حکیم نازش احتشام اعظمی
آزاد ہندوستا ن میں جب ہم اپنی معاشی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو جہاں حکومت کی عدم تو جہی اوراقلیتوں کے ساتھ متعصبانہ ذہنیت کا پتہ چلتا ہے ،وہیں ہماری اپنی کمیاں بھی ہم مسلمانوں کی ترقی کیلئے ذمہ دار نظرآ تی ہیں۔ابھی حال ہی میں یعنی گزشتہ10مئی2016کو یو پی ایس سی کے نتائج سامنے آ ئے ہیں اس کی تفصیل کا سرسری مطالعہ ہمیں اپنی عدم دل چسپی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اب اسے قبول کیاجائے یا نہیں۔ مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے مذکورہ نتائج میں جہاں کل 1058میں کامیاب ہونے والے مسلم امیدواروں کی تعداد محض 37ہے۔یعنی کل امیدواروں کا صرف 3.7فیصد۔جب ہم اس اہم مقابلہ جاتی امتحان شامل ہونے والے مسلم امیدواروں کی تعداد پر غور کریں تواور بھی زیادہ چونکا دینے والے حقائق ہمارے سامنے آ تے ہیں۔گزشتہ دس برسوں میںیو پی ایس سی میں شامل ہونے والوں میں مسلم امیدواروں کا فیصد3سے5فیصد کے درمیان ہی رہا ہے۔حالاں کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات کو آ ئے ہوئے بھی لگ بھگ 12برس ہونے کو آ رہے ہیں۔ اس طویل مدت میں ہمارے قائدین نے اس موضوع پرتعمیری کام تقاضوں کے مطابق نہیں کیاہے،البتہ اس موضوع پر سیاسی روٹی سینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔گزشتہ ماہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر نے یہ تجویز منظور کی تھی کہ 1400 نئے آئی پی ایس افسروں کی بھرتی کے لئے یوپی ایس سی محدود سطح پر محکمہ جاتی امتحان منعقد کرے گا، جس میں ڈی ایس پی اور دفاعی افواج کے میجر/کیپٹن درجہ کے افسران ہی حصہ لے سکیں گے۔اس تجویز پر ہمارے کئی ملی قائدین نے سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح بھرتی کے نتیجہ میں آئی پی ایس کے زمرہ میں مسلمانوں کی نمائندگی اگلی تین چار دہائیوں کے لئے اور بھی کم ہوجائے گی، کیونکہ مسلح افواج میں مسلمانوں کا تناسب آئی پی ایس سے بھی کم ہے اور ڈی ایس پی کے عہدے پر بھی مسلمان برائے نام ہیں۔پی ایم او کی اس تجویز پر ہمارا شکال بجاطور پر درست ہے۔ ہمیں قبول کرنا پڑے گا کہ یقیناًاس طریقے سے مسلمانوں کا فیصد گھٹنے کا اندیشہ باقی ہے۔مگر مقابلہ جاتی امتحانوں میں شمیولیت کے لئے کسی بھی مذہب و قوم کیلئے کوئی بندش نہیں ہے۔کیا ہماری ذمہ داری اتنی بھی بنتی تھی کہ مسلم امیدواروں کو ان مقابلہ جاتی امتحانات میں بیٹھنے کیلئے تیاری کرانے کے انتظامات کو وسعت دی جاتی۔
آپ ملک کی دیگر اقلیتوں کی تنظیموں کی جانب سے اپنی قوم کیلئے کی جانے والی تعلیمی کوششوں کا جائزہ لیجئے۔آپ یہ جان کر حیرت زدہ رہ جائیں گے وہی کام اپنی قوم کے بچوں کو آگے لانے اور ان کے مستقبل کوسنوارنے کیلئے دیگر قومیں فراخدلی کیساتھ ایمانداری سے انجام دے رہی ہیں ۔مگر ہمارے اقدامات میں ذاتی منفعت کا پہلو اورتجارتی مقصد ہمیشہ نمایاں رہتا ہے۔
ہمیں کسی کی نیت پر شک کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔مگر گزشتہ ماہ ہی مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور محترمہ نجمہ ہبت اللہ نے میڈیا کے سا منے یہ بات کہی تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے اعدادو شمار کے بارے میں تفصیل طلب کی ہے۔ وزیر اقلیتی امور کا کہنا ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کی پسماندگی کے لیے بی جے پی نہیں، بلکہ سابقہ حکومتیں ذمہ دار ہیں۔یہ سوال اپنی جگہ کہ بی جے پی میں شمولیت سے قبل محترمہ خود بھی کانگریس پارٹی کی قدآور لیڈررہی ہیں۔اگر مسلمانوں کی معاشی پسپائی کیلئے سابقہ حکومتیں ہی ذمہ دار ہیں تو آپ کو بھی بتانا چاہئے کہ آپ جب کانگریس کاحصہ ہوا کرتی تھیں اس زمانے جس ملت کی بدحالی کاآج آپ ماتم کررہی ہیں اس کیلئے آپ نے کیا کارہائے نمایاں انجام دیے تھے، یہ بتانا بھی محترمہ نجمہ صاحبہ کا فرض ہے۔
محترمہ نے کہاکہ ’نریندر مودی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر سرکاری ملازمتوں اور سروسز (فوج) میں مسلمانوں سمیت اقلیتی برادریوں کے کتنے لوگ کام کر رہے ہیں۔‘حالاں کہ مودی کے معنی خیزی استفہام کو سمجھنے والے دانشوران یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سرکاری خاص طور پر سول سروسز اور فوج میں مسلمانوں کے اعدادو شمار کا مودی کے ذریعہ پوچھانا منفی پالیسی کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔نجمہ ہبت اللہ کے مطابق ’مودی یہ جاننا چاہتے ہیں مسلمانوں کی کم نمائندگی کی آخر وجہ کیا رہی ہے؟‘
کئی دہائیوں تک کانگریس پارٹی سے وابستہ رہنے والی رہنما اور اب بی جے پی کی سنیئر وزیر کا خیال ہے کہ انڈیا کے اقلیتی فرقوں پر جتنی توجہ دی جانی چاہیے تھی اس سے کہیں کم دی گئی ہے۔مگر این ڈی اے سرکار کے حالیہ ڈھائی برسوں میں مسلمانوں کی زبوں حالی دور کرنے کیلئے کیا کیا جارہاہے ،یہ بات سامنے آنی چاہئے۔
انھوں نے کہاکہ ’میرے پاس وزارت حج بھی ہے اور میری مشکل کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ میں گذشتہ کئی دنوں سے ایک جوائنٹ سیکریٹری جیسے سنیئر افسر کی تلاش میں ہوں، کیونکہ حج کا معاملہ ہے جس کے لیے وہاں آنا جانا بھی ہوگا اور اس لیے مجھے ایک مسلمان افسر چاہیے جو کہ مجھے تلاش کرنے پر بھی نہیں مل پا رہا ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ محترمہ نجمہ ہبت اللہ کا یہ بیان سیاسی مصلحت پسندی سے زیادہ اپنے اندر کوئی سچائی رکھتا ہے۔البتہ انہیں کسی ایسے مسلم افسر کی تلاش یقیناً ہوسکتی ہے جو ذہن وفکر کے اعتبار سے زعفرانی نظریات کا پکا حامی ہو، ایسی سوچ کے حامل مسلم افسران کی کمی ان کے پاس ضرور ہوگی۔
2006 میں پیش کی جانے والی سچررپورٹ کے مطابق بیوروکریسی میں مسلمانوں کا فیصد صرف 2.5 فیصد تھا جبکہ اس وقت ہندوستان کی آبادی میں ان کا حصہ 14 فیصد سے بھی زیادہ تھا۔اس رپورٹ کے آٹھ سال بعد جے این یو کے پروفیسر امیتابھ کنڈو کی قیادت میں ایک دوسری کمیٹی کا قیام ہوا تھا جس نے سنہ 2014 اکتوبر میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ملکمیں اقلیتی برادری کے حالات کا تجزیہ پیش کرنے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اقلیتوں پر سرکاری توجہ میں اضافہ ہوا ہے لیکن ابھی بھی وہ ناکافی ہے۔اب اس ناکافی کی تلافی کرنے کیلئے بی جے پی میں شامل ہمارے سیاسی نمائندے کیا کررہے ہیں اس کا بہتر جواب وہی دے سکتے ہیں۔البتہ مختلف مواقع پر غیر سماجی عناصر کی جانب سے اقلیتوں پر روا رکھی جانے والی شرانگیز حرکتوں اور اسکولوں میں مسلم بچوں کے داخلوں میں پیدا کی جانے والی مشکلات پر ان کی گنگ زبانی کئی قسم کے شبہات کو تقویت دیتی نظرآ رہی ہیں۔یہ ناقابل تردید سچائی ہے کہ اعلیٰ عہدوں تک رسائی کیلئے ابتدائی تعلیم میں مسلمانوں کی بہتر نمائندگی سب سے زیادہ ضروری ہے ۔مگر اسی مرحلے میں غریب ونادار اور متوسط طبقہ کے اقلیتی بچوں کیلئے اسکومیں داخلوں کے مسائل حل کرنااس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔مگر اس مسئلہ کوحل کرنے کی جب بھی بات کی جاتی ہے یا اس موضوع پر ہمارے سیاسی نمائندوں سے تعاون کی گہار لگائی جاتی ہے تو وہ اپنے دروازوں پر مسلح دربان بٹھادیتے ہیں، تاکہ عام مسلمان اپنی مشکلات لے کران لیڈروں کے سامنے پہنچ ہی نہ سکیں۔یہ صحیح ہے کہ اس معاملے میں صرف بی جے پی میں شامل مسلم نمائندے ہی قصور وارنہیں ہیں ،بلکہ تمام سیاسی جماعتوں میں شامل مسلمانام کے لیڈروں کی حالت یہی ہے۔اقتدار ملتے ہی ان کے دروازوں پر دربان بٹھادیے جاتے ہیں اور عام مسلمانوں کے درد کوسمجھنا ان کے دکھ کو ان کی زبانوں سے سننے کو وہ اپنی ہتک سمجھنے لگتے ہیں یاپھٹے چٹے اور گندے کپڑوں میں ملبوس بے چارے مسلمانوں کے وجود سے انہیں گھن آنے لگتی ہے۔جب تک ہمارے ملی قائدین اور سیاسی رہنما خود کواس خول سے باہر نہیں نکالتے اس وقت تک یہ کہنامشکل ہے کہ مسلمانوں کی مسیحائی ممکن ہوسکے گی۔(ملت ٹائمز)
Home مضامین و مقالات سدا بہارمضامین یوپی ایس سی امتحانات میں مسلمانوں کا گھٹتا فیصد: کہیں قصور اپنا...