رکاوٹوں اور دھمکیوں کے باوجود شریعت اور تجدید کا کام رواں دواں رہے گا : شیخ عبدالرحمن السدیس 

اردو ترجمہ : ثناءاللہ صادق تیمی 

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں ، اس سے مدد مانگتے ہیں ، اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اس کی جناب میں توبہ کرتے ہیں ۔ میں اس پاک ذات کی اس کی بے پایاں نعمتوں اور آیات بالغہ پر حمد بیان کرتا ہوں ۔ 

تعریف اللہ کے لیے ، ایسی تعریف جو اس کے ظاہر و باطن احسانات پر ہی منحصر نہیں 

پھر اللہ کا درود وسلام ہو جب تک کہ صبا چلے اور بارش ہو ۔ 

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ ایک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اس نے ہمیں روشن شریعت سے بطور خاص نوازا جس نے جہانوں کو اپنی بلندی و رفعت سے معمور کردیا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں ، آپ نے تہذيب کی ترقی کے نشانات کو روشن کیا اور اس کے منار کو قائم کیا ، ا ے اللہ درود وسلام بھیج آپ پر ، آپ کی آل پر کہ جو مخلوقات میں سیرت کے اعتبار سے چنیدہ اور سب سے پاکیزہ سیرت والے ہیں ، ان کے نیک معزز صحابہ پر جو کہ مجدو شرف کے ثریا کی بلندی پر پہنچے ہوئے ہیں ، تابعین پر اور درست طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں پر اور کبھی نہ ختم ہونے والی پاکیزہ بابرکت سلامتی نازل فرما ۔

اما بعد : اللہ کے بندو ، اللہ کا تقوی اختیار کرو ، بلا شبہ اللہ کا تقوی دنیا و آخرت کے لیے بہترین ذخیرہ اور سب سے اچھا توشہ ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : 

جو بھی اللہ تعالیٰ کی، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، خوف الٰہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں۔

اگر تم نے تقوی کا توشہ لے کر رحلت نہیں کی اور موت کے بعد تمہاری ملاقات ایسے شخص سے ہوئی جس نے تقوی کا توشہ لیا ہوا ہو ، تو تمہیں پشیمانی ہوگی کہ تم اس کی طرح نہیں ہوئے اور جیسا اس نے ذخیرہ لیا تم نے نہیں لیا ۔

مسلمانو ، صاحبان عقل و خرد پر مخفی نہیں ،( قدیم اسباب والی تہذیبوں نے اس کی شہادت دی ہے )کہ ہماری روشن اسلامی شریعت نے اپنے عدل و رحمت کے نور سے دنیا کے سیاہ نشانات بدل دیے ،اس کی دشمنی اور عداوت کے سامنے اپنی تیز دھار دار تلوار کھینچ لی اور مخلوقات میں اپنی خوش کن رحمت اور مکارم کو بو دیا ، پتہ چلا کہ یہ وسیع اطراف والی کشادہ شریعت ہے ، جس کی شاخوں سے خوشبو پھوٹ رہی ہے ، یہ شریعت جامعیت و کمال سے نمایاں ہے اور دین و دنیا کے معاملات میں بندوں کے مصالح کو شامل ہے اور وہ اس لیے کہ شرعی احکام صرف اللہ سے اخذ کیے جاتے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ، اور یہ اس محکم دین کے اصولوں میں سے عظیم اصول ہے ۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : 

پھر ہم نے آپ کو دین کی ( ظاہر ) راه پر قائم کردیا، سو آپ اسی پر لگے رہیں اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی میں نہ پڑیں۔

مسلمانو ، دین ودنیا دونوں کے مسائل میں ہماری روشن شریعت نفع بخش اصول اور جامع مقاصد سے معمور ہے ، اس نے ایسے نصوص ، مقاصد ، حکم اور قواعد کا احاطہ کیا ہے جنہوں نے کائنات کو عدل ، حکمت ، آسانی اور رحمت سے بھر دیا ہے ۔ اس نے اجتہاد اور ناگہانی واقعات کے مسائل کا استیعاب ( احاطہ ) کیا ہے ، ان کے احکام بیان کیے ہیں ، ان کے حلال و حرام کو ان باریک میزان ، محکم معیار اور مضبوط اصول کے ذریعے واضح کیا ہے جن پر علمائے اسلام اور مجتہدین چلا کیے ہیں جس کا افراد اور معاشروں تک خیر کو پہنجانے میں اور اجتہاد وں اور نئے نئے مسائل کے سلسلے میں حق تک پہنچنے میں بڑا بھاری اثر رہا ہے ۔ 

یہ جامد شریعت یا پھر بوسیدہ جامد احکام نہیں ہیں بلکہ یہ لچکدار اور تجدد پذیر شریعت ہے ، زمانے کے وسائل و آلات اور ان کے ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں تجدد سے کام لینے کے خلاف نہیں تاکہ نئے نتائج اور ایجادات کا ساتھ دیا جاسکے ، ثوابت اور متغیرات اور قدیم و جدید کے مابین ہم آہنگی پیدا کی جاسکے کیوں کہ تجدید ایک دلکش کلمہ اور جاذب مفرد ہے جسے انوکھی عقل اور قائدانہ ملکہ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ شرعی حکم کو بیان کرنے کے لیے نصوص سے احکام مستنبط کرسکے ، مسائل کو فروعات میں بانٹ سکے ، جزئیات کو کلیات سے جوڑ سکے ، قطعی اصولوں پر فروعات کو نکال سکے ،مقاصد کے اعتبار اور فقہی تاصیل کو مضبوط کرسکے ۔ ابو داؤد اور حاکم نے صحیح سند نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی ہر سو سال کے سرے پر اس امت میں ایسے شخص کو بھیجے گا جو اس کے دین کی تجدید کرے گا ” 

مسلمانو ،ہماری بلند شریعت میں تجدید کے روشن نشانات اور شاندار ضوابط ہیں ، جن میں اہم ترین یہ ہیں : 

یہ کہ تجدید شرعی نصوص میں سے کسی نص اور نہ معتبر مقاصد میں سے کسی مقصد کی مخالفت کرے ۔ کیوں کہ نصوص کی حفاظت اور مقاصد کی رعایت کے بغیر شریعت کی بقا ممکن نہیں ، مقاصد و ہ اغراض ہیں کہ بندوں کے مصالح کی خاطر ان کے لیے حصول کے لیے شریعت وضع کی گئی ہے ۔ امام طاہر بن عاشور کہتے ہیں : تشریع سے شریعت کا مقصد دنیا کے نظام کی حفاظت اور اس کے اندر لوگوں کے برتاؤ کو اس طریقہ پر منظم کرنا ہے کہ وہ باہم فساد کرنے اور ہلاک ہونے سے بچیں ۔ 

اور اس کے اہم ضوابط میں سے یہ ہے کہ تجدید کا یہ کام اہل حل وعقد اور صاحبان رائے اور علم کریں کیوں کہ شرع کی موافقت اور شریعت کے مقاصد ایسے ربانی علماء اور جتہادی ملکہ او رانوکھی عقلوں والے صاحبان کے محتاج ہیں جو اصول و قواعد کو خوب جانتے ہوں اور چيزوں کو شرع حنیف کے میزان سے تولتے ہوں ۔

اور یہ کہ تجدید کا کام فروع ، جزئیات ، وسائل اور تعبیرات وغیرہ میں ہوں ، اس لیے کہ روشن شریعت کی خصوصیات میں سے لچک ، تمام زمانوں اور مکانوں کے لائق ہونا ، صورت حال اور متغیرات ، احوال، عادات اور ماحول کی رعایت کرنا ہے ۔ اور یہ شرعا و عقلا اس بات کا متقاضی ہے کہ شریعت ان تمام امور کا احاطہ کرے ۔

اور یہ کہ تجدید کسی معتبر شرعی مصلحت کو پورا کرے ، متحقق یا راجح فساد کو دور کرے کیوں کہ یہ شریعت دینوی و اخروی معاملات میں بندوں کے مصالح ( منافع ) کو پورا کرنے کے لیے آئی ہے ۔ اسی لیے صحابہ کرام نے ان نئے مسائل میں اجتہاد کیا جو ان کے زمانے میں رونما ہوئے اور ان کے لیےمصالح کے حصول پر مبنی معتبر احکام وضع کیے جیسے اہل حرفت کو ان کے ماتحت چيزوں کا جوابدہ بنانا ، دواوین کی تدوین اور مصحف کو جمع کرنا وغیرہ کیوں کہ یہ تمام کام شریعت کی روح اور اس کے مقاصد کی رعایت کے ساتھ آئے ۔ اسی سےپتہ چلا کہ تجدید چاہتوں ، خواہشات ، مرغوبات اور آراء کی بنیاد پر نہیں ہوگی ۔

اور اس کے ضوابط میں سے صحیح معانی و مفاہیم کو ان کی ضد سے الگ کرنا ہے جو کہ استدلال و استنباط میں سلف صالح کے فہم کی مخالفت کریں اور ان کی تنقیح و تحریر ہے اور ان میں سے قرآن وسنت سے زيادہ قریب فہم کو راجح قرار دینا ہے ۔

اسی طرح اقدار کے مقاصد کو مصالح و مفاسد کے تناظر میں شریعت کی ميزان سے دیکھنا ہے نہ کہ نفسوں کی خواہشات کے مطابق ۔ اسی سلسلے میں امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” وہ مصالح جن پر بندے کے احوال قائم ہیں ان کی حقیقی معرفت صرف ان مصالح کے خالق اوربنانے والے کو ہے اور ان سے متعلق بندے کی معرفت بعض وجوہ و اطراف سے ہی ہے ، ان میں سے جتنا اس کے لیے ظاہر ہوتا ہے اس سے زیادہ چھپا رہ جاتا ہے ، کتنے ایسے ہیں کہ کسی معاملے کی تدبیر کرتے ہیں اور وہ معاملہ ان کے لیے بنیادی طور پر مکمل طریقے سے پورا نہیں ہوتا اور نہ وہ اس کا پھل توڑ پاتے ہیں جب بات ایسی ہی ہے تو اس وجہ کی طرف لوٹنا جسے شارع نے وضع کیا ہے در اصل مصلحت کے حصول کی وجہ کی طرف لوٹنا ہے ۔”

مسلمانو ، جہاں تک اختلافی مسائل کی بات ہے تو ضروری ہے کہ ان کےلیے سینے کشادہ کیے جائیں ، مخالف پر نکیر کرنے میں جلدبازی نہ کی جائے اور شریعت میں یہ بات متعین ہے کہ معتبر اختلافی مسائل میں نکیر نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ فتوی زمان و مکان ، ظروف و احوال کے اور عادات و اشخاص کے بدلنے سے بدلتا ہے اور حاکم کا حکم اختلاف کو مٹاتا ہے اور رعیت میں اس کا حکم مصلحت سے جڑا ہوا ہے ۔ 

مومنو، ان اہم روشنیوں کو لینے کے بعد ضروری ہے کہ اسلام کی اس روشن تہذيب سے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جو کہ انسانی تخلیق اور بشری مدنیت کا اہم ترین سرچشمہ تھی اور امت کے قائدین ، علماء اور مفکرین کو ثوابت و مسلمات کی حفاظت کے ساتھ دین کے امور کی تجدید کے لیے مشترک مبادی و اصول پر متفق ہونے کی دعوت دی جائے اور انہیں دعوت دی جائے کہ وہ بعض علاقوں میں موجود کشمکش کے اسباب جیسے مکروہ تحزب اور مبغوض فرقہ واریت اور اس سے پیدا ہونے والے فتنے ، اضطراب ، لڑائی اور جگھڑا کو ختم کرکے امت کو فتنوں سے نکالنے ، ان کے مشکلات کے علاج اور ابنائے امت کے بہتے خون کو روکنے کےلیے روڈ میپ( رہنما خطوط ) تیار کریں ۔

اسلامی شریعت ہدایت و استقامت ، وسطیت و اعتدال ، رحمت اور باہمی ہمدردی ، امن و استقرار اور خوشحالی و سلامتی کی شریعت ہے ۔ اعوذ باللہ من الشطان الرجیم : 

اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راه پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وه راہیں تم کو اللہ کی راه سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔

یہ باتیں رہیں اور ہم مولی سبحانہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہماری امت مسلمہ کو گھات میں پڑے دشمن کے کید سے محفوظ رکھے ، بلا شبہ میرا رب سننے والا دعا قبول کرنے والا ہے ۔ میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اپنے لیے اور آپ کے لیے اللہ عظیم و جلیل سے مغفرت طلب کرتا ہوں ، آپ بھی مغفرت طلب کیجیے اور اس کی جناب میں توبہ کیجیے ، بلا شبہ وہ توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے ۔

دوسرا خطبہ

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے ، اس نے ہمیں بڑی بھرپور نعمتوں سے نوازا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ ایک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ وہ اپنی جلالت شان اور عظمت میں مقدس ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندہ اور جہانوں میں رسالت و مقام کے اعتبار سے چنیدہ رسول ہیں ۔ اے اللہ آپ پر ، آپ کی آل پر جو کہ آپ کی محبت میں بلندی کو پہنچے ہوئے ہیں ، آپ کے صحابہ پر جو کہ التزام و اعتصام کے ساتھ آپ کی سنت کے پیروکار ہیں ، تابعین پر اور جو درست طریقے سے ان کی پیروی کریں ان پر جب تک کہ چاند اور سورج باہم گردش کریں اور باقی رہیں ، سلامتی نازل فرما ۔

اما بعد : 

اللہ کے بندو ، اللہ کا تقوی اختیار کر و اور سب کے سب مضبوط کڑے کو تھام لو ، فتنوں کی گمراہیوں سے بچو ، تم عزت و شوکت کی انتہا کو پہنچ جاؤگے ۔ اور جماعت کو لازم پکڑو ، بلا شبہ اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے اور جو جماعت سے الگ ہو ا تو الگ ہی جنہم میں ڈالا جائے گا ۔ 

امت اسلام ، اللہ تعالی کی نعتوں کےبیان اور اس کی نوازشوں کے شکر میں سے وہ ہے جو اللہ تعالی نے اس بابرکت ملک ( اللہ اس کی حفاظت کرے ) میں ہمیں نوازا ہے یعنی شرعی ، اخلاقی اور تہذیبی مبادی واصول جو کہ اس ملک کو قابل تقلید نمونہ اور روشن چراغ بناتے ہیں جس کی اقدار و روایات اور اخلاق فاضلہ کی حفاظت میں اقتدا کی جاتی ہے اور یہ چیز ہم تمام پر اس ملک کے ساتھ کھڑ ے ہونے اور حکمرانوں اور علماء کے ارد گرد جمع ہونے کو واجب کرتی ہے خاص طور سے معاندانہ اشتعال انگيز پروپیگنڈوں کے خلاف جن کا مقصد اس کی وحدت اور ترقی کو زک پہنچانا ہے ۔

یہاں حکمت کے پیرہن میں احسان کی دعوت ہے ، یہاں نرمی اور صاف پاکیزہ ترین منہج ہے ۔یہ منہج حق کے پھل پک گئے ہیں اور بلا شبہ بردباری و علم کا راستہ روشن ہے ۔

بلا شبہ اس ملک کے بابرکت حکمرانوں کی نگہداشت اور جوان ، باحوصلہ ، نوخیز ، توفیق یافتہ ولی عہد کی توجہ اور حرص سےاس محفوظ ملک میں تجدید کا کارواں دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود ان کے درست تجدیدی وژن اور گہری تجدیدی نظر کے ساتھ رواں دواں ہے ۔اور دھمکی او ر تجدید کو روکنے کی کوئی بھی کوشش نامراد کوشش ہےاور اس کا امن و سلامتی اور عالمی استقرار پر منفی اثر پڑے گا ۔ ہمارا بابرکت ملک سینہ اونچا کیے آگے بڑھتا رہے گا ، الزامات ، افواہیں اور دشمنانہ میڈیائی پروپیگنڈے اس ملک کو اپنے مبادی و ثوابت کو مضبوط تھامنے سے نہ روک سکیں گے ۔ اس سلسلے میں یہ ملک صرف ایک اللہ پر بھروسہ کرتا ہے پھر رہنماؤں کی حکمت اور اپنے فرزندوں کے باہمی اتحاد پر اور اللہ کی مرضی سے یہی باطل مزاعم اور ناکام کوششوں کاسامنا کرنے کے لیے کافی ہیں اور تاریخ اس پر بہتر شاہد ہے، اس ملک کو زک پہنچانا ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانا ہے ، یہ ان کا قبلہ ، ان کے مناسک کا مقام ، ان کی رسالت کا آغوش اور ان کے دلوں کا مرکز محبت ہے ۔اور یہاں وقار کے ساتھ انصاف ، عقل اور حکمت کے موقف اور احساسات کی قدر کی جاتی ہے جو کہ فکری متانت ، حق کی نصرت ،اور حقائق پر اعتماد کو ترجیح دیتے ہیں اور اٹکل پچو باتوں پر کودنے اور محض افواہوں اور بہتان طرازیوں پر کوئی موقف اپنانے سے روکتے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے : 

اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر والوں ہی پر پڑتا ہے ۔

اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اگثر لوگ بے علم ہوتے ہیں ۔

اور فرمایا 

اور عزت تو صرف اللہ کے لیے ، اس کے رسول کے لیے اور مومنوں کے لیے ہے لیکن یہ منافق لوگ جانتے نہیں ۔

سنو ، اللہ تم پر رحم کرے ، نبی مصطفی ، رسول مجتبی پر درودوسلام بھیجو جیسا کہ تمہیں تمہارے رب نے حکم دیا ہے جو کہ اپنی بلندی میں پروقار ہے ، اس کا فرمان ہے : 

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا ، اللہ اس پر اس کے بدلے دس بار رحمتیں نازل کرے گا ۔

(10/02/1440 حرم مکی )