اردو اکیڈمی کے جشن وراثت میں گاندھی جی کو پیش کیاگیا خراج عقیدت۔چوتھے روز بھی فنکاروں نے دکھایا اپنا جلوہ

نئی دہلی(ملت ٹائمز)
ہندوستان کی آزادی کی کوئی بھی تاریخ گاندھی جی کے بغیر مکمل تصور نہیں کی جا سکتی۔ انھوں نے عدم تشدد کا نہ صرف نعرہ دیا، بلکہ پوری زندگی اس پر عمل پیرارہے۔ ان کی ایک سو پچاسویں برسی کے موقع پر ملک بھر میں متعدد پروگرام منعقد کیے گئے۔ ابھی چند روز قبل گاندھی جی کی یا د میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے ایک شاندار مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جشن وراثت اردو میں دہلی آرکائیوز کی جانب سے دہلی کی جو تصویر عام لوگوں کے لیے آویزاں کی گئی ہیں، ان میں گاندھی جی کو کئی اعتبار سے اولیت کا درجہ حاصل ہے۔آرکائیوز کے اسٹال پر گاندھی جی کی جو تصویریں لگائی گئی ہیں، وہ اس لیے بھی ناظرین کے لیے دلچسپی کا سبب ہیں کہ ان تصاویرمیں گاندھی جی مختلف شخصیات کے ساتھ ہیں۔ وہ تصویر جب اور جس کے ساتھ لی گئی ہے، اس کی تفصیل بھی لکھی ہیں، تاکہ لوگ ہندوستان کی تاریخ کے ایک اہم باب سے واقف ہو سکیں۔ جشن وراثت اردو میں گاندھی جی کو یہ ایک بہترین خراج عقیدت ہے۔گاندھی جی نے قومی یکجہتی کے لیے جو کام کیے، اسی قومی یکجہتی کے ماحول کو قائم رکھنے کے لیے بھی اس طرح کے پروگرام کا انعقاد کیا جا تا ہے، تاکہ آپسی بھائی چارہ کو مزید فروغ حاصل ہو۔اس طرح کے پروگرام میں لوگوں کو ایک دوسرے سے روبرو ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اردو کے فروغ اور ترقی کے لیے مختلف قسم کے اسٹال لگائے گئے ہیں، ساتھ ہی اردو کے تمام پہلوو¿ں کی ترجمانی کے لیے نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
جشن وراثت اردو کے انعقاد کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دہلی کی تہذیب وثقافت اور اردوسے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے، اکادمی اپنے اسی مقصد کے لیے جشن وراثت اردو کا ہر سال پابندی سے انعقاد کرتی ہے۔ اس چھ روزہ جشن میں متنوع قسم کے ادبی اور ثقافتی پروگرام سے لوگ خوب محظوظ ہو رہے ہیں۔ اس جشن میں ملک بھر کے اہم فنکاروں نے لوگوں کو اپنے فن سے خوب لطف اندوز کیا۔ سامعین نے بھی ان فنکاروں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی۔کناٹ پلیس ہمیشہ ہی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے، لیکن ان دنوں کناٹ پلیس کا سینٹرل پارک اردو تہذیب و ثقافت کا ایسا گہوارہ بنا ہے کہ لوگ اس فضا میں اردو کی خوشبو کو محسوس کر رہے ہیں۔ کثیر تعداد میں لوگوں کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ جشن وراثت اردو کے انعقاد کا جو مقصد ہے، اس میں اکادمی کو بھر پور کامیابی ملی ہے۔ جشن وراثت اردو میں اکادمی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول اور اکادمی سکریٹری ایس۔ ایم۔ علی نے فنکاروں کا پھولوں سے استقبال کیا اور انھیں اکادمی کا نشان بطور نشانی پیش کیا۔
دوپہربارہ بجے اس پروگرام کے چوتھے دن کا آغاز قصہ”سیرِ پرانی دلی کا“ سے ہوا۔ جسے ٹیلنٹ گروپ نے پیش کیا۔ اس گروپ میںچھوٹے چھوٹے بچوںنے بہترین فنکاری کا ثبوت دیا۔ناظرین نے ان بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ محفل قوالی کے تحت چنچل بھارٹی اور ان کی ٹیم(دہلی) نے سماں باندھ دیاساتھ ہی لوگوں کی فرمائش نے اس محفل قوالی کو اور بھی دلچسپ بنا دیا۔روداد شیریں(موسیقی کے ساتھ داستان)کی پیشکش وسعت اقبال خاں (دہلی) نے کی۔اس میں جہاں ایک طرف تاریخ و تہذیب سے سامعین آشنا ہوئے، وہیں کچھ دلچسپ کلام سے لوگوں کو خوب محظوظ ہونے کا موقع ملا۔ اس پروگرام میںوسعت اقبال خان نے عورت کی خود شناسی کو بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔ یہ اپنے طرز کا اس اعتبار سے بالکل مختلف پروگرام تھا، جسے لوگوں نے خوب پسند کیا۔ محفل قوالی کوچاند قادری وہمنوا(دہلی) نے پیش کیا۔اس محفل میں سامعین کی فرمائش کااس گروپ نے بھر پورخیال رکھا۔ صوفی محفل میںپوجا گائتونڈے (ممبئی) نے اپنے فن کا جوہر دکھایا۔صوفی محفل نے شام کو اور بھی پر نور بنا دیا۔آخر میںمعروف غزل گو احمد حسین محمد حسین(جے پور)نے اس پورے پروگرام میں چار چاند لگا دیا۔ یہ اپنی غزل گائکی کی وجہ سے کافی مشہور ہیں۔ احمد حسین محمد حسین نے اپنے پسندیدہ کلام کو سنا یا، ساتھ ہی لوگوں نے کچھ فرمائشیں بھی کیں، جس کا دونوں فنکاروں نے خیال رکھا۔ اس طرح گلابی موسم کا لوگوں نے خوب لطف لیا۔ جشن وراثت اردو کے پروگرام کے تمام حصے میںلوگوں کی بھر پور شرکت رہی۔

 

SHARE