سہیل انجم
ہندوستان ایک عرصے سے دہشت گردی کی مار جھیل رہا ہے اور دہشت گردی مخالف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ لیکن جب تک پوری دنیا متحد ہو کر اس کے خلاف لڑائی نہیں لڑے گی اس لعنت کا خاتمہ ممکن نہیں۔
پلوامہ میں انتہائی خوفناک خود کش حملے نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسا حملہ ہندوستان کی سرزمین پر اور بالخصوص کشمیر میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ بیک وقت چالیس سے زائد فوجی جوانوں کی ہلاکت ہندوستان کے لیے بہت بڑے خسارے کی بات ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گردی مخالف جنگ میں کامیابی کا حصول آسان نہیں ہے۔
ہندوستان ایک عرصے سے دہشت گردی کی مار جھیل رہا ہے۔ اس نے دہشت گردی مخالف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ لیکن جب تک پوری دنیا متحد ہو کر اس کے خلاف لڑائی نہیں لڑے گی اس لعنت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ پلوامہ حملے کی مذمت پوری دنیا کر رہی ہے۔ امریکہ نے ہندوستان کے حق خود حفاظت کی تائید کی ہے اور اس بات کا عزم کیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین سے جیش محمد اور دیگر دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔
شہید فوجی جوانوں کی میتیں ان کے اہل خانہ کے حوالے کی جا رہی ہیں۔ اس موقع پر لوگوں میں زبردست غم و غصہ ہے۔ لوگ بجا طور پر سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور اس وحشیانہ حرکت کی مذمت کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے جذبات بھڑکے ہوئے ہیں اور وہ پاکستان سے اس کا انتقام لینے کی آوازیں لگا رہے ہیں۔ لیکن معاملہ بہت نازک ہے۔ انتقام ضرور لیا جانا چاہیے لیکن احتیاط کی بھی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے کہ لوگوں کا غصہ خود ہم وطنوں کے لیے ہی نقصاندہ نہ ہو جائے۔
اس وقت اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ شرپسند عناصر اس موقع کا غلط فائدہ نہ اٹھائیں اور ملکی ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کی کوشش نہ کریں۔ جموں سمیت ملک کے مختلف مقامات سے تشویش ناک خبریں آرہی ہیں۔ جموں میں مسلمانوں کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بہار میں بھی کچھ اس قسم کی شرانگیزی کی گئی ہے۔ دہرہ دون میں تعلیم حاصل کرنے والے کشمیری طلبہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں نے ہنگامہ آرائی کی جس کے بعد کشمیری طالبات نے خود کو اپنے ہوسٹلوں میں بند کر لیا۔ انھوں نے کشمیری طلبا کو غدار قرار دیتے ہوئے ان سے چوبیس گھنٹے میں دہرہ دون سے نکل جانے کا فرمان سنا دیا ہے۔ 16 فروری کو تقریباً بیس طالبات نے خود کو اپنے کمروں میں بند کر لیا۔ بہت سے لوگ لاٹھی ڈنڈوں سے لیس ہو کر ہوسٹلوں کے باہر جمع ہو گئے۔ طالبات نے خوف میں آکر اپنے کمروں کی روشنی گل کر دی۔
ایک طالبہ نے اخبار کو بتایا کہ ہم لوگوں نے پولس کو فون کیا اور اس سے مدد کی اپیل کی۔ بقول اس کے پولس والے آئے لیکن انھوں نے ہم سے کہا کہ وہ باہر نکلیں اور لوگوں سے معافی مانگیں۔ لڑکیوں نے کہا کہ ہم کس بات کی معافی مانگیں، ہم نے کیا جرم کیا ہے۔ انھوں نے ہمیں غدار کہا۔ دہرہ دون کے مختلف تعلیمی اداروں میں تین ہزار طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کو خطرہ ہے کہ انھیں نشانہ بنایا جائے گا۔ حالانکہ پولس اس واردات سے انکار کرتی ہے۔ لیکن اس بارے میں ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں کچھ لوگوں کو کشمیری طلبہ کو پیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے قابل تعریف قدم کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے اٹھایا۔ جس روز یہ حملہ ہوا اسی روز شام کے وقت لکھنؤ میں ان کی ایک پریس کانفرنس ہونے والی تھی۔ وہ وہاں آئیں اور یہ کہتے ہوئے کانفرنس رد کر دی کہ ایسے ماحول میں سیاست کرنا مناسب نہیں ہے۔ خود کانگریس صدر راہل گاندھی نے بھی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور پالم ائیرپورٹ جا کر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بھی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔ ہمیں ایسی ہی توقع دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی اور خاص طور پر حکمراں جماعت سے کرنی چاہیے اور ان سے یہ امید رکھنی چاہیے کہ وہ بھی اس معاملے پر سیاست نہیں کریں گے۔ لیکن جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی ریلیوں پر ریلیاں کر رہے ہیں اس سے یہ نہیں لگتا کہ وہ اس معاملے کو سیاسی رنگ نہیں دیں گے۔
انھوں نے ایک ریلی میں یہاں تک بول دیا کہ ایک مضبوط حکومت کے لیے آپ لوگ پھر مجھے آشیرواد دیں گے۔ سیاسی تجزیہ کار اسے ووٹ مانگنا قرار دے رہے ہیں۔ اسی درمیان جب ایک شہید فوجی کی میت اناؤ پہنچی تو شہر میں اس کا جلوس نکالا گیا۔ گاڑی پر مقامی بی جے پی ایم پی سوامی ساکشی مہاراج بھی تھے۔ وہ مسکرا مسکرا کر اور ہاتھ ہلا ہلا کر لوگوں کا خیر مقدم قبول کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر اور بعض نیوز ویب سائٹوں پر بھی اس کی تصویر ڈالی گئی ہے اور ساکشی مہاراج کے اس قدم کی مذمت کی جا رہی ہے۔
ایک ویڈیو میں حملے کے روز ہی شام کے وقت دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری ایک پروگرام میں شرکت کرتے ہیں اور تھرک تھرک کر گانا گاتے ہیں۔ خود وزیر اعظم مودی بھی دہلی میں ٹرین کے افتتاح کے موقع پر مسکرا کر سیلفی کھنچوا رہے ہیں اور لوگوں کا استقبال قبول کر رہے ہیں۔ جبکہ کانگریس نے ابھی تک اس معاملے میں ایک متوازن موقف اختیار کر رکھا ہے۔ راہل گاندھی نے حملے کے بعد سے ہی تقریباً خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ انھوں نے اپنی سیاسی مہم کو فی الحال روک دیا ہے۔ اس وقت ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ سیاست کی جائے۔ عوام کے دل غموں سے چور ہیں اور وہ رنج و الم میں مبتلا ہیں۔ لہٰذا وقت کا تقاضہ ہے کہ سیاسی تدبر سے کام لیا جائے اور مصنوعی دیش بھکتی سے بچتے ہوئے غم زدہ خاندانوں کا ساتھ دیا جائے۔