نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔ ایک ارب تیس کڑور شہریوں کے ساتھ دنیا کا دوسری سب سے بڑی آبادی والی ریاست ہے۔ اس کے مسائل کی طویل فہرست ہے۔ آزادی کے ستر سالوں میں ملک نے ہر محاذپر آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور شہریوں کو وسائل فراہم کرنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن اس کے باوجود کئی محاذ پر کامیابی حاصل کرنا ابھی باقی ہے ایسے میں اس بات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے کہ ملک کو بنیادی ترقی کی راہ سے ہٹاکر جنگ کے میدان مین جھونک دیا جائے اور پورا سرمایہ فلاح و بہبود اور تعمیری کاموں پر صرف کرنے کے بجائے جنگ کی نذر کردیا جائے۔
جنگوں سے کبھی مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔ انسانی بحران میں اضافہ ہوا۔ معاشی مصیبتوں کا سامنا کرناپڑا ہے۔ بے گناہوں کا قتل عام ہوا ہے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ جنگوں کی وجہ سے کئی ممالک ترقی کی دور سے پیچھے رہ گئے ہیں، کئی معاشی کمزوری کے شکار ہوئے ہیں۔ عالمی جنگ اول اور دوم کے واقعات ہمارے سامنے ہیں جس نے کئی ممالک کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ کئی ترقی یافتہ ممالک کو زوال کی دہلیز پر پہونچا دیا۔ آباد شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے۔ بستیوں اور ملکوں کی رونقیں ماندپڑگئیں۔ عام شہریوں کی لاشوں کا انبار لگ گیا۔ فائدہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔
بیسویں صدی سے جمہوریت پنپنے لگی ہے۔ اکیسویں صدی میں جمہوریت ترقی کررہی ہے۔ یہ انسانی ذہن کا عظیم ترین ارتقاء ہے۔ جمہوریت نے تمام شہریوں اور باشندوں کو اقتدار میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیاہے۔ یہ عظیم کار حکومت عوام کی فلاح وبہبود۔ملک کی تعمیر وترقی اور انسانی کی بھلائی کی متقاضی ہے جس میں جنگ کی گئی گنجائش نہیں ہے۔ کامیابی اور کامرانی کیلئے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات اور امن و سلامتی کی بحالی اولین شرط ہے۔
ہندوستان اس وقت بہت نازک موڑپر کھڑا ہے۔ ستر سالوں کے سفر میں غربت، جہالت، پسماندگی اور پستی سے مکمل طور پر نہیں نکل سکا ہے۔آج بھی ہندوستان کی ایک تہائی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارر ہی ہے۔ انہیں شب وروز گزارنے کیلئے ضروری سہولیات مہیا نہیں ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 48 فیصد لوگوں کے پاس اپنے مکانات نہیں ہیں۔ 75 فیصد دولت اور سرمایہ صرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں محدود ہے۔سیاسی طور پر بیدار ی نہیں آئی ہے۔ سماجی شعور پیدا نہیں ہواہے۔تعلیم میں ہندوستان آج بھی بہت پیچھے ہے۔ بنیادی وسائل سے عوام محروم ہے۔
ہندوستان کا آئین بہت جامع اور لچکدار ہے۔ دستورمیں تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں۔ مساوات، آزادی، انصاف اور تحفظ میں ہر ایک کی حصہ داری بتائی گئی ہے۔ یہ اصول کسی بھی آئین اور دستور کیلئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے دستور میں یہ نمایاں طور پر موجود ہے لیکن سوچنے اور غورکرنے کے بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آئین کے اس مقدمہ پر کتنا عمل ہورہا ہے۔ ملک کے رہنما، سیاست داں اور ذمہ داران اس سمت میں کبھی غور کرتے ہیں یا نہیں۔ کیا کبھی اس مقدمہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش ہوگی۔ شہریوں اور عوام کو انصاف، مساوات، آزادی اور تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں کوئی عملی قدم اٹھایا جائے گا۔
ہندوستان میں آئین اور دستور کی سب سے زیادہ دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ مسلمانوں، دلتوں، آدی واسیوں،کسانوں اور کمزور طبقات کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہری جیسا برتاؤ کیا جارہا ہے۔ ان پر مختلف انداز سے تشدد کیا جارہا ہے۔ انہیں انسانی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے حقوق انسانی شعبہ نے ہندوستان میں اقلیتوں، دلتوں اور کمزور طبقات کے ساتھ ہونے والی عصبیت، تشدد اور مظالم پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے معاشی استحکام کیلئے خطرہ بتایا ہے۔ اقوام متحدہ نے ہندوستان کے اقلیتوں ،دلتوں اور کمزور طبقات پر مظالم روکنے کی اپیل کی ہے۔ یورپین یونین کی رپوٹ میں بھی یہ بتایاگیاتھا کہ ہندوستان میں اقلیتوں اور دلتوں پر تشدد اور مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔
بین لااقوامی ایجنسیوں کی ان رپوٹس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے۔ ارباب اقتدار اور حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاء اینڈ آڈر کا جائزہ لیں۔ ان رپوٹوں کو سامنے رکھ کر حالات کا تجزیہ کریں۔ملک کے ماحول کو بہتر بنائیں۔ اندورنی طور پر جاری خلفشار کو ختم کریں۔ انتہاء پسندی کو پنپنے سے روکیں۔متشدد طاقتوں پر لگام لگائیں۔ ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیں جنہوں نے قانون کو ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ جنہیں آئین اور دستور کا کوئی پاس ولحاظ نہیں ہے جب جسے چاہتے ہیں مار دیتے ہیں۔ بغیر کسی وجہ کے بے گناہوں پر حملہ کردیتے ہیں۔ ایک مخصوص علاقہ اور مذہب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر نشانہ بناتے ہیں۔ایسے لوگ کل ملک کیلئے ہی خطرہ ثابت ہوں گے۔ ملک کی سلامتی کیلئے نقصان کا ذریعہ بنیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسے شرپسند عناصر کے خلاف وقت سے پہلے کاروائی کردی جائے۔
جمہوریت کی ایک اور خوبی اظہار رائے کی آزادی اور انتخابات میں شمولیت کی ہے۔ ایسے ممالک میں ہر ایک شہری کو اپنا رہنما منتخب کرنے اور ووٹ دینے کا حق ملتا ہے۔ ہندوستان میں اب انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ پانچ سالوں کیلئے مرکزی حکومت کا انتخاب ہونے جارہا ہے ایسے میں جمہوریت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کا صحیح استعمال بھی ضروری ہے۔ یہی وقت ہے اپنے مستقبل کے تئیں حساسیت اور بیدرای کا ثبوت پیش کرنے کا۔ ووٹ کے صحیح استعمال کا۔ اگر ابھی غلطی ہوئی۔ کسی طرح سے چوک ہوئی تو پانچ سالوں تک پچھتانا پڑے گا۔
عام الیکشن 2019 جیتنے کیلئے مختلف طرح کے ہتکھنڈے اپنانے شروع کردیئے گئے ہیں۔ مختلف آئینی اداروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ہر ایک پارٹی اپنی حیثیت سے آگے بڑھ کر ووٹ حاصل کرنے کیلئے وعدہ کررہی ہے۔ جن کے پاس اقتدار ہے وہ اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرکے ہر حال میں الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ملک کو جنگ کے دہانے میں ڈھکیلنے سے بھی باز نہیں آرہے ہیں۔ امن اور صلح سمجھوتہ کے بجائے وہ ماحول کو خراب کرنے پر آمادہ ہیں۔ جنگ ختم کرنے کے بجائے جنگ زدہ ماحول بنانا چاہتے ہیں جبکہ جمہوریت میں جنگ کی گنجائش نہیں ہے۔ ملک کی ترقی اور جمہوریت کی کامیابی کیلئے امن وسلامتی ضرور ی ہے۔ ہندوستان کے عوام عقل مند ،ذی شعور اور بیدار ہیں۔ وہ حالات کو سمجھتے ہیں۔ ان کے جذبات کو اب برانگیختہ کرکے سیاسی مقاصد حاصل نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ان کا استحصال اب آسان نہیں ہے۔ شہریوں اور رائے دہندگان کے سامنے یہ بھی بڑا چیلنج ہے کہ وہ ترہیب اور ترغیب کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ نہ ہی ترہیب کی وجہ سے خوف زدہ ہوکر ووٹ کرے اور نہ ہی ترغیب کے جال میں پھنس کر سنہرے وعدوں کی بنیاد پر ووٹ ڈالے بلکہ ہندوستان کے مستقبل اور حالات پر نظر رکھنی ہوگی۔ گذشتہ پانچ سالوں میں جس طرح آئین کی دھجیاں اڑئی گئی ہے۔ سی بی آئی، عدلیہ ، آر بی آئی اورفوج سمیت متعدد اداروں کے آئینی اور بنیادی حقوق سے جس طرح کھلواڑ کیا گیا ہے۔ ہر جگہ منواسمرتی کا نظام جس طرح نافذکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک خاص نقطہ نظر کے مطابق استعمال کرنے کی کوشش ہوئی ہے اسے سامنے رکھنا ہوگا۔ ریزرویشن، بھائی چارہ، امن و اتحاد، ہندومسلم یکجہتی ختم کرکے جس طرح منوادی نظام کو تھوپنے کی پالیسی اپنائی گئی اسے ختم کرنے کیلئے بہت سوچ سمجھ کر ووٹ دینا ہوگا ۔ ملک کی ترقی اور سماج کی کامیابی کیلئے دستور کو سمجھنا، اسے عملی جامہ پہنانا، ہر ایک شہریوں کو یکساں حق دینا، تمام طرح کی اسکیموں میں برابری کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے او رایسی ہی نظام چلانے والی حکومت کا انتخاب ملک کے حق میں ضروری ہے۔ امید ہے کہ 2019 کے عام انتخابات میں عوام اپنے حق رائے دہی کا استعمال سوچ سمجھ کر ، ملک کے وقار، ستقبل اور ترقی کو سامنے رکھتے ہوئے کریں گے کسی لالچ اور خوف سے آزاد ہوکر ایک ترقی پسند حکومت کو اقتدار تک پہونچائیں گے تاکہ ملک میں آئین کی بحالی ہو۔ جمہوریت مضبوط ہو اور تمام شہریوں کو انصاف، مساوات، تحفظ اور آزادی مل سکے ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)