ایم ودود ساجد
کیا آپ نے گزشتہ روز مغربی بنگال میں وزیراعظم نریندرمودی کی انتخابی تقریر سنی؟ اگر نہیں سنی تو ضرور سنئے ۔۔۔ فی الواقع یہ تقریر نہیں ایک کھلی’ خطرناک اور مجرمانہ دھمکی ہے ۔۔۔ یہ دھمکی صرف مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کو نہیں ہے ۔۔۔ یہ دھمکی اس ملک کے ہر اس فرد کو ہے جو شرپسندوں ‘ غنڈوں اور قاتلوں کی بالا دستی کے خلاف ہے ۔۔۔
وزیراعظم نے ممتا بنرجی کو للکارتے ہوئے کہا کہ تمہارے 40 ممبران اسمبلی میرے رابطہ میں ہیں ۔۔۔ انہوں نے انتہائی عامیانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے یہ بھی کہا: دیدی 23 مئی کے بعد ہر طرف کمل کھلے گا ۔۔۔ اب تمہارا بچنا مشکل ہے دیدی ۔۔۔!
کلکتہ کے انگریزی روزنامہ ” دی ٹیلی گراف ” کے میگھ دیپ بھٹاچاریہ اور سندیپ چودھری نے وزیراعظم سے سوال کیا ہے کہ آپ خود کو ملک کا چوکیدار کہتے ہیں ‘ یہ بتائیے کہ آپ نے ” خرید و فروخت کے خواہش مند ان 40 ممبران اسمبلی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی اور کیوں اس اطلاع کو انتخابی جلسہ تک چھپائے رکھا ۔۔۔؟ 40 کی بات تو چھوڑئے اگر صرف ایک ایم ایل اے نے بھی آپ سے رابطہ کیا تھا تو آپ کو اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے تھی ۔۔۔ یہ کھلی بدعنوانی ہے اور آپ نے ترنمول کانگریس کے ممکنہ وفاکُش ممبران کو 23 مئی کے بعد کھلی بدعنوانی کی دعوت دیدی ہے ۔۔۔
۔۔۔ میں وزیر اعظم کی اس سیاسی دھمکی کو اِس سے بھی آگے بڑھ کر دیکھتا ہوں ۔۔۔ مجھے اِس دھمکی کے مخاطَب میں ممتا کے علاوہ مسلمانوں ‘ ایماندار افسروں اور عدالت کے منصفوں کا چہرہ بھی نظر آرہا ہے ۔۔۔ ان پانچ برسوں میں جو کچھ ہوا وہ کچھ کم نہیں ہے ۔۔۔ لیکن اگلے پانچ برسوں میں جو کچھ کرنے کا اِن شرپسندوں کا عزم ہے وہ انتہائی خوفناک ہے ۔۔۔
دورانِ الیکشن کی جانے والی امت شاہ ‘ نریندرمودی ‘ گری راج اور انہی جیسوں کی تقریروں کا تجزیہ کیجئے تو تصویر یہ بنتی ہے:
2019- 1 کے بعد کوئی الیکشن نہیں ہوگا۔
2- کسی عدالت کو حکومت کے عزائم کے خلاف فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔
3- مسلمانوں کے شہری ‘ سیاسی اور مذہبی حقوق آئین کے نہیں بلکہ حکومت کے رحم و کرم پر ہوں گے ۔۔۔
4 – اور امریکہ کے دو جماعتی نظام سے بھی آگے بڑھ کر صرف یک جماعتی بلکہ یک نفری سیاسی نظام ہوگا ۔۔۔
اپوزیشن ابھی پوری طرح متحد نہیں ہے ۔۔۔ وہ ابھی محدود سیاسی مفادات کے حصار سے باہر نہیں نکل سکی ہے ۔۔۔ کہیں کانگریس کا قصور ہے تو کہیں بعض علاقائی جماعتوں کا بھی قصور ہے ۔۔۔ اس کشاکش میں مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پِس کر رہ گیا ہے ۔۔۔ یہ جماعتیں اپنا وجود بچانے کی فکر میں مسلمانوں کا نام لینے سے بھی ڈر رہی ہیں ۔۔۔ لہذا ہمیں اپنی شہری ‘ سیاسی’ معاشرتی اور مذہبی شناخت کے تحفظ کے لئے خود ہی اقدام کرنا ہوگا ۔۔۔
الیکشن کے چار مرحلے مکمل ہوگئے ہیں ۔۔۔ حتمی طور پر نہیں معلوم کہ مسلمانوں نے مجموعی طورپر کیا رویہ اختیار کیا ۔۔۔ لیکن اندازہ یہی ہے کہ اپوزيشن جماعتوں کی کشاکش کے سبب وہ بھی کچھ بکھرے بکھرے سے رہے ۔۔۔ اب بھی وقت ہے ۔۔۔ اب بھی تدارک کا کچھ سامان کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ وزیراعظم کی مذکورہ دھمکی کو سامنے رکھئے اور خاموشی سے کوئی فیصلہ کیجئے ۔۔۔
اب اِس فلسفیانہ سوال پر توانائی ضائع کرنے کا موقع نہیں ہے کہ کیا سیکولرزم کو بچانے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہی ہے ۔۔۔ اب خیرِ امّت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ حقیقی معنوں میں سیکولرزم اب کم وبیش کسی سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں رہ گیا ہے ۔۔۔ لیکن مجازی معنی میں ہی سہی مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت اب بھی سیکولرزم ہی ہے ۔۔۔