ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق
اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ سے ہر ادنی واقف شخص یہ جانتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر مئی 1948 ع میں انگلینڈ,فرانس اور دیگر عالمی قوتوں کی مدد سے جابرانہ و ظالمانہ قبضہ کیا۔انگلینڈ اور فرانس ہی جنگ عظیم دوم ( ستمبر 1939- ستمبر 1945ع )سے پہلے اس دنیا کی دو بڑی طاقتیں تھی اور ان دونوں خصوصا انگلینڈ ہی کے تعاون اور مدد سے اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ و ظالمانہ قبضہ کیا تھا ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد دونئے عالمی سپر پاورس امریکہ اور روس کا ظہورہوا۔اور ان دونوں ملکوں خصوصا امریکہ نے شروع سیہی اسرائیل کا عالمی اور اسلامی برادری کا لحاظ کیے بغیر کھل کر مکمل ساتھ دیا ۔ اور اس کا ہر طرح سے سیاسی ,سماجی, اقتصادی, مادی, فوجی, جنگی اور معنوی تعاون کیا اور اب بھی کررہا ہے جو ہر کوئی جانتا ہے اور یہ کوئی مخفی چیز نہیں ہے۔اوراگر یہ کہا جائے کہ آج کے دور میں امریکہ ہی اسرائیل کا سب سے بڑا پشت پناہ ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا وجود برقرار ہے تو یہ بالکل صحیح اور درست ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ دنیا کے تقریبا تمام مسلمان ممالک- چند کو چھوڑ کر – اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کا سیاسی , سفارتی, اقتصادی, سماجی, فوجی, تعلق نہ قائم کرنے پر مصر ہیں ۔ اور وہ بلا شبہ حق بجانب ہیں کیونکہ حقیقت میں اسرائیل نے ایک مسلمان ملک پر بنا کسی وجہ معقول کے ناحق زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ روزآنہ وہاں کے مسلمانوں کا خون بہا رہاہے۔ بنا کسی تفریق کے عورتو ں اور بچوں کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے۔مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی عزت تار تار کرہا ہے۔گھروں, کھیتوں اور زمینوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے ۔غرضیکہ ہر طرح کا ظلم و ستم وہاں کے باشندوں پر ڈھا رہا ہیاور کسی بھی طرح کی مصالحت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگر مسلمان ممالک کا اسرائیل کے تئیں یہ موقف ہے تو بلاشبہ یہ ایک بہت ہی اچھا, شاندار اور قابل تحسین اسلامی موقف ہے۔ اس کی تعریف کی جانی چائیے۔لیکن یہ تو سکہ کا صرف ایک ہی رخ ہے۔
سکہ کا ایک دوسرا رخ بھی ہے وہ یہ ہے کہ آج کے زمانہ میں اسرائیل کا قیام امریکہ کی سیاسی , اقتصادی, مادی ,جنگی اور فوجی مدد کی وجہ سے ہی ہے۔اور اسی کی مرہون منت ہے۔اور امریکہ اس کی ہر طرح کی مدد کوئی ڈھکے چھپے نہیں بلکہ علی الاعلان ڈنکے کی چوٹ پر کر رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 1973 ع سے ہی امریکہ اسرائیل کو سب سے بڑا فنڈ فراہم کرنے والا ملک رہا ہے۔ اسرائیل کو ہر سال امریکہ سے بنا کسی شرط کے تین ارب ڈالر کی مدد ملتی ہے جو اس کی کل بیرونی مدد کا پانچواں حصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ ہر اسرائیلی کو ہر سال پانچ سو ڈالر کی مدد دیتا ہے۔ اور امریکہ اسرائیل کو 2008 ع تک سو ارب ڈالر سے زائد کی مدد دے چکا ہے۔ اس کو جنگی سازو سامان, جنگی ہیلی کاپٹر اور طیارے سپلائی کرتا ہے۔اسی پر بس نہیں بلکہ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو اپنے جاسوسی ایجنسیوں کی معلومات تک پہونچنے کی بھی اجازت ہے۔جو وہ اپنے کسی بھی دوست ممالک کو نہیں دیتا ہے۔مادی اور جنگی مدد کے علاوہ امریکہ اسرائیل کی سیاسی مدد بھی برابر کرتا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے 2008 ع تک اقوام متحد ہ میں اسرائیل کے خلاف پاس شدہ 45 قراردودوں کو ویٹو کیا ہیاور بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر ہمیشہ اس کی طرف سے دفاع کیا ہے۔
ان سب کا واضح اور صاف مطلب ہے کہ اسرائیل اگر فلسطینی مسلمانوں کا قتل کرہا ہے, ان کا خون بہا رہا ہے تو وہ امریکی ہتھیاروں سے کر رہا ہے۔ان کے اوپر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑ رہا ہے تو امریکہ کی معنوی و مالی مدد سے کر رہا ہے۔ اس کے باوجود تمام مسلمان ممالک کے امریکہ کے ساتھ ہر طرح کے سفارتی, سیاسی, معاشی, تجارتی, فوجی وغیرہ تعلقات قائم ہیں بلکہ بہت سارے ممالک اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور دوستی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور مسئلہ صرف اتنا نہیں ہے بلکہ بعض مسلمان ممالک کے اربوں ڈالر امریکہ میں لگے ہوئے ہیں جن پر امریکی معیشت کا دارو مدار ہے اور اسی پر امریکی معیشت ٹکی ہوئی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کل خلیجی سرمایہ جو امریکہ میں لگا ہوا ہے وہ تقریبا تین ٹریلین ڈالر ہے ۔ اس میں خلیجی حکومتوں کا سرمایہ دو ٹریلین ڈالر جبکہ ذاتی اور شخصی سرمایہ ایک ٹریلین ڈالر کے قریب ہے ۔یہ بہت بڑا سرمایہ ہے جو امریکہ کے کل جی ڈی پی (14 ٹریلین ڈالر ) کا تقریبا بیس فیصد ہے۔دیگر مالدار مسلمان ممالک اور افراد کا سرمایہ اس کے علاوہ ہے جس سے امریکہ فائدہ اٹھا رہا ہے اور اسی سے اسرائیل کی مدد کرہا ہے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔
یہاں یہ ذکر کردینا بہت ہی مناسب ہے کہ کچھ ملکوں میں برسرروزگار مزدور اور نوکری پیشہ لوگ جب اپنے خون و پسینہ کی گاڑھی کمائی اپنے ملکوں میں أپنے فیملی خرچ وغیرہ کے لیے بھیجتے ہیں تو اس پر شور مچایا جاتا ہے ۔أخباروں اور خبروں میں تبصرے ہوتے ہیں, غیر ملکیوں کی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سرمایہ بھیجنے پر بھی زیادہ سے زیادہ فیس لگانے کی مانگ کی جاتی ہے۔اور ملکی اقتصاد پر برے اثرات کا رونا رویا جاتا ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اسرائیل بظاہر صرف فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے لیکن امریکہ تو پوری دنیا کے مسلمانوں پر ظلم کرہا ہے۔ افغانستا ن سے لیکر عراق, سوریا, یمن, مصر, سوڈان , اور پاکستان ہر جگہ امریکہ مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے بلکہ دنیا میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی قیادت وہی کررہا ہے۔
ان حقیقتوں کو جان لینے کے بعد واقعی یہ ایک حیران کن سوال ہے کہ ایک طرف تو دنیاکے تقریبا تمام مسلمان ممالک اور اس کے قائدین , حکام اور سربراہان دن رات اسرائیل کو گالیاں دیتے ہیں , اس کو پانی پی پی کے کوستے ہیں,اس کو امریکہ کی ناجائز اولاد بتاتے ہیں ۔ امریکہ کا 51 واں صوبہ قرار دیتے ہیں ۔ اس کی ہر محفل میں برائی کر تے ہیں۔ اس کی خامیوں اور برایؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔اس کے ظلم وجور کا گلہ و شکوہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعلق بنانے سے گریز کرتے ہیں گویا کہ وہ ایک اچھوت ملک ہے جیسا کہ ہندستان کے اچھوت ہیں۔ چلیے بہت اچھی بات ہے۔ ہم اس موقف کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہیں اور اسی پر قائم و باقی رہنے کی تمنا کرتے ہیں۔ آپ کا یہ اسلامی اور دینی غیرت قابل صدتحسین ہے۔لیکن میرا سوال ان مسلمان ممالک اور ان کے سربراہوں سے ہے کہ جناب امریکہ ہی اس کا حمایتی ہے۔ اسی کے بل بوتے اسرائیل قائم ہے۔ امریکہ اس کی ہر طرح کی مدد کر رہا ہیتوپھر آپ امریکہ سے اپنے تعلقات کیوں قائم کیے ہوئے ہیں, امریکہ تو اسرائیل سے بڑا مجرم ہے پھر وہ آپ کا چہیتا کیوں بنا ہوا ہے۔ امریکہ کا ظلم تو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے پھر اس کے ساتھ اتنی قربت کیوں ہے۔امریکہ کے سلسلے میں آپ کا اسلامی اور دینی غیرت کہاں ہے؟
کیا یہ سب جان لینے کے باوجود مسلمان ممالک اور ان کے سربراہوں کا اسرائیلی مظالم پر گلہ و شکوہ کرنا, اس پر رونا دھونا اور واویلا مچانا جائز ہے؟ کیا ہمیں اس کا حق حاصل ہے؟ میرے خیال میں ہمیں اس کا حق نہیں حاصل ہے۔ اور ہمارا آنسوبہانا مگرمچھ کے آنسو بہانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
کیا یہ مسلمان ممالک کی دوہری پالیسی نہیں ہے۔ کیا یہ دوہرا معیار نہیں ہے۔کیونکہ دوست کا دوست دوست ہوتا ہے اور دشمن کا دوست دوست نہیں بلکہ دشمن ہوتا ہے۔کیا مسلمان ممالک کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں کہ امریکہ کے جرائم نظر نہیں آتے ہیں ۔ کیا یہ پتہ نہیں ہے کہ امریکہ ہی اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی, معاون, مددگار, فنڈ فراہم کرنے والا , جنگی سازو سامان دینے والا ہے۔اگر اسرائیل مجرم ہے تو امریکہ بھی مجرم ہے بلکہ اس سے بڑا مجرم ہے پھر اس سے اتنی شناسائی کیوں ہے۔اس سے ہر طرح کے تعلقات کیوں قائم ہیں ؟ کیا یہ ہماری مجبوری ہے یا مصلحت؟ خواہ ہم کچھ بھی کہیں لیکن یہ بلا شبہ اسلامی ممالک کی دوغلی پالیسی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
اورکیا آپ جانتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کس چیز کا نتیجہ ہے؟ یہ در اصل نتیجہ ہے ہمارے اختلاف, تفرقہ اور نا اتفاقی کا۔ اور اس کی وجہ ہماری کمزوری اور باہمی لڑائی جگھڑا ہے۔ سچ فرمایا اللہ رب العزت نے: و أطیعو اللہ و رسولہ و لا تنازعوا فتفشلوا و تذہب ریحکم و اصبروا , ان اللہ مع الصابرین( سورہ انفال ؍آیت نمبر 46) ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو, اور آپس میں تنازعہ و اختلاف نہ کرو ورنہ تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی , اور صبر کرو یقیناًاللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اس آیت میں خاص غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اسں میں ناکامی و نامرادی, کمزوری و پسپائی کو تنازعہ, اختلاف و تفرقہ سے جوڑا ہے۔ کسی اور چیز سے نہیں جوڑا ہے جس میں ہم تمام مسلمانوں کے لیے یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ تفرقہ, تنازعہ و اختلاف میں ناکامی ہے جبکہ اتحاد میں خیرو برکت , طاقت و قوت ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ ہمارا دوہرا معیار اور پیمانہ یہ ہمارے اختلافات و تنازعات کا حتمی نتیجہ ہے۔ورنہ اسرائیل و امریکہ میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں اسلام و مسلمانوں کے دشمن ہیں۔لہذا دونوں سے تعلقات میں فرق کیسا؟
اور میں یہ بھی کہتا ہوں کہ دو چار ملک مل کے بھی امریکہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں اسی لیے ضروری کہ تمام اسلامی ممالک متحد ہوں تبھی ہم اس دوغلی پالیسی سے نجات پا سکتے ہیں کیونکہ اتحاد برکت, طاقت , قوت ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی دوسری طاقت ٹک نہیں سکتی ہے۔ورنہ ہم ایسے ہی دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اور دوسروں سے اپنی حفاظت, مسائل حل کرنے اور زندگی کی بھیک مانگتے رہیں گے اور دوسری قومیں ہمیں مزید در مزید ذلیل و رسوا کرتی رہیں گی۔اور مسلمان ممالک کی دوہری پالیسی کا یہ کھیل جاری و ساری رہے گا۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار جامعہ ام القری مکہ مکرمہ میں لکچرار ہیں )