آخری عشرہ میں خاص کر طاق راتوں میں نماز تہجد پڑھنے کا اہتمام کریں

محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض
ماہ رمضان خاص کر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہمیں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری) مذکورہ حدیث کے مطابق شب قدر کی تلاش ۲۱ ویں، ۲۳ ویں، ۲۵ ویں، ۲۷ ویں، ۲۹ ویں راتوں میں کرنی چاہئے۔ ہزار مہینوں کی عبادت کرنے سے افضل اس ایک رات (شب قدر) میں عبادت کرنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) کھڑے ہونے کا مطلب: نماز پڑھنا، تلاوت قرآن اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہونا ہے۔ ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ خالص اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے عمل کیا جائے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں خاص کر طاق راتوں میں نماز تہجد پڑھنے کا اہتمام کریں۔
ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز عشا کے بعد بیس تراویح کی ادائیگی کے بعد آدھی رات کو نماز تہجد اور تین رکعات وتر جماعت کے ساتھ ادا کئے جاتے ہیں۔ سعودی عرب کی دیگر مساجد میں نماز عشا کے بعد آٹھ رکعات تراویح کی ادائیگی کے بعد آدھی رات کو نماز تہجد اور تین رکعات وتر جماعت کے ساتھ ادا کئے جاتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کے قول وعمل اور صحابۂ کرام کے عمل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ نماز تہجد اصل میں انفرادی نماز ہے، لیکن نفل ہونے کی وجہ سے نماز تہجد کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ نماز تہجد پورے سال پڑھی جانے والی نماز ہے، لیکن ہمیں کم از کم رمضان کے آخری عشرہ خاص کر طاق راتوں میں چند رکعات پڑھنے کا ضرور اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ حضور اکرم ﷺ نماز تہجد کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ سورۃ المزمل میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ نبی دو تہائی رات یا کبھی آدھی رات یا کبھی ایک تہائی رات روزانہ نماز تہجد پڑھا کرتے ہیں۔ آپ ﷺ آخری عشرہ میں اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔ اعتکاف کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد شب قدر کی عبادت کو حاصل کرنا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات میں ہے کہ وتر رات کی آخری نماز ہونی چاہئے، جو حضرات نماز تہجد کے اہتمام کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں ان کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نماز تہجد کی ادائیگی کے بعد آخر میں نماز وتر کی ادائیگی کریں لیکن اگر نماز تہجد کے لئے جاگنا یقینی نہیں ہے تو سونے سے قبل وتر پڑھ لیں اور پھر اگر اللہ تعالیٰ تہجد میں اٹھنے کی توفیق دے تو ضرور نماز تہجد کی چند رکعات ادا کرنی چاہئے خواہ نماز وتر کی ادائیگی سونے سے قبل ہی کرچکے ہوں۔
ابتداء اسلام میں پانچ نمازوں کی فرضیت سے قبل تک نماز تہجد حضور اکرم ﷺ اور تمام مسلمانو ں پر فرض تھی، چنانچہ آپﷺ اور صحابۂ کرام رات کے ایک بڑے حصہ میں نماز تہجد پڑھا کرتے تھے۔ پانچ نمازوں کی فرضیت کے بعد نماز تہجد کی فرضیت تو ختم ہوگئی مگر اس کا استحباب باقی رہا، یعنی اللہ اور ا س کے رسول نے بار بار امت مسلمہ کو نماز تہجد پڑھنے کی ترغیب دی، چنانچہ قرآن کریم میں فرض نماز کے بعد نماز تہجد ہی کا ذکر متعدد مرتبہ آیا ہے۔ علماء کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ پانچ نمازوں کی فرضیت کے بعد نماز تہجد عام مسلمانوں کے لئے تو فرض نہ رہی لیکن حضور اکرم ﷺ پر آخری وقت تک فرض رہی۔
تہجد میں حضور اکرم ﷺ کا زیادہ تر عمل آٹھ رکعت نفل اور تین رکعت وتر پڑھنے کا تھا، البتہ کبھی کبھی کم یا اس سے زیادہ بھی پڑھتے تھے۔ قرآن کریم میں فرض نماز کے بعدجس نماز کا ذکر تاکید کے ساتھ بار بار کیا گیا ہے وہ تہجد کی نماز ہی ہے جو تمام نوافل میں سب سے افضل نماز ہے۔ ارشاد باری ہے: وہ لوگ راتوں کو اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے رب کو عذاب کے ڈر سے اور ثواب کی امید پر پکارتے رہتے ہیں (یعنی نماز، ذکر اور دُعا میں لگے رہتے ہیں) (سورۃ السجدہ ۱۶) یہ ان کی صفت اور عمل ہے لیکن جزا اور بدلہ عمل سے بہت زیادہ بڑا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا جو سامان خزانہ غیب میں موجود ہے اسکی کسی شخص کو بھی خبر نہیں۔ یہ ان کو ان اعمال کا بدلہ ملے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ (سورۃ السجدہ ۱۷) ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رحمن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی (عاجزی) کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔ اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں۔ (سورۃ الفرقان ۶۴) اس کے بعد سورہ کے اختتام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہی لوگ ہیں جنھیں ان کے صبر کے بدلے جنت میں بالا خانے دئے جائیں گے۔ ۔۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وہ لوگ رات میں بہت ہی کم سویا کرتے تھے (یعنی رات کے اکثر حصہ میں عبادت میں مشغول رہتے تھے) اور شب کے آخری حصے میں استغفار کیا کرتے تھے۔ (سورۃ الذاریات ۱۷۔۱۸)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی ہے یعنی تہجد (جو رات کے آخری حصہ میں ادا کی جاتی ہے)۔ (مسلم) حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور راتوں میں ایسے وقت نمازیں پڑھو جبکہ لوگ سورہے ہوں، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آدمی رات میں اپنے گھر والوں کو جگاتا ہے اور میاں بیوی دونوں تہجد کی (کم از کم) دو رکعت پڑھ لیتے ہیں تو ان دونوں کا شمار ذکر کرنے والوں میں ہوجاتا ہے۔ (ابوداود) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رات کو قیام فرماتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔ میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردئے گئے ہیں(اگر ہوتے بھی)، پھر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں اپنے پروردگار کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (بخاری)
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ تمام ابنیاء ورسل کے سردار، کائنات میں سب سے افضل واعلیٰ بشر اور قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے نبی حضور اکرمﷺ کی نبوت کے بعد کی زندگی کا وافر حصہ نماز میں گزرا ۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم ( سورۃ المزمل) میں بیان کیا ہے کہ نبی دو تہائی رات یا کبھی آدھی رات یا کبھی ایک تہائی رات روزانہ نماز تہجد پڑھا کرتے تھے۔ ساری انسانیت کے نبی حضور اکرم ﷺ کا نماز کے ساتھ جو گہرا تعلق تھا اور نمازمیں جو آپ ﷺ کی حالت اور کیفیت ہوا کرتی تھی، اُس کا اندازہ سیرت کی کتابوں سے ادنی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی کرسکتا ہے کہ حضور اکرمﷺراتو ں کو کتنی لمبی لمبی نمازیں ادا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا پیار بھرا خطاب حضور اکرم ﷺ سے ہے کہ آپ رات کے بڑے حصہ میں نماز تہجد پڑھا کریں: (اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑکر باقی رات میں (عبادت کے لئے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ یا آدھے سے کچھ کم یا اُس سے کچھ زیادہ اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو)۔ ( سورۃ المزمل:۱۔۴) اسی طرح سورۃ المزمل کی کی آخری آیت میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: (اے پیغمبر!) تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لئے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں (صحابۂ کرام) میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺرات کو قیام فرماتے یعنی نماز تہجد ادا کرتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔ (صحیح بخاری) ذاتی تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دو گھنٹے نماز پڑھنے سے پیروں میں ورم نہیں آتا ہے بلکہ رات کے ایک بڑے حصہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے، طویل رکوع اور سجدہ کرنے کی وجہ سے ورم آتا ہے، چنانچہ سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران جیسی لمبی لمبی سورتیں آپﷺ ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے اور وہ بھی بہت اطمینان وسکون کے ساتھ۔ سورۃ المزمل کی ابتدائی آیات، آخری آیت، مذکورہ حدیث اور دیگر احادیث سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپﷺ رات کا دو تہائی یا آدھا یا ایک تہائی حصہ روزانہ نماز تہجد پڑھا کرتے تھے۔اس فرمان الہی سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیمات تمام رسل وانبیاء کرام کے سردار وتاجدار مدینہ حضور اکرم ﷺ کے متعلق یہی تھیں کہ آپ نماز سے اپنا خاص تعلق وشغف رکھیں۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ کے ارشادات بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں۔
حضرت عطاء ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ حضور اکرم ﷺ کی کوئی عجیب بات جو آپ نے دیکھی ہو وہ سنادیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ کی کون سی بات عجیب نہ تھی۔ ایک رات میرے پاس تشریف لائے اور میرے ساتھ میرے لحاف میں لیٹ گئے، پھر فرمانے لگے: چھوڑو، میں تو اپنے رب کی عبادت کروں۔ یہ فرماکر بستر سے اٹھے، وضو فرمایا پھر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور رونا شروع کردیا یہاں تک کہ آنسو سینہ مبارک تک بہنے لگے۔ پھر رکوع فرمایا، اُس میں بھی اسی طرح روتے رہے۔ پھر سجدہ فرمایا، اس میں بھی روتے رہے، پھر سجدہ سے اٹھے اور اسی طرح روتے رہے یہاں تک کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز کے لئے آواز دی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اتنا کیوں رو رہے ہیں جب کہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ (اگر ہوتے بھی تو) اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادئے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو کیا پھر میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اور میں ایسا کیوں نہ کروں جب کہ آج رات مجھ پر (اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالارْضِ وَاخْتِلافِ اللَّےْلِ وَالنَّھَارِ لآےَاتٍ لأوْلِی الْاَلْبَاب۔۔ اَلَّذِےْنَ ےَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِےَاماً وَّقُعُوداً وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ) سے سورہ آل عمران کے ختم تک کی آیات نازل ہوئی ہیں۔ (صحیح ابن حبان )
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات‘ میں حضور اکرم ﷺ کے پاس سے گزرا۔ آپ ﷺ مسجد میں (نفل) نماز پڑھ رہے تھے۔ میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے کھڑا ہوگیااور مجھے یہ خیال تھا کہ آپ ﷺ کو یہ معلوم نہیں کہ میں آپ کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے سورۃ البقرہ شروع فرمائی۔ میں نے (اپنے دل میں کہا) کہ سو آیتوں پر رکوع فرمائیں گے لیکن جب آپ ﷺ نے سو آیتیں پڑھ لیں اور رکوع نہ فرمایا تو میں نے سوچا کہ دو سو آیتوں پر رکوع فرمائیں گے مگر دو سو آیتوں پر بھی رکوع نہ فرمایا تو مجھے خیال ہوا کہ سورہ کے ختم پر رکوع فرمائیں گے۔ جب آپ ﷺ نے سورہ ختم فرمادی تو اَللّٰھُمَّ! لَکَ الْحَمْدُ، تین مرتبہ پڑھا۔ پھر سورۂ آل عمران شروع فرمائی تو میں نے خیال کیا کہ اس کے ختم پر تو رکوع فرما ہی لیں گے۔ حضور اکرم ﷺ نے یہ سورہ ختم فرمائی لیکن رکوع نہیں فرمایااور تین مرتبہ اَللّٰھُمَّ! لَکَ الْحَمْدُ، پڑھا۔ پھر سورۂ مائدہ شروع فرمادی۔ میں نے سوچا کہ سورہ مائدہ کے ختم پر رکوع فرمائیں گے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے سورہ مائدہ کے ختم پر رکوع فرمایا تو میں نے آپ ﷺ کو رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعْظِیم پڑھتے سنا اور آپ اپنے ہونٹوں کو ہلارہے تھے(جس کی وجہ سے) میں سمجھا کہ آپ ﷺ اس کے ساتھ کچھ اور بھی پڑھ رہے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے سجدہ فرمایا اور میں نے آپ ﷺ کو سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الاعْلٰی پڑھتے سنااور آپ اپنے ہونٹوں کو ہلارہے تھے(جس کی وجہ سے) میں سمجھا کہ آپ ﷺ اس کے ساتھ کچھ اور بھی پڑھ رہے ہیں جس کو میں نہیں سمجھ رہا تھا۔ پھر (دوسری رکعت میں ) سورۂ اَنعام شروع فرمائی تو میں آپ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے چھوڑکر چلا گیا،کیونکہ میں مزید رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کی ہمت نہ کرسکا۔ (مصنف عبدالرزاق)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات‘ میں حضور اکرم ﷺ کے ہمراہ نماز (تہجد) پڑھنے لگا، آپ ﷺنے اتنا لمبا قیام فرمایا کہ میرے دل میں ایک غلط چیز کا خیال آنے لگا۔ پوچھا گیا کہ کس چیز کا خیال آنے لگا۔ تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خیال آیا کہ بیٹھ جاؤں یا نماز کو چھوڑ دوں کیونکہ میں حضور اکرمﷺ کے ساتھ اتنی لمبی نماز پڑھنے کی ہمت نہیں کرپارہا تھا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عبد اللہ بن شخیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ ﷺ کے سینہ مبارک سے رونے کی ایسی مسلسل آواز آرہی تھی جیسے چکّی کی آواز ہوتی ہے۔ (ابوداود ) وضاحت: حضور اکرم ﷺ اپنی نفل نماز میں قیام، رکوع اور سجدے بہت لمبے لمبے کیا کرتے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت بھی بہت اطمینان سے کیا کرتے تھے حتی کہ آپ ﷺ کے پاؤں مبارک پر ورم آجاتا مگر جماعت کے ساتھ آپ مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے زیادہ لمبی نماز نہیں پڑھاتے تھے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم ماہ مبارک کے آخری عشرہ کی بابرکت راتوں کی قدر کریں، شاپنگ وغیرہ میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں اور ان مبارک راتوں میں نماز تراویح کے ساتھ نماز تہجدپڑھنے کا ضرور اہتمام کریں۔(ملت ٹائمز)

SHARE