انقرہ (ایم این این )
ترکی کے اقتصادی شہر استنبول میں ہفتے کے روز منعقدہ بین الاقوامی امن کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں جنوبی ایشیاء کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں بین العلاقائی تعاون پر بات چیت کی گئی۔اجلاس کا انعقاد لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ LCPRاور استنبول کے جنوبی ایشیاءریسرچ سینٹر GASAM کی طرف سے کیا گیا جس میں متعدد اسکالروں، بین الاقوامی ماہرین اور سفارت کاروں نے شرکت کی۔
اجلاس کے افتتاحی خطاب میں LCPRکے اگزیکٹیو ڈائریکٹرمجاہد منصوری نے البرٹ آئن سٹائن کا مقولہ پڑھا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ “امن کو طاقت کے ذریعے برقرار نہیں رکھا جا سکتا بلکہ امن کا حصول صرف باہمی مفاہمت سے ہی ممکن ہے”۔
منصوری نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ امن کا حصول ایک دن میں ممکن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہم عالمی امن کے اور اس کے حقیقی مفہوم کے بارے میں ایک فکری مطابقت کو فروغ دینے کے خواہش مند ہیں۔
پاکستان کی پنجاب یونیورسٹی سے سوشل سائنسز کے ریٹائرڈ پروفیسر حسن عسکری رضوی نے ممالک کے درمیان بین الاعلاقائی تعاون کی اہمیت کو فروغ دینے کی اہمیت پر زر دیا۔
انہوں نے کہا کہ بین العلاقائی تعاون، جغرافیائی مسافت کی بجائے انسانیت کے درمیان قربت پیدا کرنے کی حکمت عملی ہے۔حسن عسکری رضوی نے کہا کہ یہ حکمت عملی اقتصادی و سماجی ترقی کی حوصلہ افزائی کرے گی اور معاشروں کو مضبوط بنائے گی۔ یہی نہیں بلکہ یہ غربت اور پسماندگی جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے بھی ایک مختصر حکمت عملی کی حیثیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ،مل بیٹھ کر اور مشترکہ مفاد کے مقصد کے تحت، بین العلاقائی تعاون کو فروغ دینے کے موضوع پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے تجربہ کار سفارت کار شمشاد احمد خان نے ترکی کے سابق سفیر سہیل محمود کا پیغام پڑھ کر سنایا۔پیغام میں سہیل محمود نے کہا ہے کہ بین العلاقائی تعاون، نہ صرف سیاسی معنوں میں دنیا کے متعدد مسائل کے لئے بلکہ وسیع معنوں میں لوگوں کے لوگوں ، کاروبار کے کاروبار ، حکومتوں کے حکومتوں اور سیکٹروں کے سیکٹروں کے ساتھ رابطے و تعاون، کے لئے بھی ایک کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے وسیع ورثے کے ساتھ ہم آہنگ شکل میں خود کو ایک گلوبل شہری اور علاقائی و گلوبل اتحاد کے عنصر کے طور پر دیکھتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کانفرنس اسلام آباد اور انقرہ اور ان کے ساتھ ساتھ دیگر علاقائی دارالحکومتوں کے لئے تازہ افکار اور اقدامات کے لئے معاون پالیسیوں کی تشکیل میں مددگار ثابت ہو گی۔
جنوبی ایشیاء ریسرچ سینٹر GASAM کے صدر جمال دیمیر نے اپنے خطاب میں کہا اسلام اور مشرق و مغرب کی دنیا کے درمیان تعلق کی تعمیر کا انحصار عقل سلیم پر ہے۔انہوں نے کہا کہ باہم مل ج±ل کر رہنے کے کلچر کی تشکیل مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔
دیمیر نے کہا کہ علاقائی و عالمی امن کا حصول صرف اسی وقت ممکن ہے کہ جب اسلام اور اس کے ساتھ ساتھ مشرق و مغرب کی تہذیبیں ایک کمیونٹی بن کر بھلائی کی طرف بڑھنا شروع کر دیں۔
ترکی کے سابق وزیر ماحولیات ادریس گل ل±وجے نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں مکار حکمرانوں کا آلہ کار بننے کی بجائے ان مذاہب سے مخلص ہونا چاہیے کہ جن کی ہم پیروی کر رہے ہیں۔بی
ن الپارلیمانی ترکی۔پاکستان دوستی گروپ کے چئیر مین علی شاہین نے اپنے خطاب میں کہا کہ گلوبل سسٹم امن کی بجائے تضادات کو فروغ دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے عالمی نظام میں قیام امن ‘ کی کوشش میں ہیں کہ جس میں” جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کا قانون رائج ہے۔