطرے میں ہے کیونکہ مسلم لڑکیوں کو بہکانے کے لئے ہندو لڑکوں کو پیسوں کا لالچ دیا جارہا ہے، ایک لڑکی کو محبت کے جال میں پھنسا کر نام کی شادی رچانے کے بدلے لڑکے کو دو لاکھ روپئے دیئے جارہے ہیں اور ہندوتوا کے نام پہ انہیں اکساتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اس قدر بھڑکایا جارہا ہے کہ آج بوڑھے سے لیکر مرد، عورت اور چھوٹے بچوں کے دلوں میں بھی نفرت کا بیج پروان چڑھ چکا ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انکی اس سازش کو انجام دینے کے لئے سرکار اور پولس بھی کھلے عام اپنا کردار ادا کررہی ہے، ان کے ہر برے کاموں میں انکی حمایت کرتے ہوئے، جسکا جیتا جاگتا ثبوت حال ہی میں پیش آیا واقعہ ہے، ایک غیرمسلم لڑکے کے ساتھ مسلم لڑکی کو سنسان جنگل میں تنہا دیکھ کر چند علاقائی لوگوں نے اُن دونوں سے پوچھ تاجھ کرتے ہوئے انہیں ڈرا کر نصیحت کی گئی پھر لڑکی کے والد آور بھائی کو کال کرکے موقعہ پہ بلایا گیا تاکہ وہ وہاں سے اپنے گھر کی عزت کو صحیح سلامت لے جائیں، لیکن افسوس! اس کے بدلے اُن علاقائی لوگوں کے خلاف پولس نے سوموٹو کیس درج کردیا، جبکہ پولس کو چاہئیے تھا کہ وہ خود لڑکے لڑکی کو ڈرا دھمکا کر اپنے والدین کے حوالے کرے تاکہ آئندہ وہ اسطرح کی حرکت نہ کریں لیکن پولس تو انکی راہیں ہموار کرنے میں لگی ہے۔
پولس کا یہ دوغلا پن بیحدشرمناک ہے، مسلمانوں پہ ہورہے مظالم کو دیکھ کر تو کبھی انکی پولس گری نہیں جاگی بلکہ اُس وقت ظالم کو سزا دینے کے بجائے یہ اپنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں، ایک نوجوان کا قتل ہوتا دیکھ کر بھی یہ تماشبین بنے اپنے فرض اپنی خاکی وردی سے غداری کررہے ہوتے ہیں۔
وہ تو شکر ہے اللہ تعالی کا کہ وہ مسلم لڑکی زندہ صحیح سلامت تھی اور وقت رہتے علاقے کے مسلمانوں کی نظر میں آگئی، ورنہ اُسکے ساتھ کچھ بھی غلط ہوسکتا تھا، اُسے اُس سنسان جنگل میں مار کر پھینک بھی دیا جاتا تو کسی کو خبر تک نہیں پہنچتی یا بدمعاش لڑکے اُس کے ساتھ زور زبردستی کرتے تو بھی اسکی آواز وہیں پہ گھٹ کے رہ جاتی، جیسے مودی راج میں آئے دن سننے میں آرہا ہے، تو اُس وقت اُس حادثہ کا ذمہ دار کون ہوتا ؟ پولس یا سرکار یا سماج کے وہ لوگ جنہوں نے اسطرح کے میل ملاپ کو اپنا شیوہ بنا رکھا ہے اور اپنے بچوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے ؟
آج موجودہ حالات بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کررہے ہیں اور ہر سوچ کے ساتھ کئی سوالات جنم لے رہے ہیں اور ہر سوال کا جواب صرف یہی ہے کہ آج کا مسلمان احمق، بزدل، بےدین، مطلب پرست اورمنافق قسم کے ہیں اسلئے آج مسلمان تنہا ہی مظلوم ہے، ساری دنیا میں اللہ کے سوا کوئی اس کا یارو مددگار اور ہمدرد نہیں رہا یہاں تک کہ اُسکے ہمسائے بھی اُسکے دشمن ہیں کیونکہ جو اپنی مدد آپ نہیں کرسکتے انکا کوئی اپنا نہیں ہوتا، اسلئے ہماری قوم اتنی ذلت بھری زندگی بسر کررہی ہے اور ہماری بزدلی کی وجہ سے آج ہماری زندہ بہن، بیٹیوں کے ساتھ ساتھ مری ہوئی جنت نشین خواتین کو بھی قبروں سے نکال کر انکے ساتھ غلط کرنے کی گھٹیا گری ہوئی بات کہہ کر بھی وہ سینہ تانے کھڑے ہیں اور بزرگان دین کی شان میں گستاخی کرنے کے باوجود زندہ ہیں، یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ آج ہماری قوم مردہ ہوچکی ہے، ہمارے مسلم بھائی جو اسلام کے شیر دل سپاہی کہلایا کرتے تھے آج اُن میں زنانوں کی جھلک دکھائی دے رہی ہے، جو اپنی بہنوں کو سربازار لٹتے، نیلام ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی انکے محافظ نہیں بن سکتے انکی مردانگی پہ سوالیہ نشان ہے، اگر ہم میں تھوڑی بھی غیرت باقی ہے اپنے بچوں اور اسلام سے محبت ہے تو ہمیں خواب خرگوش سے جاگنا ہوگا، اولاد سے محبت کے ساتھ اُن پہ چیل کی نظر رکھنی ہوگی، مرغی اور چڑیا کی طرح اپنے بچوں کی حفاظت کرنی ہوگی، جیسے یہ ننہی جانیں اپنے چوزوں کو بچانے کے لئے کسی پہ بھی جھپٹ پڑتی ہیں بالکل اُسی طرح ہمیں بھی دانا ڈالنے والے دشمنوں کو پہچاننا ہوگا، تاکہ کوئی ہمارے بچے بچیوں کو چکنی چپڑی باتوں میں ورغلاکر اسلام کا باغی نہ بناسکے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب اکبر کا داماد وشنو اور زینب کی بہو رادھا ہوگی اور اللہ نہ کریں ہمارے نوجوان زم زم کی جگہ گاؤ متر کو تبرک سمجھنے لگیں، یہ سچ کڑوا ضرور ہے لیکن حقیقت ہے جسے سکیولرزم کی آڑ میں کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا، کیونکہ جس قدر تیزی سے فرقہ پرست مسلم نوجوانوں کا مذہب تبدیل کروارہے ہیں وہ تمام والدین، علماءکرام اور قوم کے سبھی ذمہ داران کے لئے لمحہ فکریہ ہے، اگر ابھی ہم کوئی سخت اقدامات نہیں کر سکے تو آنے والے دنوں میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچےگا، کیونکہ ہمارے نوجوان سوکھی ریت کی طرح ہمارے ہاتھوں سے پھسلتے جارہے ہیں اور ہم فرقوں، مسلکوں میں الجھ کر اپنے اصل مقصد کو بھلا کر اپنی حقیقی طاقت کو کھو چکے ہیں جبکہ ہماری پہچان، ہماری طاقت، ہمارا اتحاد ہے اور آج اگر اپنے وجود کو بچانا ہے تو ہمیں ایک ہونا ہی ہوگا، سارے اختلافات بھلا کر اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہی ہوگا فرقوں و مسلکوں کو بالاتر رکھ کر صرف اور صرف مسلمان بنے رہنا ہوگا، ورنہ جب تک ہم ایک نہیں ہوں گے اسی طرح کٹتے رہینگے آور ہمارے گھروں کی عزت غیروں کے گھر کی لونڈیاں بنتی رہیں گی اور ہم اپنی بہنوں کی ڈولیاں اٹھانے کے بجائے انکے جنازے اٹھاتے رہیں گے اور ہمارے علماء حکمت، صبر کی دہائیاں دیتے ہوئے بس جنازے پڑھانے، چالیسویں فاتحہ پڑھاتے رہینگے، کیونکہ آج تو انکے پاس اتنی فرصت ہی نہیں رہی کہ وہ امت کے بارے میں کچھ سوچیں، انہیں تو اپنے مسلکوں و فرقوں کی جنگ سے ہی فرصت نہیں مل رہی، امت بھاڑ میں جائے انہیں کیا لینا دینا ہے انہیں تو بس اپنی انا سے محبت ہے، بھلے بنت حوا کا وجود ہی کیوں نہ ختم ہوجائے، کسی کو ان کی پرواہ نہیں ہے تبھی تو کورٹ میں، میریج رجسٹرار آفس میں کئی مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کے لئے عرضیاں لگی ہیں اور جس طرح سے ہماری بہن بیٹیاں ہندو دھرم اپنا رہی ہیں وہ بہت ہی دکھ کی بات ہے کہ آج اسلام کی شہزادیاں غیرمسلم لڑکوں سے شادی کرکے اپنی دنیا و آخرت دونوں کو تباہ کررہی ہیں، ہم تبلیغ کی تو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں یہاں تک کہ خود کو داعی کا لقب بھی دیتے ہوئے غیر مسلمان کو اسلام کی دعوت دینا اپنا اہم فریضہ مانتے ہیں لیکن یہاں جو خود ہماری اپنی بہنیں اسلام سے خارج ہورہی ہیں اسکا ذمہ دار کون ہے؟کیا انکے لئے ہمارے علماؤں کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟کیا کسی نے کبھی سوچا ہے کہ یہاں پہ کس کی لاپرواہی ہے اور چوک کہاں پہ ہورہی ہے؟آج ہمارے اپنے گھر دین سے ویران ہوچکے ہیں اور ہم اوروں کو دین کی دعوت دینے میں لگے ہیں، یہ ہماری کم عقلی ہے یا سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہے … بس ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹہرا کر ہر کوئی اپنا پلہ جھاڑنے میں لگا ہے، سبھی خود کو قوم کے مفکر بتاتے ہیں، لیکن اپنے ہی مسلم بھائی بہنوں کو برداشت نہیں کرتے، چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بھلا کر ایک دوسرے کو معاف نہیں کرپاتے، بس ایک دوسرے کی ٹانگ پکڑ کر کھینچنا ہی زندگی کا مقصد بنا رکھا ہے، جس کے لئے دشمنوں کی چاپلوسی کرتے ہوئے منافقوں کا کردار ادا کرتے ہیں،
ہم یہ نہیں کہتے کہ دین کی دعوت دینا غلط ہے بلکہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا پہلا فرض اپنی قوم کے لئے ہے، اور ہمارے مال و دولت پہ پہلا حق انکا ہے، اس لئے اپنی تمام قابلیت مال و دولت کو پہلے اپنے مسلمان بھائیوں کے فلاح کے لئے استعمال کریں، اپنی مسلم بہنوں کی آسان طریقے سے شادیاں کروائیں، جو بھٹکی ہوئی ہیں انہیں راہ راست پہ لائیں اور ہر مسلمان کو اپنے علم کی دولت سے مالا مال کریں، انکے گھروں اور دلوں کو ایمان کی روشنی سے اس قدر روشن کریں کہ مسلمان کو دیکھ کر غیر مسلم بھی اسلام کے طرف خود بخود کھینچے چلے آئیں اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم فرقوں کو بھول کر صرف اور صرف مسلمان بنیں گے، مسجدوں و مدرسوں کے دروازے ہر مسلمان کے لئے کھلے رکھیں گے اور راہ حق پہ چل کر ہر مظلوم کو انصاف دلانا اپنی اہم ذمہ داری سمجھیں گے ، جب ہمارے اپنے ہم سے متاثر نہیں ہورہے ہیں تو غیر مسلمان کیا خاک متاثر ہونگے، ہم جہنم کے وارثوں کو اسلام میں داخل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں اور ہمارے اپنے جنت سے دور ہورہے ہیں اور جب بھی کسی مسلمان کی مذہب تبدیل کرنے کی خبر ملتی ہے تو اُس لمحہ ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور ہر در پہ ایک زندہ جنازہ نظر آتا ہے جسے ہمارے عزت مآب حضرات اپنے کاندھوں پہ لادے ہوئے ہیں ….