ساجد حسین ندوی
رمضان المبارک کا مہینہ گزرگیالیکن جاتے جاتے اس نے تقویٰ وطہارت ، عبادت وریاضت ، عفت وپاکدامنی، ذوق عبادت ، شوق تلاوت ، تزکیہ نفس، توبہ و استغفار، انابت الی اللہ، فکر آخرت ، معاصی ومنکرات سے اجتناب اور رضاءالہی کی جستجوکا درس دے گیا ۔ ہم نے اس ماہ سے جو درس لیا ہے وہ درس زندگی ہے ، جو کچھ عبادتوں اور نیکیوں کا اہتمام ہم نے اس مہینہ میں کیا ہے رب کی منشاءیہ ہیکہ یہی ہماری پوری زندگی بن جائے ، ہروقت تقویٰ وطہارت، عبادت وریاضت اور معاصی ومنکرات سے اجتناب ہمارا شیوہ ہوجائے، ہمارا کوئی بھی قدم حکم خداوندی اور فرمان نبی کے خلاف نہ اٹھے، ہم صحیح معنوں میں”وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون “ کا مصداق بن جائےں ۔ اگر ہم نے پوری زندگی رمضان کے تقاضے کی مطابق گزار لی تو یقین جانئے آخرت کی زندگی عیدکی طرح ہوگی ۔
رمضان کی تمام عنایات وبرکات کے علاوہ اللہ رب العزت نے عید کی رات کو انعام واکرام یعنی لیلة الجائزہ قراردیاہے ، چنانچہ ہمیں اس رات کے فضائل وبرکات سے مستفید ہونے کے لیے ویساہی اہتمام کرنا چاہیے جیساکہ ہم نے رمضان کی راتوں میں کیاتھا۔
عید الفطر اسلام کی طرف سے عطاکردہ خوشی ومسرت کے ان لمحات کانام ہے جسمیں بندہ بارگاہ ایزدی میںسجدہ ریز ہوکر اپنی خوشی کا اظہار کرتاہے۔ ساتھ ہی زبان حال سے یہ پیغام بھی دیتاجاتاہے کہ خوشی کے لمحات میں بھی حق بندی اداکرنا ہمارا طرہ امتیاز ہے جبکہ دوسرے اقوام ایسے مواقع پر نازیبا حرکات ، ناچ گانااور شراب وشباب میں مست ہوکر ہروہ اعمال کرگزرتے ہیں جو سراسر منشاءخداوندی کے خلاف ہوتاہے۔
لفظ عید عاد یعود عودا سے ماخوذ ہے جس کے معنی لوٹنے او رباربار آنے کے ہیں ۔ عید کو عید اس لیے کہاجاتاہے کہ یہ پر مسرت دن باربار لوٹ کرآتاہے اور خوشیوں اور محبتوں کا پیام لاتاہے ۔
اسلام دین فطرت ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام ہراس عمل کو مباح قرار دیتاہے جو فطرت انسانی کے مطابق ہو ۔ اسی طرح خوشی اور مسرت انسانی فطر ت کاخاصہ ہے ، اور اسلام جائز حدود میں رہتے ہوئے انسان کو ہرطرح کی خوشیاںمنانے کی مکمل اجازت دیتاہے۔
انسان ابتدءآفرینش سے ہی خوشیوں کا متلاشی رہاہے ،لیکن خوشیاں بھی دوطرح کی ہوتی ہیں ایک تو انفرادی ، جس میں فرد سے تعلق رکھنے والے کچھ اشخاص شریک ہوکر خوشیاں منالیتے ہیں اوردوسری اجتماعی ،جس میں کسی مذہب یا علاقہ سے وابستہ افراد بحیثیت قوم شریک ہوتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں ۔ اس طرح کی تقریبات جس میں کسی قوم کے افراد اجتماعی طور پر شریک ہوں اور وہ مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے قابل تقلیدہو تو اسی کانام تہوار ہے ۔تہوار مختلف قوموں کی تہذیب ومعاشرت کا آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اسلام کے دوتہوار عید الفطر اور عیدالاضحی اسلامی تہذیب وثقافت، مزاج وحدانیت ، اصول حیات ، تاریخ وروایات اور اسلامی عقائد وتصورات کا آئینہ دار ہیں۔ اگر ہم ان تہواروں کو صحیح طورنبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق منائیں تو اسلام کی روح اور اس کے پیغام کوسمجھنے کے لیے کافی ہے ۔
عید امت محمدیہ کو رمضان المبارک کی برکتوں اور عظمتوں کے طفیل عطاکیا گیا جس میں بندہ رمضان کے تقاضوں کو فرمان خداوندی کے مطابق گزارتاہے ،راتوں کو جاگتاہے ،رب کے سامنے عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتاہے، پل بھر کے لیے بھی رب کی نافرمانی گوارا نہیں کرتاہے، ایسے ہی بندو ں کے لیے اللہ بطور انعام عید کاتحفہ عطافرمایا ہے ،عید کی اصل خوشی انہی لوگوں کے لیے ہے۔
نعمتیں مخصوص ہیں سب متقی کے واسطے
زندگی اک اور بھی ہے آدمی کے واسطے
ہوگیا گر حق شناسا کوئی جو رمضان میں
عید لکھی ہے خدانے بس اسی کے واسطے
عید الفطر کا اصل پیغام کو سناتے ہوئے علامہ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ رقمطراز ہیں۔
”اب ضرور ت ہے کہ ہم مسلمان اپنے دین پر از سرنو قائم وپختہ ہوں ، اس دین کا ایسا مظاہرہ کریں اور دین کا ایسانمونہ دنیا والوں کے سامنے لائیں کہ دنیا کی بھی عید ہوجائے ، بہت دن سے دنیا کی عید نہیں ہوئی ہے ، دنیا حقیقی عید سے محروم ہے ، صدیوں سے دنیا کی عید نہیں ہوئی ، دنیا حقیقی عید کو ترس رہی ہے ،نہ امن ہے نہ اخلاق، نہ انسانیت ہے نہ شرافت، نہ قدر شناسی ہے نہ خدمت کا جذبہ ، نہ خداکی یادہے نہ خداکی شناخت اورنہ پہچان ہے ، کہاںکا تہوار، سارے تہوار بچوں کے سے کھیل ہیں جیسے بچوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ، کھیلیں کودیں ، کھائیں پئیں اور خوش وخرم رہیں، کچھ فکر نہیں ، ایسی ہی دنیا کی قومیں بچوں کی طرح خوشیاں منارہی ہیں ، لیکن حقیقی خوشی نصیب نہیں ، آج دنیا کو عالمی سطح پر ایک عید کی ضرورت ہے ، وہ عید مسلمانوں کی کوشش سے ہی آسکتی ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ مسلمان خود اپنی عید کاشکر صحیح طریقہ پر ادانہیں کرپاتے ، اور اس کے معنی صحیح طور پر نہیں سمجھتے آپ جہاں رہیں ثابت کریں کہ آپ کوئی اور قوم ہیں ، افسوس سب ایک جیسے ہوگئے ہیں ۔ رشوت ، سود ،مال ودولت اور آرام طلبی میں سب یکساں ہیں ، حالانکہ مسلمان ایسانہیں ہوسکتا۔ تم حقیقی مسلمان بنوگے اللہ سے ڈروگے تو اللہ تمہیں شان امتیازی عطافرمائے گا، دور سے پہچانے جاو¿گے۔ دیکھو مسلمان آرہاہے ۔ یہ حالت قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی تھی جنہیں دیکھکر ملک ملک مسلمان ہوجاتاتھا“
ہمیں عید کے اصل پیغام کو سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارناچاہیے۔یہی عید الفطر کااصل پیغام ہے ۔
sajidhussainandwi@gmail.com