خبر در خبر (609)
شمس تبریز قاسمی
کنہیا کمار نوجوان ،بیباک اور متعدد طرح کی صلاحیتوں کے پیکر ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کا پارلیمنٹ میں پہنچنا جمہوری ملک میں ضروری ہے ۔ ملک کی سول سوسائٹی کنہیا کمار کے ساتھ ہے۔ ہندوستان کی مسلمانوں کی بھی کنہیا کمار کو غیر مشروط اور بھر پور حمایت حاصل ہے ۔ امید یہی ہے کہ کنہیا کمار بیگوسرائے کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور نوجوان ممبران پارلمینٹ کی تعداد میں ایک اور اضافہ ہوگا ۔
جے این یو طلبہ یونین کی تحریک سے کنہیا کمار نکل کر آئے ہیں ۔ ان کے ساتھ عمر خالد اور شہلا رشید کا نام بھی سرفہرست تھا جس میں کنہیا کمار کو ملک کے چینلوں سے سب سے زیادہ آگے بڑھایا۔ سول سوسائٹی کے دیگر افراد کی طرف انہوں نے بی جے پی اور مودی حکومت کی پرزور مخالفت کی ، آر ایس ایس کی تنقید کی اور یہیں سے ہندوستان کے مسلمانوں میں اس کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی ۔ آج جب وہ بیگوسرائے سے الیکشن لڑرہے ہیں تو فیس بک سے لیکر حقیقی بول چال میں عام مسلمانوں سے لیکر تعلیم یافتہ طبقہ سبھی کا مانناہے کہ کنہیا کمار کا جیتنا ضروری ہے کیوں کہ وہ بیباک ہے۔ مسلمانوں کا ہمدرد اور خیر خواہ ہے۔ و ہ آر ایس ایس کے خلاف بولتا ہے۔ بی جے پی کی پالیسی پر کھل کر تنقید کرتا ہے۔ بی جے پی ترجمان سمبت پاترا کو منہ توڑ جواب دیتا ہے۔ ایم پی بننے کے بعد وہ ایوان میں مسلمانوں کی آواز بلند کرے گا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑے گا۔ معاملہ صرف یہاں تک نہیں ہے کہ بلکہ ملک کے متعدد علاقوں سے مسلم نوجوان وہاں جاکر کنہیا کمار کیلئے انتخابی مہم چلا رہے ہیں ۔ آر جے ڈی کے امیدوار تنویر حسین سے پرچہ نامزدگی واپس لئے جانے کا مطالبہ کیا جارہاہے ۔علماء دعاؤں کا اہتمام کررہے ہیں۔ وہاٹس ایپ پر ایک بڑے مدرسہ کے ایک استاذ کا خط بھی گردش کررہا جس میں انہوں نے تنویر حسن سے مطالبہ کیا ہے کہ آ پ براہ کرام پرچہ نامزدگی واپس لے لیں ۔
مسلمانوں کی اس جذباتیت اور لگاؤ کو دیکھ کر لگتاہے کہ ہندوستان میں اب مسلمانوں کا مسیحا صرف کنہیا کمار ہے ۔2019 عام انتخابات میں مسلمانوں کی اولین ترجیح کنہیا کمار کی جیت ہے۔ وہی ان کے مسائل حل کرسکتا ہے ۔ متعدد لیڈروں سے دھوکہ کھانے کے بعد اب مسلمانوں نے اپنا لیڈر کنہیا کمار کو بنالیا ہے۔ اب یہی نوجوان ہندوستان میں مسلمانوں کا آخری سہاراہے ۔
کسی کے ساتھ جذباتی لگاﺅ اور اسے اپنا مسیحا تسلم کرنے کا یہ کوئی پہلامعاملہ نہیں ہے ۔ماضی میں بھی مسلمانوں نے یہی کیا ہے ۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب ہندوستان کے مسلمان انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک چلارہے تھے اس وقت انہوں نے اپنا لیڈر موہن داس کرم چندر کو بنایا اور مہاتما گاندھی کا لقب دیا ۔ آزادی کے بعد انہوں نے پنڈٹ جواہر لال نہرو پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کیا ۔1980 کی دہائی کے بعد جب ذات اور علاقہ کی بنیاد پر ریجنل پارٹیوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا تو مسلمانوں نے یہاں بھی خود اپنی لیڈر شپ پیدا کرنے اور اس پر توجہ دینے کے بجائے ریجنل پارٹیوں کے سربراہوں کو ہی اپنا لیڈر تسلیم کیا ۔ کہیں ملائم سنگھ یادو ، کہیں لالوپرساد یادو ۔کبھی مایاوتی ،کبھی چودھری چرن سنگھ ۔کبھی رام ولاس پاسوا ن ،کبھی ایچ ڈیو گوڑا ۔کبھی نتیش کمار جیسوں کو اپنا لیڈر مانا ،انہیں اقتدار کی کرسی تک پہونچایا ۔ آج مسلمانوں کو ان تمام سے شکوہ ہے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کا جذباتی استحصال کیا ۔ ووٹ لیکر مسلمانوں کو مکھی کی طر ح سیاست باہر کردیا۔دھوکہ اور فریب دیا ۔ مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔ آج ملائم سنگھ بی جے پی کی قصیدہ خوانی کررہے ہیں ۔ اڈوانی کی رتھ یاترا کو روک کر مسلمانوں کے سب سے بڑ ے خیر خواہ سمجھے جانے والے لالو پرساد یادو نے کچھ کئے بغیر ہی مسلمانوں کے ووٹ پر پندرہ سالوں تک حکومت کی۔ آج ان کی پارٹی کے انتخابی منشور میں لفظ مسلم تک کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے ۔ دلتوں سے وعدہ کیا گیا ہے مسلمانوں سے گریز کیا گیا ہے ۔ ان کے بیٹے نے سینئر مسلم رہنماﺅں کو کنارے لگا دیا ہے ۔ مایاوتی کب بی جے پی کا ہاتھ تھام لے اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے ۔
یہ تمام حقائق اور تاریخ کے صفحات میں درج واقعات کے بعد بھی ہندوستانی مسلمانوں کا شعور بیدار نہیں ہوسکا ہے ۔ اپنی لڑائی خود لڑنے کی فکر پیدا نہیں ہوسکی ہے ۔دوسروں کی قیادت کی جگہ اپنی قیادت پیدا کرنے کا مزاج نہیں بن سکا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان برہمنواد کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں ۔ برہمنواد کے مشن اور ایجنڈہ کے وہ ایسے شکار ہوچکے ہیں کہ ان کا ذہن اس سے آگے نکل کر سوچنے اور سمجھے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی ذہنیت اب یہ بنادی گئی ہے کہ ٹی وی چینل پر آر ایس ایس کے خلاف دو لفظ بول دینے والے کو وہ اپنا قائد، رہنما اور لیڈر ماننے لگے ہیں اور جو مسلمان رہنما برسوں سے سڑک سے لیکر سنسد تک ہماری آواز اٹھارہے ہیں ۔ مسلمانوں کے وقار اور حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں ۔تعلیم ، صحت، پسماندگی ، جہالت ، روزگا اور دیگر میدانوں میں نمایاں کارنامہ انجام دے رہے ہیں ان کو آج بھی مسلمانوں کا ایک طبقہ بی جے پی ایجنٹ مانتا ہے ۔ ان کی پارٹی کے بڑھتے قدم کو روکنے کی کوشش میں شب روز کام ہورہا ہے ۔ سوچ و فکر کا یہ تضاد سمجھ سے بالاتر ہے ؟
کنہیا کمار کی حمایت کیجئے ،ان کیلئے زور و شور کے ساتھ انتخابی مہم چلائیے لیکن ان یہ سوال بھی پوچھیئے کہ انہوں نے پرچہ نامزدگی کے موقع پر سبھی کو بلایا لیکن عمر خالد کو آنے سے کیوں روک دیا ؟ تنویر حسن کو آپ دعویداری واپس لینے کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ وہ باآسانی جیت جائیں لیکن آپ کنہیا کمار سے یہ سوال کیوں نہیں کررہے ہیں کہ ان کی پارٹی نے سیوان سے حناب شہاب کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کر رکھا ہے جس کا اولین مقصد سیوان سے مسلم نمائندگی کو ختم کرنا اور شہاب الدین کے نام و نشان کو مٹانا ہے ۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے تین نمائندے میدان انتخاب میں ہیں ۔ اورنگ آباد اور کشن گنج کی سیٹ پر کانگریس امیدوار کی وجہ سے ووٹوں کی تقسیم کا خدشہ ہے لیکن آپ نے کبھی ان دونوں جگہوں کے کانگریسی امیدواروں سے بیٹھ جانے کا مطالبہ نہیں کیا ۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں اور سیکولر افراد میں بے چینی ہے لیکن اسی کانگریس نے ہر ممکن کوشش کے باوجو د آسا میں یو ڈی ایف کے ساتھ اتحاد نہیں کیا تو آپ کے بدن پر جوں تک نہیں رینگی ۔ کسی نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ بنگال کی جنگی پورہ سیٹ پر مسلمانوں کے مؤقر رہنما ڈاکٹر قاسم رسول الیاس ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا الیکشن لڑرہے ہیں لیکن ان کیلئے مسلمانوں نے کوئی جذبہ خیر سگالی نہیں دیکھایا ۔ کوئی ان کی حمایت میں انتخابی مہم چلانے وہاں نہیں پہونچا۔ ایس ڈی پی آئی نے پندرہ امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے جس پر کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں سول سوسائٹی اور متعدد این جی اوز سے وابستہ تقریبا ہمارے دس دوستوں نے فون کرکے کہا شمس بھائی ہم بیگوسرائے میں ہیں ۔ کنہیا کیلئے انتخابی مہم چلارہے ہیں ۔ ذرا ایک اسٹوری چلا دیجئے لیکن کسی نے اپنوں کی حمایت میں کوئی مہم چلانے کی فکر نہیں کی ۔
ایک ہندوستانی شہری ہونے کے ناطے ہمارا احساس ہے کہ کنہیا کمار کو ملک کی پارلیمنٹ میں جانا چاہیئے لیکن دوسری طرف ہمیں اس با ت پر حیرت اور افسوس بھی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت آج تک اپنی لیڈر شپ پیدا نہیں کرسکی ہے ۔اپنی لڑائی خود لڑنے کی جرات اور ہمیت پیدا نہیں ہوسکی ہے ۔چند ایک لوگ جو اس طرح کی کوششیں کررہے ہیں انہیں بھی ہماری ہی قوم بی جے پی ایجنٹ کہہ کر مسترد کردیتی ہے ۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی ہمارے سامنے ایک واضح مثال ہیں جن کی پارلیمنٹ میں کارکردگی ہمیشہ بہت اچھی رہی ہے ۔ وہ بیباکی کے ساتھ مسلمانوں ، دلتوں ، کمزوروں اور آدی واسیوں کے مسائل اٹھاتے ہیں ۔ ہمیشہ بی جے پی کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ہندوستان کے سوا سو کڑور لوگ انہیں سنتے ہیں لیکن ابھی تک ان کے بارے میں ایک طبقہ کی ذہنیت ہے کہ وہ بی جے پی ایجنٹ ہیں ، مسلمانوں کو سیاسی طور پر بیدا کرنے کی کوششیں بی جے پی کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں دوسر ی طرف کنہیا کمار چند ایک تقریروں اور ٹی و ی چینل پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف بولنے کی وجہ سے مسلمانوں کے مسیحا بن گئے ہیں۔ یہ وہی کنہیا کمار ہیں جن کو اویسی کی سیاست پسند نہیں ہے ۔ کانگریس کی ریلی میں حید رآباد کی سرزمین پر وہ مجلس کی تنقید کرتے ہیں ۔
کنہیا کمار کی حمایت کیجئئے ۔ اسے کامیاب بنائییے لیکن اپنی لڑائی خود لڑنے کی فکر کیجئے ۔ اپنی قیادت پر بھروسہ اور اعتماد جتائیے ۔ 70 سالوں سے آپ دوسروں کو لیڈر بناتے آرہے ہیں اب کچھ اپنی لیڈر شپ پیدا کرنے کا بھی تجربہ کرکے دیکھیئے ۔خدا نہ کرے کہ کل ہوکر کنہیا کمار بھی ملائم سنگھ ، مایاوتی اور لالو پرساد کی نظیر بن جائیں لیکن اگر وہ بدل جاتے ہیں تو اس وقت آپ کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکتے ہیں ۔ ممکن ہے اس وقت کوئی اور ماحول ہوگا اور ایک نیا لیڈر آپ کو مل جائے گا جس کے تئیں بھی اس وقت آپ کا یہی گمان ہوگا یہ ہمارے حقوق کی جنگ لڑے گا ۔
مزاج بدلیئے ۔ سوچ بدلیئے ۔ سیاسی شعور پیدا کیجئے ۔ قلی بننے کے بجائے اب سواری بننے کی فکر کیجئے ۔ 70 سالوں سے دوسروں کو چڑھار ہے ہیں اب خود چڑھنے کا بھی تجربہ کیجئے ۔
stqasmi@gmail.com