یہ تیرے پراسرار بندے

قاسم سید 

گذشتہ چند سالوں سے ہندوستانی عوام اور خاص طور سے مسلمان مختلف قسم کی آزمائشوں سے گزر رہے ہیں۔ ان کے تشخص کو لگاتار چیلنج کیا گیا ہے‘ مدارس پر ٹیڑھی نظر‘ موب لنچنگ کے ڈراؤنے واقعات‘ تین طلاق جیسے ایشوز میں الجھاکر ان کی توانائی ضائع کرنے کی حکمت عملی‘عام احساس یہ ہے کہ آئین اور جمہوریت خطرے میں ہیں۔ بارشعور شہری حالات کی سنگینی کو بخوبی سمجھ رہا ہے۔ ہندوستانی مسلمان نے بڑی حکمت وتدبر کے ساتھ کسی اشتعال میں آئے بغیر خود کو سمیٹ کر رکھا۔ اکسانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود ذہنی توازن نہیں کھویا‘ مسلم قیادت نے بھی واعظ کی چالوں کا صبرو تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا۔

 عام طور پر دیکھاگیا ہے کہ ایسی آفات میں اندرونی اختلافات کو بھلاکر سب ایک ٹیلہ پر جمع ہوجاتے ہیں اور کم از کم سیلاب کے اترنے کا انتظار ضرور کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کا گریبان ہاتھ میں لینے‘ پگڑیاں اچھالنے‘ سب وشتم اور داخلی سازشوں سے توبہ کرلی جاتی ہے۔ کیونکہ حالات کا دباؤ اس کا متقاضی ہوتا ہے۔ عقل و دانش رکھنے والی کمیونٹی ہرآزمائش میں بالغ نظری کا ثبوت دیتی ہے مگر پھر بھی معاشرہ میں ہمیشہ ایسے عناصر رہے ہیں جو تاریخ سے سق سیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ بغلی گھونسوں کی طرح صرف تکلیف پہنچانے کی تدابیر کرتے رہتے ہیں۔ انتسار پھیلانا فروعی مسائل میں الجھانا‘اختلافات کی راہیں تلاش کرنا ‘پرانے زخموں کو کریدنا ‘نئے زخم لگانا‘مجموعی سوچ میں شکوک و شبہات پیداکرنا‘ نفرتوں کی کیچڑ اچھالنا پرتشدد ذہنیت کی حوصلہ افزائی کرنا‘ان کی سفاکانہ فکر کو اس سے غذا ملتی ہے ۔ یہ پراسرار بندے کون ہیں ان کی پشت پناہی کون کرتا ہے ان کو حوصلہ کہاں سے ملتا ہے وہ کیوں ایسے نازک ماحول میں بھی بھی مسلکی نفرت کی دیواروں کو اور اونچا کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جب ملت کا وجود اوراس کا تشخص داؤ پر لگاہے پرانی بحثوں کو زندہ کر رہے ہیں جب ملتبنیان مرصوصبننے کی راہ پرگامزن ہے اس کی جڑوں میں تیزاب ڈالنے‘ نفرت و مسلکی تشدد کی بارودی سرنگیں بچھانے کا عمل ایک بار پھر شروع کردیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جناب امتیاز فہیم تاریخ کے جبر اور اس کے رویہ و فیصلہ کے بارےایک تحریر بھیجی تھی ہوسکتا ہے بڑی چشم کشاہے ۔ ہم اس سے سبق حاصل کرسکتے ہیں تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے وہ کسی کےساتھ رعایت نہیں کرتی۔ سب کا حساب کرتی ہے اس لئے ہم اپنا کردار خود طے کریں کہ آنے والی نسلوں میں کس حیثیت سے مقام بنانا چاہتے ہیں۔

سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تو ایتھنز کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اُن کے نوجوانوںکو گمراہ کرنے والا جہنم رسید ہوا، یونان کی اشرافیہ جیت گئی، سقراط کی دانش ہار گئی۔ وقت گزر گیا۔

اسکاٹ لینڈ کی جنگ آزادی لڑنے والے دلاور ولیم والس کو جب انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ اوّل نے گرفتار کیا تو اُس پر غداری کا مقدمہ قائم کیا، اسے برہنہ کرکے گھوڑوں کے سموں کے ساتھ باندھ کر لندن کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور پھر ناقابل بیان تشدد کے بعد اُسے پھانسی دے کر لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ اُس وقت کا بادشاہ جیت گیا، ولیم والس ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔

گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو یہ کیتھولک عقائد کی خلاف ورزی تھی، چرچ نے گلیلیو پر کفر کا فتویٰ لگایا اور اسے غیرمعینہ مدت تک کے لئے قید کی سزا سنا دی، یہ سزا 1633میں سنائی گئی، گلیلیو اپنے گھر میں ہی قید رہا اور 1642 میں وہیں اُس کی وفات ہوئی، پادری جیت گئے سائنس ہار گئی۔ وقت گزر گیا۔

جیورڈانو برونو پر بھی چرچ کے عقائد سے انحراف کرنے کا مقدمہ بنا یاگیا، برونو نے اپنے دفاع میں کہا کہ اس کی تحقیق عیسائیت کے عقیدہ خدا اور اُس کی تخلیق سے متصادم نہیں مگر اُس کی بات نہیں سنی گئی اور اسے اپنے نظریات سے مکمل طور پر تائب ہونے کے لئے کہا گیا، برونو نے انکار کر دیا، پوپ نے برونو کو کافر قرار دے دیا، 8فروری1600کو جب اسے فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا تو برونو نے تاریخی جملہ کہا ’’میں یہ فیصلہ سنتے ہوئے اتنا خوفزدہ نہیں ہوں جتنا تم یہ فیصلہ سناتے ہوئے خوفزدہ ہو۔‘‘برونو کی زبان کاٹ دی گئی اور اسے زندہ جلا دیا گیا۔ پوپ جیت گیا، برونو ہار گیا۔ وقت گزر گیا۔

ابو جعفر منصور نے کئی مرتبہ امام ابو حنیفہ ؒکو قاضی القضاۃ بننے کی پیشکش کی مگر آپ نے ہر مرتبہ انکار کیا، ایک موقع پر دونوں کے درمیان تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ منصور کھلم کھلا ظلم کرنے پر اتر آیا، اُس نے انہیں بغداد میں دیواریں بنانے کے کام کی نگرانی اور اینٹیں گننے پر مامور کر دیا، مقصد اُن کی ہتک کرنا تھا، بعد ازاں منصور نے امام ابوحنیفہ کو کوڑے مارے اور اذیت ناک قید میں رکھا، بالآخر قید میں ہی انہیں زہر دے کر مروا دیا گیا، سجدے کی حالت میں آپ کا انتقال ہوا، نماز جنازہ میں مجمع کا حال یہ تھا کہ پچاس ہزار لوگ امڈ آئے، چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ منصور جیت گیا، امام ابو حنیفہ ہار گئے۔ وقت گزر گیا۔

تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا، یونان کی اشرافیہ سقراط سے زیادہ طاقتور تھی مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ سقراط کا سچ زیادہ طاقتور تھا۔ ولیم والس کی دردناک موت کے بعد اس کا نام لیوا بھی نہیں ہونا چاہئے تھا مگر آج ابیرڈین سے لے کر ایڈنبرا تک ولیم والس کے مجسمے اور یادگاریں ہیں، تاریخ میں ولیم والس امر ہو چکا ہے۔ گلیلیو پر کفر کے فتوے لگانے والی چرچ اپنے تمام فتوے واپس لے چکی ہے، رومن کیتھولک چرچ نے ساڑھے تین سو سال بعد تسلیم کیا کہ گلیلیو درست تھا اور اُس وقت کے پادری غلط۔ برونو کو زندہ جلانے والے بھی آج یہ بات مانتے ہیں کہ برونو کا علم اور نظریہ درست تھا اور اسے اذیت ناک موت دینے والے تاریخ کے غلط دوراہے پر کھڑے تھے۔

تاریخ میں حجاج بن یوسف کو آج ایک ظالم اور جابر حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس کی گردن پر ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون ہے جبکہ حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ شجاعت اور دلیری کا استعارہ ہیں، حجاج کو شکست ہو چکی ہے ابن زبیرؓ فاتح ہیں۔ جس ابو جعفر منصور نے امام ابوحنیفہ کو قید میں زہر دے کر مروایا اس کے مرنے کے بعد ایک جیسی سو قبریں کھو دی گئیں اور کسی ایک قبر میں اسے دفن کر دیا گیا تاکہ لوگوں کو یہ پتہ نہ چل سکے کہ وہ کس قبر میں دفن ہے، یہ اہتمام اس خوف کی وجہ سے کیا گیا کہ کہیں لوگ اُس کی قبر کی بے حرمتی نہ کریں، گویا تاریخ کا فیصلہ بہت جلد آگیا۔

آج سے ایک سو سال بعد ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا، تاریخ ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائے، آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ہم میں سے کون تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑا ہے اور کون تاریخ کے غلط دوراہے پر ہے. کون حق کا ساتھی ہے اور کون باطل کے ساتھ کندھا ملائے ہوئے ہے، کون سچائی کا علمبردار ہے اور کون جھوٹ کی ترویج کر رہا ہے، کون دیانت دار ہے اور کون بے ایمان، کون ظالم ہے اور کون مظلوم۔ ہم میں سے ہر کوئی خود کو حق سچ کا راہی کہتا ہے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بات دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے، کیونکہ اگر ہر شخص نے حق کا علم تھام لیا ہے تو پھر اس دھرتی سے ظلم اور ناانصافی کو اپنے آپ ختم ہو جانا چاہئے لیکن سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم اُس منزل سے کہیں دور بھٹک رہے ہیں۔

 آج سے سو برس بعد البتہ جب کوئی مورخ ہمارا احوال لکھے گا تو وہ ایک ہی کسوٹی پر ہم سب کو پرکھے گا، مگر افسوس کہ اُس وقت تاریخ کا بے رحم فیصلہ سننے کے لئے ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا۔ سو آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں کیوں نہ خود کو ہم ایک بے رحم کسوٹی پر پرکھ لیں اور دیکھ لیں کہ کہیں ہم یونانی اشرافیہ کے ساتھ تو نہیں کھڑے جنہوں نے سقراط کو زہر کا پیالہ تھما دیا تھا، کہیں ہم برونو کو زندہ جلانے والے پادریوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم حجاج کی طرح ظالموں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم امام ابوحنیفہ اور امام مالک پر کوڑے برسانے والوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے، کہیں ہم ابن رشد کے خلاف فتویٰ دینے والوں کے ساتھ تو نہیں کھڑے ….. کہیں ہم تاریخ کی غلط سمت میں تو نہیں کھڑے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرکے خود کو غلطی پر تسلیم کرنا بڑے ظرف کا کام ہے جس کی آج کل شدید کمی ہے۔ وقت تو گزر ہی جاتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی باضمیر نے وہ وقت کیسے گزارا!

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں