بنگلہ دیش : مدرسے کی طالبہ کے قتل کا معمہ ، ٹیچر سمیت 13 گرفتار ! 

ڈھاکہ: (بین الاقوامی) بنگلہ دیش میں مدرسے کی 18 سالہ طالبہ نصرت جہاں کے قتل کا معمہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

ڈھاکا ٹریبیون میں شائع رپورٹ کے مطابق وزیراعظم شیخ حسینہ نے مدرسے کی مقتول طالبہ نصرت جہاں کے والدین سے ملاقات میں مکمل انصاف کی یقین دہانی کرادی۔

شیخ حسینہ نے یقین دلایا کہ قتل میں ملوث ہرایک ملزم کو کیفرکردار تک پہنچایا جائےگا۔

واضح رہے کہ چٹاگانگ کے ضلع فینی میں سونگازئی کے ڈگری مدرسہ ’سونگازئی اسلامیہ فیضل‘ کی طالبہ نصرت جہاں کو مبینہ طور پر 6 اپریل کو مٹی کا تیل چھڑ کر آگ لگا دی تھی‘۔

بعدازاں نصرت جہاں کو ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ’ان کا جسم 80 فیصد تک جھلس چکا ہے‘۔

ڈاکٹروں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ نصرت جہاں نے خود کشی نہیں کی بلکہ انہیں جلایا گیا‘۔

نصرت جہاں دوران علاج 10 اپریل کو دم توڑ گئیں تھی ۔

مقامی میڈیا کے مطابق ’نصرت جہاں نے مدرسے کے پرنسپل سراج الدولہ کے خلاف ریپ کی کوشش کا الزام لگایا تھا تاہم مقتولہ پر مقدمہ واپس لینے کا دباؤ تھا‘۔

اس حوالے سے پولیس بیورو آف انویسٹی گیشن چیف بناج کانتی نے دوران پریس کہا تھا کہ نصرت جہاں کے قتل کے الزام میں دو لڑکیوں سمیت 13 افراد کو حراست میں لے لیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ایک ٹیچر کو بھی گرفتار کیا گیا‘۔

دوسری جانب مدرسے کے پرنسپل سراج الدولہ 27 مارچ سے گرفتار ہیں۔

پولیس کی تفتیش میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ’نصرت جہاں کے قتل سے قبل متعدد لوگوں نے جیل میں پرنسپل سے ملاقات کی اور ممکنہ طور پر انہوں نے 18 سالہ طالبہ کو قتل کرنے کی ہدایت دی تھی‘۔

نصرت جہاں کے بھائی نے بیان دیا کہ ’قتل کے روز ان کی بہن امتحان دینے گئی تھی جہاں چار لوگ نصرت جہاں کو بھلا پھسلا کر چھت پر لے گئے اور سراج الدولہ کے خلاف درخواست واپس لینے کے دباؤ ڈالا لیکن نصرت نے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ’نصرت کا انکار سننے کے بعد مشتبہ افراد نے مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی اور نصرت جلتے ہوئے بدن کے ساتھ مدرسے کی سیڑھیوں پر منھ کے بل گرتے ہوئے مدد طلب کرتی رہی‘۔

نصرت جہاں کے مبینہ قتل کے بعد بنگلہ دیش کے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور وہ مقتولہ کو انصاف دلانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔