شمس تبریز قاسمی
آج ہماری زندگی میں ایک دفعہ پھر نیکیوں کا موسم بہار یعنی رمضان المبارک رحمتوں کی بہار لئے جلوہ فگن ہو گیا ہے ۔ماہ مبارک کے متعلق نبی اکرم ﷺکا فرمان ہے کہ لوگو!تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے ، مبارک ہے یہ مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے، جس نے رمضان میں نفلی کام کیا، گویا اس نے فرض ادا کیااور جس نے ایک فرض ادا کیا اس نے 70فرض ادا کئے ۔یہ صبر کا مہینہ ہے۔ صبر کا جواب جنت ہے۔رمضان غم خواری کا مہینہ ہے ،یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، جس نے اس میں روزے دار کو افطار کرایا اس کے گناہوں کی مغفرت کر دی جائے گی۔
دوسری جگہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: رمضان میں آدمی کے ہر عمل میں 10گنا سے 700گنا تک ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں روزہ میرے لئے ہے میں خود اس کی جزا دوں گا۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی روزے دار کو افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ملے گی۔فرمایا گیا ہے جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اسے چاہیے وہ بے ہودہ فحش باتیں نہ کرے، اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ اور جھگڑا کرے توروزہ دار کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔روزے کی فضیلت اہمیت درجات بتانے کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا گیا ہے۔
روزے کا مقصد آدمی کو اطاعت کی تربیت دینا ہے۔روزہ انسان کی فرماں برداریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے۔اگر کسی آدمی نے احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا، جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ان سے پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام افعال کا ارتکاب کئے چلا جاتا ہے جنہیں اللہ نے حرام کیا ہے تواس کے روزے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہوتے ہیں ،صورت انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہوتی ۔بے روح روزے کو کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔نبی اکرم ?نے فرمایا: جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔حضور اکرمﷺنے فرمایا: کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنہیں اس قیام سے رات جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔قرآن عظیم الشان میں فرمایا گیا:تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔یعنی روزے فرض کرنے کا اصل مقصد انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے۔تقویٰ کے معنی خوف کے ہیں، اس سے مراد خدا سے ڈرنا ہے اور اس کی نا فرمانی سے بچنا ہے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ امیر المومنین! آپ کو کسی ایسے راستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا جس کے دونوں اطراف خاردار جھاڑیاں ہوں، راستہ تنگ ہو، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایابارہا۔انہوں نے پوچھا تو ایسے موقع پر آپ کیا کرتے ہیں۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا میں دامن سمیٹ لیتا ہوں اوربچتا ہوا چلتا ہوں تاکہ دامن کانٹوں میں نہ الجھ جائے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔
ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ بھی ہے۔اور رمضان کو قرآن کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں فضائل آتے ہیں۔وہاں تنبیہ بھی آتی ہے۔رمضان المبارک کو تربیت کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔پورے سال کا ریفرشر کورس کرایا جاتا ہے۔باجماعت نماز کا معمول، راتوں کے قیام کا معمول ،صدقہ خیرات کی عادت سب کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ صبر ،برداشت اور اپنے آپ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔بابرکت مہینہ میں جہاں آسمانوں سے رحمتیں برستی ہیں۔انسانوں کے دل کیوں پتھر ہو جاتے ہیں؟انسان انسان کے ہاتھوں کیوں لٹتا ہے؟ کمر توڑمہنگائی کیوں جنم لیتی ہے؟ حالانکہ شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔پھر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم رمضان کے حقیقی فلسفے کو سمجھنے سے محروم ہیں ۔رمضان رحمت ،مغفرت اور آگ سے نجات کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کا مہینہ بھی ہے۔تبدیلی کا مہینہ بھی ہے۔حقوق العباد کا مہینہ بھی ہے، زکوٰۃ کا مہینہ بھی ہے۔ خیرات، صدقات کا مہینہ بھی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین فرماتے ہیں: رمضان کے مہینہ میں نبی اکرم ﷺکمر کس لیتے تھے ،رات کے قیام کو بڑھا دیتے ،تلاوت قرآن کو بڑھا دیتے، صدقات ،خیرات کو بڑھا دیتے ، سب کچھ اللہ کے نبی ?نے اپنی امت کے لئے کیا پھر ہم اور آپ اس سے غافل کیوں ہیں؟کمی کہاں رہ گئی؟ یقیناًکمی ہمارے اپنے اندر ہے ،ہمارے گھروں میں ہے،ہماری اولادوں میں ہے،ہمارے چلنے پھرنے میں ہے، لین دین ،بول چال، کاروبار میں ہے۔ ان کمیوں اورخامیوں کے رہتے ہوئے کیسے رمضان المبارک کے فیوض وبرکات کو سمیٹا جا سکتا ہے؟اس کے لئے ہمیں اور آپ کو کیا کرنا چاہیے؟اس کے لئے قرآن و سنت میں رہنمائی کر دی گئی ہے ۔باہمی رواداری، برداشت، ایثار کے ساتھ خود احتسابی کے عمل کو اپناتے ہوئے اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔جھوٹ سے توبہ، قرآن سے لگاؤ، قیام اللیل کا معمول، حقوق العباد کا خیال دل وجان سے کرنا ہے۔دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے آپ کو آئینہ کے سامنے رکھ کر سوچنا ہے ۔آج پھر نیکیوں کا موسم بہار پوری رعنائیوں کے ساتھ سایہ فگن ہو رہا ہے۔آئیے مل کر رمضان المبارک کا استقبال کریں اور احکام خداوندی اور فرمان رسول ﷺپر عمل کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھنے اور پہلے ،دوسرے اور آخری عشرے کے ثمرات کو سمیٹنے کا عزم کریں اور طے کریں کہ کوئی بدلے نہ بدلے میں بدلوں گا، اپنے گھر میں تبدیلی لانے ، اولاد کو بدلنے کے لئے مسجد کو مرکز بناؤں گا۔اللہ ہمیں اور آپ سب کو رمضان المبارک کی حقیقی برکات کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
آج ہماری زندگی میں ایک دفعہ پھر نیکیوں کا موسم بہار یعنی رمضان المبارک رحمتوں کی بہار لئے جلوہ فگن ہو گیا ہے ۔ماہ مبارک کے متعلق نبی اکرم ﷺکا فرمان ہے کہ لوگو!تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے ، مبارک ہے یہ مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے، جس نے رمضان میں نفلی کام کیا، گویا اس نے فرض ادا کیااور جس نے ایک فرض ادا کیا اس نے 70فرض ادا کئے ۔یہ صبر کا مہینہ ہے۔ صبر کا جواب جنت ہے۔رمضان غم خواری کا مہینہ ہے ،یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، جس نے اس میں روزے دار کو افطار کرایا اس کے گناہوں کی مغفرت کر دی جائے گی۔
دوسری جگہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: رمضان میں آدمی کے ہر عمل میں 10گنا سے 700گنا تک ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں روزہ میرے لئے ہے میں خود اس کی جزا دوں گا۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی روزے دار کو افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ملے گی۔فرمایا گیا ہے جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اسے چاہیے وہ بے ہودہ فحش باتیں نہ کرے، اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ اور جھگڑا کرے توروزہ دار کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔روزے کی فضیلت اہمیت درجات بتانے کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا گیا ہے۔
روزے کا مقصد آدمی کو اطاعت کی تربیت دینا ہے۔روزہ انسان کی فرماں برداریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے۔اگر کسی آدمی نے احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا، جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ان سے پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام افعال کا ارتکاب کئے چلا جاتا ہے جنہیں اللہ نے حرام کیا ہے تواس کے روزے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مردہ لاش کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہوتے ہیں ،صورت انسانی بنتی ہے مگر جان نہیں ہوتی ۔بے روح روزے کو کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔نبی اکرم ?نے فرمایا: جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔حضور اکرمﷺنے فرمایا: کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنہیں اس قیام سے رات جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔قرآن عظیم الشان میں فرمایا گیا:تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔یعنی روزے فرض کرنے کا اصل مقصد انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے۔تقویٰ کے معنی خوف کے ہیں، اس سے مراد خدا سے ڈرنا ہے اور اس کی نا فرمانی سے بچنا ہے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا تقویٰ کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ امیر المومنین! آپ کو کسی ایسے راستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا جس کے دونوں اطراف خاردار جھاڑیاں ہوں، راستہ تنگ ہو، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایابارہا۔انہوں نے پوچھا تو ایسے موقع پر آپ کیا کرتے ہیں۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا میں دامن سمیٹ لیتا ہوں اوربچتا ہوا چلتا ہوں تاکہ دامن کانٹوں میں نہ الجھ جائے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا بس اسی کا نام تقویٰ ہے۔
ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ بھی ہے۔اور رمضان کو قرآن کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں فضائل آتے ہیں۔وہاں تنبیہ بھی آتی ہے۔رمضان المبارک کو تربیت کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔پورے سال کا ریفرشر کورس کرایا جاتا ہے۔باجماعت نماز کا معمول، راتوں کے قیام کا معمول ،صدقہ خیرات کی عادت سب کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ صبر ،برداشت اور اپنے آپ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔بابرکت مہینہ میں جہاں آسمانوں سے رحمتیں برستی ہیں۔انسانوں کے دل کیوں پتھر ہو جاتے ہیں؟انسان انسان کے ہاتھوں کیوں لٹتا ہے؟ کمر توڑمہنگائی کیوں جنم لیتی ہے؟ حالانکہ شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔پھر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم رمضان کے حقیقی فلسفے کو سمجھنے سے محروم ہیں ۔رمضان رحمت ،مغفرت اور آگ سے نجات کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کا مہینہ بھی ہے۔تبدیلی کا مہینہ بھی ہے۔حقوق العباد کا مہینہ بھی ہے، زکوٰۃ کا مہینہ بھی ہے۔ خیرات، صدقات کا مہینہ بھی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین فرماتے ہیں: رمضان کے مہینہ میں نبی اکرم ﷺکمر کس لیتے تھے ،رات کے قیام کو بڑھا دیتے ،تلاوت قرآن کو بڑھا دیتے، صدقات ،خیرات کو بڑھا دیتے ، سب کچھ اللہ کے نبی ?نے اپنی امت کے لئے کیا پھر ہم اور آپ اس سے غافل کیوں ہیں؟کمی کہاں رہ گئی؟ یقیناًکمی ہمارے اپنے اندر ہے ،ہمارے گھروں میں ہے،ہماری اولادوں میں ہے،ہمارے چلنے پھرنے میں ہے، لین دین ،بول چال، کاروبار میں ہے۔ ان کمیوں اورخامیوں کے رہتے ہوئے کیسے رمضان المبارک کے فیوض وبرکات کو سمیٹا جا سکتا ہے؟اس کے لئے ہمیں اور آپ کو کیا کرنا چاہیے؟اس کے لئے قرآن و سنت میں رہنمائی کر دی گئی ہے ۔باہمی رواداری، برداشت، ایثار کے ساتھ خود احتسابی کے عمل کو اپناتے ہوئے اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔جھوٹ سے توبہ، قرآن سے لگاؤ، قیام اللیل کا معمول، حقوق العباد کا خیال دل وجان سے کرنا ہے۔دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے آپ کو آئینہ کے سامنے رکھ کر سوچنا ہے ۔آج پھر نیکیوں کا موسم بہار پوری رعنائیوں کے ساتھ سایہ فگن ہو رہا ہے۔آئیے مل کر رمضان المبارک کا استقبال کریں اور احکام خداوندی اور فرمان رسول ﷺپر عمل کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھنے اور پہلے ،دوسرے اور آخری عشرے کے ثمرات کو سمیٹنے کا عزم کریں اور طے کریں کہ کوئی بدلے نہ بدلے میں بدلوں گا، اپنے گھر میں تبدیلی لانے ، اولاد کو بدلنے کے لئے مسجد کو مرکز بناؤں گا۔اللہ ہمیں اور آپ سب کو رمضان المبارک کی حقیقی برکات کو سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)