محمد ضیاء الحق
ملک میں جس طرح کا ماحول بنایا جارہے اس سے مسلمانوں میں بہت تیزی کے ساتھ مایوسی پیداء ہورہی ہے اور ہندوستانی مسلمان مسلسل مظلوم بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن مسلمان اللہ کی ذات پے ہمیشہ یقین رکھتاہے کہ حالات ایک نہ ایک دن بہتر ہوگا اور مسلمان کو مظلومیت کی زندگی سے آزادی ملےگی ؛ لیکن دنیا دارالاسباب ہے جب تک اسباب کو اختیار نہیں کیا جائے تو حالات بھی نہی بدل سکتا اور ہمیں یہ تعلیم بھی دیا گیا ہے کہ اسباب کو پہلے اختیار کرو اور پھر اللہ تعالی سے مدد کیاجائے ۔ ملک میں آئے دن مسلمانوں کو چن کر مارا جارہاہے یہ سلسلہ چند سالوں سے کچھ زیادہ ہی شروع ہو گیاہے ۔ اخلاق سے شروع ہوا اور ابتک سینکڑوں جانے جاچکی ہے لیکن حکومت ان لوگوں پے لگام نہیں لگا رہی ہے ہر ایک موت کے بعد صرف ایک مذمتی بیان دےدیا جاتا ہے اور ملی تنظیموں کے ذمہ دار شاید سوچتے ہیں کہ ہمارا حق ادا ہو گیا؟ لیکن کیا اتنے مذمتی بیان دئے گئے حالات بہتر ہو گیا اتنے بڑے بڑے عید ملن کے تقریب منعقد کیئے گئے تو کیا حالات بدل گئے تو ہمیں جواب جو ملے گا مظلوم مسلمانوں کے طرف سے وہ نفی میں۔ جب مسلمان تڑپ تڑپ کے مرنے پر مجبور ہے تو کیوں نہیں مسلمان حضرت ٹیپو سلطان کے اس آخری جملے پے آج غور کرے کہ ؛ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ مسلمان جب دنیا میں زندہ رہے تو غازی بن کر اور جب مرے تو شہید ہوکر۔ اس لئے اب صرف مذمتی بیان دینے سے مسلم قائدین اور ملی تنظیموں کی ذمہ داری ختم نہی ہو جائے گی۔ اس لیے اب کھل کر میدان عمل میں آنا ہوگا۔ ملک میں جتنی تنظیمں ہیں اور خاص کر ملک کی فعال تنظیمیں جیسے (جمیعت علماء ہند اور مسلم پرسنل لاء بوڈ اور جماعت اسلامی ہند) ان تمام کے ذمہ داروں کی خدمت میں ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ان حالات پے قابو پانے کے لیئے جلد سے جلد ہنگامی میٹنگ طلب کیا جائے اور یہ قرار داد پاس کیا جائے کہ ملک کے مختلف حصوں میں ایک اس طرح کا احتجاج بلند ہو کے جس کا اثر حکومت پے پڑے ملک کے قوانین کی پاسداری کر تے ہو اور کسی کو نقصان پہنچائے بغیر۔
1- ملک کے بڑے بڑے شہروں میں تڑین کے پٹریوں پے بیٹھ کر ٹرین کو روکا جائے
2 – اور اسی طرح ملک مختلف شہروں کے بس اڈوں پے احتجاج بلند کیا جائے
3 – اور ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ایک اجلاس منعقد کیا جائے جیسے پٹنہ کے گاندھی میدان میں اور کولکاتہ میں حیدرآباد میں اور بھوپال میں اور یوپی میں اور عوام کے ایک جم غفیر کو مدعو کیاجائے اور اس اجلاس کے ذریعہ صوبے کے سرکار کو اور موجودہ حکومت کو صاف لفظوں میں پیغام دیا جائے کہ مسلمانوں پے ہو رہے ظلم کو روکا جائے اور ظالموں کو سزاء دی جائے۔ مسلمان مسلسل صبر کرتا ہوا آرہا ہے اور اب پانی سر سے اونچا ہو رہاے ملک کا مسلمان امن پسند ہے اور اس ملک میں امن سے رہنا چاہتاہے اس لیئے ہمیں امن سے رہنے دیاجائے اور ظلموں تشدد کو روکا جائے ورنہ ہم اپنی حفاظت کرنا ملک کے قوانین کئے دائرے میں رہتے ہوئے اچھی طرح سے جانتے ہیں یہ پیغام دیاجائے؛ اور ایک اجلاس دلی کے رام لیلا میدان میں کر کے ملک ذمہ دار حضرات اور ملی تنظیموں کے ذمہ دار حضرات ملک کے وزیر داخلہ سے اور صدرجمہوریہ سے اور وزیر اعظم سے ملکر بھی اپنا غم اور غصے کا اظہار کیا جائے اور حالات پے قابو پانے کیلیئے سر کا محبور کیا جائے ۔ تب تو کچھ اللہ تعالی امید ہے کے حالات خوش گوار ہونگے اگر ان چند نکات پے عمل کیا جائے تو انشاءاللہ ۔ ورنہ صرف مذمتی بیان اور خالی احتجاج کر نے سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔