بی جے پی کی واپسی: توقعات اور اندیشے 

نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم 

جمہوریت میں انتخابات کی سب سے اہمیت ہوتی ہے۔ عوام کو اپنی مرضی اور اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کا موقع ملتا ہے۔ وقت پر انتخابات کا انعقاد جمہوریت کی روح، آئین کی پاسداری اور دستور تحفظ کی علامت ہے۔ ہندوستان بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں آئین کی تشکیل کے بعد انتخابات کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایک مرتبہ کے تعطل کے بعد کبھی بھی انتخابات کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے۔ 2014 میں بی جے پی کی واضح اکثریت سے جیت کے بعد اندیشہ تھاکہ آئین تبدیل کئے جائیں گے۔ دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیا جائے گا ۔ ممکن ہے حکومت ایمرجنسی نافذکرکے انتخابات بھی وقت پر نہ کرائے ۔ اسے کچھ دنوں کیلئے ٹال دے لیکن فی الحال ایسا نہیں ہواہے ۔ پانچ سالہ مدت پوری ہوتے ہی انتخاب کا انعقاد ہوا۔ 11 اپریل سے شروع ہونے والا انتخاب 19 مئی کو سات مرحلوں میں مکمل ہوا اور اب گذشتہ 23 مئی کو نتیجہ بھی آگیاہے جس کے مطابق ہندوستان میں دوبارہ بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کی سرکار بننی جارہی ہے ۔

حالیہ الیکشن صاف شفاف نہیں رہا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ پہلا انتخاب ہے جس میں سب سے زیادہ الیکشن کمیشن کے رویے پر سوالات اٹھے ہیں۔ ای وی ایم کے تئیں بھی اب تک عوام کا شک اور تذبذب برقرار ہے۔ عوام کا اندازہ ہے کہ ہمارے حق رائے دہی کا ساتھ چھیڑ چھاڑ کیا گیاہے۔ نتیجہ ہماری رائے کے خلاف ایک منصوبہ بند طریقہ سے لایا گیا ہے۔ نتائج آنے کے بعد عوام کا یہ خدشہ اور قوی ہوگیا ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے عوام کے درمیان پائی جانے والی اس بے چینی کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھایاجس سے عوام کا شک دور ہوسکے اور انہیں لگے کہ واقعی یہ انتخاب صاف ستھرے ماحول میں ہوا ہے۔ ای وی ایم ہیک نہیں کی گئی ہے۔ مشینیں بدلی نہیں گئی ہے۔ نتیجہ وہی ہے جو عوام کا تھا ذرہ برابر اس میں ردو بدل نہیں ہوا ہے۔ بہرحال نتائج آچکے ہیں۔ اس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے لیکن کمیشن نے اپنا وقار کھویا ہے۔ ایک آئینی اور خود مختار ادارہ ہونے کا فرض نبھانے قاصر رہا جو جمہوریت میں بہتر نہیں ہے۔

یہ نئی سرکار عوام کیلئے نئی نہیں ہے ۔ 2014 سے بر سر اقتدار ہے۔ 2019 کے عام انتخابات کے دوران تبدیلی کی فضا دکھ رہی تھی لیکن نتائج نے اسے غلط بتایا ۔ عوام کا فیصلہ سامنے آیاکہ نریندر مودی کو ایک مرتبہ اور موقع ملنا چاہیئے ۔ بی جے پی کی حکومت برقرار رہنی چاہیئے۔ شاید عوام کا خیال ہے کہ پانچ سالہ مدت کسی سرکار کے کام کاج کرنے اور اسے پرکھنے کیلئے کافی نہیں ہے۔ اس لئے عوام نے جس کانگریس کو دس سالوں کا موقع دیا تھا۔ 2004 اور 2009 دونوں میں یوپی اے کی سرکار بنی تھی۔ منموہن سنگھ دس سالوں تک وزیر اعظم رہے۔ اسی طرح بی جے پی کو بھی دس سالوں کا موقع دیا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر نریندر مودی ہی وزیر اعظم رہیں گے ۔

عوام کے فیصلہ اور انتخابی نتائج کے بعد بی جے پی کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ گذشتہ پانچ سالوں میں جس طرح کی سیاست ہوئی ہے۔ ہندوستان کا جو ماحول بنا ہوا تھا اسے بھی تبدیل کرنا اولین ذمہ داری ہے۔ 2014 میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد ہندوستان میں نفرت پروان چڑھی۔ محبت کی جگہ نفرت کی سیاست کا غلبہ ہوا۔ بھائی چارے کا خاتمہ ہوا۔ روادای ، تحمل اور برداشت عوام کے درمیان برائے نام بھی باقی نہیں رہا۔ ہندومسلم کی سیاست ہوئی ۔ اقلیتوں کو خوفزدہ کیا گیا۔ مختلف مذاہب کے پرسنل لاء کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش ہوئی ۔ لاء اینڈ آڈر برقرار رکھنے میں سرکار ناکام نظر آئی۔ انتہاء پسندوں، شدت پسندوں اور دہشت گردوں پر لگام کسنے میں سرکار نے دلچسپی نہیں دکھائی۔ کسانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی ہوئی۔ خواتین کے خلاف ریپ اور کرائم کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ غربت اور جہات کی شرح پہلے کے مقابلے میں بڑھ گئی۔ راشٹر واد کومدعابنایاگیا۔ بنیادی ایجنڈوں پر حکومت نے توجہ نہیں دی ۔انتخابات کے دوران بھی عوام کے بنیادی مسائل پر بحث سے گریز کیا گیا۔ اپنے منی فیسٹو کے مطابق حکومت نے زیادہ تروعدوں کو انتخابی منشور کا ہی حصہ رہنے دیا ۔زمینی سطح پر کوئی بھی کام نہیں ہوا۔ ان تمام حقائق کے باوجود عوام نے بی جے پی پر دوبارہ اعتماد کیا ہے۔ انہیں اقتدار سونپا ہے تو اب اسے بھی اپنی پالیسی اور طریقہ کار میں تبدیلی لانی چاہیئے۔

 عوام اب حکومت سے تعمیری کام چاہتے ہیں۔ انہیں روزگار کی ضرورت ہے۔ ملک میں نفرت کی سیاست انہیں پسند نہیں ہے ۔ بھائی چارہ اور روداری کا فروغ ضروری ہے۔ ملک کی ترقی، کامیابی اور بہتری کیلئے گوڈ گورننس ہی واحد حل اور اب یہ بی جے پی کو اگلے پانچ سالوں میں ثابت کرنا ہوگا ۔

آئین اور دستور کی بحالی سب سے اہم ہے۔ بی جے پی پر گذشتہ پانچ سالوں کے دوران آئین تبدیل کرنے اور دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑکرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔ پانچ سالہ ریکاڈ بھی یہی بتاتاہے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں آئین کی دھجیاں اڑائی گئی۔ دستور کی بحالی کے نام پر بی جے پی حکومت نے دستور کے خلاف کام کیا ۔سپریم کورٹ کے فیصلہ کی مخالفت کی۔ آئینی اداروں میں مداخلت کی۔ سی بی آئی ، آر بی آئی ، عدلیہ ، آرمی سمیت متعدد اداروں کی شبیہ بگاڑی گئی ۔عوام کا اعتماد کمزور ہوا ان سب کے باوجود نریندر مودی اور بی جے پی پر عوام نے دوبارہ بھروسہ کیا ہے۔ بی جے پی حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ انسانیت کی بالادستی کو برقرار رکھے۔ آئین اور دستور کی سرکار کو یقینی بنائے۔ انصاف ، مساوات ، آزادی اور تحفظ کو فروغ دے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی اور آر ایس ایس میں اپنی حیثیت منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اب ان کی پارٹی اور تنظیم بھی ایک حیثیت ہے۔ عوام نے بھی ان کی لیڈر شپ پر بھروسہ کرکے اتنا بڑا مینڈیٹ دی ہے۔ انہیں وزیر اعظم بنایا ہے۔ اس لئے ان سے توقعات اور زیادہ وابستہ ہوگئی ہیں۔ اقتصادی، سماجی ، معاشی ، تعلیمی سطح پر ملک کو کامیاب ، ترقی یافتہ ، مضبوط ، محفوظ ، پرامن بنانا ضروری ہوگیا ہے اگر وہ گذشتہ پانچ سالوں کی طرح اس مدت میں بھی ناکام ثابت ہوجاتے ہیں ۔ عوام توقعات پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس پر عمل نہیں کرتے ہیں۔کسی بھی طرح کی تفریق کرتے ہیں تو عوام کا بھروسہ ٹوٹ جائے گا۔ اعتماد مجروح ہوجائے گا اور پھر دوبارہ کبھی بحال نہیں ہوپائے گا۔ کسی بھی لیڈر پر عوام کا یقین کرنا مشکل ہوجائے گا ۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں