قتل کے تمام ملزمان کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ سے ضمانت دینے کے فیصلہ کو علیم الدین کی بیوہ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ۔ عدلیہ پر بھروسہ ہے، وہیں سے انہیں انصاف مل سکتا ہے

پٹنہ: (ایم این این) ’’ اس علاقہ میں تو ہندو بھی بی جے پی کو ووٹ نہیں دینے والے۔ ہم تو ہمیشہ بھائی چارے سے رہتے آئے ہیں، اس واقعہ کے بعد بھی ہم ایک ساتھ رہتے ہیں۔ وہ لوگ ہمیشہ ہماری مدد کرنے کے لئے آگے آئے۔ ایک سیاسی جماعت کب تک نفرت کو فروغ دیتی رہے گی، کب تک کوئی معصوموں کے خون پر راج کرتا رہے گا!‘‘ ان خیالات کا اظہار مریم خاتون نے کیا۔ مریم خاتون علیم الدین انصاری کی بیوہ ہیں جنہیں جھار کھنڈ کے رام گڑھ میں مبینہ گئو رکشکوں نے گاڑی سے کھینچ کر زدو کوب کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

یوں تو یہ المناک واقعہ 2017 میں پیش آیا تھا لیکن اس کا خوف آج بھی علاقہ میں نظر آ تا ہے۔ تپتی دوپہر میں مریم کے گھر کی طرف جانے والی سڑک سنسان ہے۔ مریم کو ’اندرا آواس یوجنا‘ کے تحت رہائشی مکان ملا تھا، یہا ں اچھی خاصی آبادی ہے لیکن چہل پہل نظر نہیں آتی۔ تمام باشندگان نے بیرونی افراد کے لئے اپنے دروازے بند کر لئے ہیں۔ جبکہ محض 300 میڑ کے فاصلہ پر ہی کافی شور شرابہ سنائی دیتا ہے۔

مریم خاتون بتاتی ہیں، ’’اس علاقہ میں بی جے پی کی طرف سے کوئی نہیں آیا۔ آخر کس منہ سے وہ اپنا چہرہ دکھانے آئیں گے۔ کانگریس کے گوپال ساہو ابھی تین روز قبل آئے تھے اور ان کا بیٹا بھی ہمارے گھر آیا تھا۔ بس اس کے علاوہ یہاں کوئی انتخابی تشہیر کرنے کے لئے نہیں آیا۔ کانگریس میں کوئی جوش ہی نہیں ہے، آخر وہ کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں!‘‘

مریم کا گھر ہزاری باغ لوک سبھا سیٹ کے تحت آتا ہے جہاں 6 مئی کو پولنگ ہونی ہے۔ اس سیٹ سے یشونت سنہا کے بیٹے اور مودی حکومت کے وزیر جینت سنہا میدان میں ہیں۔ جینت سنہا نے علیم الدین قتل کے ملزمان کا پھولوں کی مالا پہنا کر استقبال کیا تھا۔ ان کا مقابلہ کانگریس کے گوپال ساہو سے ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس اس سیٹ پر بے دلی سے انتخاب لڑ رہی ہے۔

آنے والے 29 جون کو علیم الدین کے قتل کو 2 سال مکمل ہو جائیں گے۔ قتل کے 12 نامزد ملزمان میں سے محض ایک دیپک مشرا ہی اب جیل میں ہے، بقیہ تمام ملزمان ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں اور کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ اس معاملہ میں ایک نابالغ بھی ملزم تھا، اس کا معاملہ جونائل کورٹ میں زیر غور ہے۔ بی جے پی رہنما نتیانند مہتو بھی معاملہ کا ملزم ہے، اسے ضلع عدالت سے عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے لیکن وہ بھی ضمانت پر رہا ہو چکا ہے۔

مریم کہتی ہیں، ’’جیسے ہی میرے بچے باہر جاتے ہیں مجھے فکر ہونے لگتی ہے۔ میرا چھوٹا بیٹا کمپیوٹر کلاس کے لئے رام گڑھ گیا ہوا ہے۔ جب تک وہ واپس نہیں آ جائے گا میں پریشان رہوں گی۔ اگر یہ لوگ میرے شوہر پر حملہ کر سکتے ہیں تو اب کبھی بھی، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میری بیٹی بھی باہر جاتی ہے تو میں پریشان رہتی ہوں۔‘‘

علیم الدین کے قتل کے بعد سے مریم کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ ابھی چار مہینے قبل اس کے 23 سال کے بیٹے شہزاد انصاری کی اچانک سر درد سے موت ہو گئی۔ مریم کا کہنا ہے کہ شہزاد سے خاندان کو کافی امیدیں تھیں، اسے سرکاری نوکری ملنے والی تھی لیکن یہ امید بھی ختم ہو گئی۔ مریم کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، ایک بیٹی کی شادی مغربی بنگال کے مالدہ میں ہو چکی ہے۔

بقیہ دو میں سے ایک بیٹی نے دسویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑ دیا کیونکہ گھر کی معاشی حالت بہتر نہیں رہی۔ چھوٹی بیٹی ابھی نویں کلاس میں زیر تعلیم ہے۔ ایک بیٹا مدرسہ میں پڑھتا ہے اور چھوٹا بیٹا نویں کلا میں ہے۔ اسے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کی امن برادری کی طرف سے اسکالرشپ دی گئی ہے۔ سرکاری نوکری کی امید میں پڑھائی کے ساتھ وہ کمپیوٹر کورس بھی کر رہا ہے۔

مریم کے خاندان کا کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں ہے، گھر کا خرچ ہمسایوں، دوستوں اور خاندان کے دیگر افراد کی مدد سے چلتا ہے۔ مریم کہتی ہیں، ’’میں نے سوچا تھا کہ میں کام کروں گی لیکن میری طبیعت خراب رہنے لگی ہے۔ میرے سر میں شدید درد رہتا ہے۔ کئی ڈاکٹروں کو دکھایا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب میں دیسی علاج کرا رہی ہوں، جس سے کچھ راحت ہے۔‘‘

مریم کے خاندان نے ہیومن رائٹس لا نیٹورک کی مدد سے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے علیم الدین قتل کے تمام ملزمان کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ کی طرف سے ضمانت پر رہا کیے جانے کے فیصلہ کو چیلنج کیا ہے۔

مریم کا کہنا ہے، ’’ہمیں انصاف کی امید ہے۔ میں صرف عدالت سے ہی انصاف کی امید کر سکتی ہوں۔ ہم اس کے آگے جاکر کر بھی کیا سکتے ہیں! غریبوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی تو نہیں ہوتا۔‘‘