نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندوستانی جمہوریت بہت عظیم اور متعدد خوبیوں کی حامل ہے ۔ جمہوری نظام ہی دنیا میں سب سے مقبول اور بہتر ہے ۔ گزشتہ سترسالوں سے ہندوستان میں بھی جمہوری نظام رائج ہے اور اسے مزید مضبوط بنانا، قائم رکھنا ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے اور تمام شہریوں کی یہ ذمہ داری بھی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی گزشتہ دنوں ”من کی بات“ پروگرام میں ہندوستانی جمہوریت کا تذکر ہ کرتے ہوئے کہاکہ” ہندوستان کی جمہوریت بہت عظیم ہے اور یہاں کے عوام کے رگوں میں سمائی ہوئی ہے “۔
قابل مبارکباد ہیں وہ تمام لوگ جنہوں نے ہندستان کا آئین مرتب کیا اور اس ملک کو ایک جامع ،مستحکم اور لچکدار آئین دیا جس کی بنیاد میں انصاف ،مساوات ،آزادی اور تحفظ شامل ہے۔ کسی بھی معاشرہ کی کامیابی ،اس کی بھلائی اور بہتری کیلئے مذکورہ چاروں امور ضروری ہیں اور ہندوستان کے آئین میں ان چاروں مقدمات کا تفصیل سے ذکر موجود ہے ۔
کسی بھی ملک اور ریاست میں جمہوریت کو برقرار رکھنے ،اسے مضبوط کرنے اور عوام کی رگوں میں پیوست کرنے کیلئے جمہوریت کی روح کو پروانا چڑھانا اور اسے عام کرنا ضروری ہے۔ جب جمہوریت کی روح ہرجگہ سرایت کرجاتی ہے۔ ملک کا مزاج جمہوریت کو قبول کرلیتا ہے تو پھر اس کے نتیجے میں تین چیزیں پیدا ہوتی ہیں ۔
(۱) دستور کی روح پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ دستور کو نافذ کرنے ،اس پر عمل کرنے اور دستوری زندگی گزارنے کا مزاج بنتاہے ۔ عوام کے ذہنوں میں یہ خیال رچ بس جاتاہے کہ دستور ہمارے لئے اہم ہے۔ ہماری کامیابی ، مستقبل کی بھلائی اور ملک کی بہتری کیلئے دستور اور اس پر عمل ہی سب کچھ ہے ۔ اگر دستور ختم ہوجاتا ہے ، اس میں کسی طرح کی غیر ضروری تبدیلی کی جاتی ہے تو پھر یہیں سے جمہوریت کی اہمیت کم ہوجاتی ہے ۔
(۲) دوسری چیز دستور سے ماخوذ قانون کا احترام ہے ۔ جب تک دستور کی روح باقی رہتاہے قانون کا احترام اور خلاف ورزی کی صورت میں اس کا خوف باقی رہتاہے ۔ نسل ذات، مذہب اور خاندان سے بالاتر ہوکر قانون کا احترام دلوں میں موجزن ہوتاہے ۔ ایک شہری خاندان ، حسب ونسب، رشتہ داری اور تمام چیزوں سے اوپر اٹھ کر قانون کی بالادستی کو سب سے اہم سمجھتا ہے تو اس کے نتیجے میں مثبت اور مناسب کام انجام پاتے ہیں۔ غلط کاموں سے آدمی احتراز کرتاہے ۔
(۳) تیسری چیز قانون کا خوف ہے ۔قانون کا خوف شہریوں کو غلط قدم اٹھانے پر مانع اور روکاٹ بنتاہے ۔ آئین اور دستوری کی خلاف ورزی کے وقت قانون میں تجویز کی گئی سزا کا خوف پیدا ہوتاہے اور پھر انسان خود کے ایسے خلاف قانون امور سے دور رکھتاہے۔ملک کی ترقی کیلئے وہ غیر قانوی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتا ہے ۔ اس کے دل میں یہ خوف اور ڈر ہوتاہے کہ اگر اس نے خلاف قانون کسی طرح کی سرگرمی میں حصہ لیا تو اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا ۔ اس کے ذہن ودماغ میں یہ بات بھی رہتی ہے کہ قانون کی نظر میں سبھی برابر ہیں ۔ کسی کو کسی طرح کی کوئی رعایت اور چھوٹ نہیں ملتی ہے ۔یہاں کوئی بھی بڑا اور چھوٹا نہیں ہوتا ہے ۔ ایسے احساسات جنم لینے کے بعد ملک اور معاشرہ سے برائیاں ختم ہوتی ہیں ۔ کرائم اور جرائم میں کمی ہوتی ہے ۔ برائیاں کم ہوجاتی ہیں ۔ امن وسلامتی کو فروغ ملتا ہے ۔ بھائی چارہ میں اضافہ ہوتاہے ۔ آپسی تعلقات پروان چڑھتے ہیں ۔ مذہب، ذات ، نسل اور قبیلہ سے اوپر اٹھ کر انسان قانون کے مطابق شب وروز زندگی بسر کرتا ہے ۔ اس کے برعکس جب عام شہریوں میں یہ احساس پیدا ہوجاتاہے کہ قانون میں بھید بھاﺅ ہے ۔ سبھی کیلئے برابر نہیں ہے ۔ معاشی طاقت ،سیاسی اثروروسوخ اور سماجی پکڑ کا قانون پر اثر ہوتا ہے ۔ جس کی جتنی رسائی ہوتی ہے قانون میں اسے اتنا ہی رعایت مل جاتی ہے ۔ تعلقات ، سیاسی اثر و رسوخ ، رشتہ داری اور دیگر کئی طرح کی پشت پناہی کی وجہ سے جرم کے باوجود قانون کے ہاتھ لگنا ممکن نہیں ہوتا ہے تو پھر معاشرہ میں جرائم اور کرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے ۔ امن وسلامتی کا فقدان ہوجاتاہے۔ شہری خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے کی وجہ سے جرائم کے عادی ہوجاتے ہیں اور ایسے عناصر معاشرے کی سلامتی اور خوشحالی کے بجائے صرف اپنی غنڈہ گردی اور دادا گیری پر یقین رکھتے ہیں۔ سیاسی روٹی سیکنے کیلئے کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں ۔ اعلی منصب پر فائز حکمرانوں کی پشت پناہی کی وجہ سے بے خوف ہوکر جرائم کی ورادات انجام دینے لگتے ہیں جس سے پور ا معاشرہ بی طرح متاثر ہوجاتا ہے ۔ امن و سلامتی کا فقدان ہوجاتاہے ۔ خانہ جنگی کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں ۔ نفرت پھیل جاتی ہے ”جس کے ہاتھ میں لاٹھی اس کی بھینس “والی کہاوت معاشرہ کی تصویر بن جاتی ہے ۔ پسماند ہ طبقات اور مخصو ص مذاہب کے ماننے والے ہدف بن جاتے ہیں ۔ انہیں مختلف بہانوں کی بنیاد پر نشانہ بنایاجاتاہے ۔ قانون کی گرفت اور پکڑ کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ مظلوں ،کمزوروں اور ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے خلاف تمام حدیں پارکردیتے ہیں ۔اقتدار کی پشت پناہی کی وجہ سے یہ ہر طرح کی کاروائی سے خودکو آزاد سمجھ لیتے ہیں اور کرائم پر کرائم کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ سامنے یہ آتاہے کہ ملک میں بدامنی پھیل جاتی ہے ۔ کرائم اور جرائم میں ملوث گروپ بہت مضبوط اور طاقتور ہوجاتاہے ۔ ایک دن ایسا آتاہے کہ یہ گروپ ان کے خلاف بھی طاقت آزمائی شرو ع کردیتاہے جن کی انہیں پشت پناہی حاصل ہوتی ہے اور پھر خانہ جنگی، بدامنی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ حکومت ،انتظامیہ اور عدلیہ سے عوام کا اعتماد مجروح ہوجاتاہے۔ اسے بحال کرنااور دوبارہ اعتماد کرنا مشکل ہوجاتاہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ انتظامیہ مجرموں کے خلاف ایکشن نہیں لیتی ہے۔ پسماندہ طبقات اور مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے خلاف ظلم کرنے کو اہمیت نہیں دیتی ہے بلکہ قانون کی گرفت سے آزادی کا پیغام دیکرعادی مجرم بنادیتی ہے اور پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جس کے شکار خود یہی لوگ ہوجاتے ہیں ۔
موجودہ دور میں مجرموں کی پشت پناہی ہورہی ہے ۔ بے گناہوں کو جیل کی سلاخوں میں بند کیا جارہا ہے ۔ ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر قتل کیا جارہاہے ۔روزگا ر سے محروم کیا جارہا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں دیا جارہا ہے ۔ عصبیت اور مذہبی امتیاز کی یہ بدترین مثال ہے ۔ یہ جمہوریت کے بالکل خلاف ہے ۔ان تمام حقائق کی بنیاد پر جمہوریت کیسے مضبوط ہوگی ۔ یہ دعوی کیسے کیا جاسکتاہے کہ ہندوستانی جمہوریت بہت عظیم ہے ۔ کیا قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کے خلاف ایکشن نہ لینے سے ملک کی ترقی ممکن ہے۔ کیا قانون کا احترام نہ کرنے والے گروہ کی پشت پناہی کرکے ملک میں سلامتی کی بحالی ہوسکتی ہے ۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایک گروپ خود کو قانون سے بالاتر سمجھے اور ایک چھوٹا سے گروپ تحفظ کیلئے خوف زدہ رہے اور وہ ملک ترقی کرجائے ؟۔ ملک بھر میں جاری تشدد ، ہنگامہ اور ہجومی تشدد کے واقعات کے درمیان یہ ممکن ہے کہ بھائی چارہ قائم ہوجائے ؟۔ امن پیدا ہوجائے ؟اور خوشحالی آجائے؟ ۔ کثرت میں وحدت پیدا ہوجائے ؟۔ ایسے تمام سوالوں کا جواب نفی میں آئے گا اور ملک کی کثرت میں وحدت والی خصوصیت بحال ہونے کے بجائے پامال ہوجائے گی ۔
جمہوریت کی مضبوطی ،اس کی کامیابی ،عوامی اعتماد اور ملک کی ہمہ جہت ترقی کیلئے ضروری ہے کہ قانون میں کسی طرح کا بھید بھاؤ نہ ہو ۔ تمام شہریوں کیلئے اس کی حیثیت یکساں ہو۔ قانون کی نظر میں کوئی چھوٹا اور بڑا نہ ہوا ۔جرم میں ملوث پائے جانے کے بعد بلاکسی نسلی ، علاقائی ، مذہبی ، لسانی اور خاندانی امتیاز کے سزا کا حقدار ٹھہرایا جائے ۔
(کالم نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )