افغانستان کے تقریباً سبھی سیاسی و مذہبی حلقوں کی طالبان کے ساتھ امن سمٹ اتوار سات جولائی کو ہو گی۔ دوسری جانب امریکی صدر نے افغانستان سے اپنی فوج میں بتدریج کمی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت میں ہونے والی دو روزہ سمٹ طالبان کی شرط پر ہو رہی ہے اور اس میں کابل حکومت کا وفد شریک نہیں ہو گا۔ اس کانفرنس کے انعقاد میں جرمنی اور قطر پیش پیش ہیں۔ سات جولائی کی امن کانفرنس کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا اور طالبان کے دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں۔ طالبان جاری مذاکراتی عمل کو انتہائی اہم اور حساس قرار دے چکے ہیں۔
سات جولائی سے شروع ہونے والی دو روزہ میٹنگ میں افغانستان سے چالیس اہم سیاسی و مذہبی شخصیات اور مختلف حلقوں کے سرگرم کارکن شریک ہوں گے۔ یہ بات طے ہے کہ اس میں کوئی حکومتی کارندہ شامل نہیں ہو گا۔ ان چالیس افراد کی فہرست کے بارے میں ابھی کوئی واضح تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔ ان افراد کو جرمن اور قطری مصالحت کاروں نے مدعو کیا ہے۔
جرمنی کے افغانستان اور پاکستان کے لیے مقرر خصوصی مندوب مارکوس پوٹزیل کا کہنا ہے کہ امن میٹنگ میں چالیس افراد اپنی ذاتی حیثیت میں برابری کی بنیاد پر شامل ہوں گے۔ قبل ازیں رواں برس اپریل میں ایسی ہی ایک کانفرنس ناکامی سے ہمکنار ہو چکی ہے۔ کابل حکومت نے اپریل کی میٹنگ میں ڈھائی سو افراد پر مشتمل وفد بھیجنے کا اعلان کیا تھا اور یہ بات طالبان کی ناراضی کا باعث بنی تھی۔
اسی ویک اینڈ پر ہونے والی امن کانفرنس میں جرمنی کی آزاد غیر حکومتی اور غیر منافع بخش تنظیم بیرگ ہوف فاؤنڈیشن کے مبصرین اور مصالحت کار بھی شریک ہوں گے۔ اس تنظیم کے پیشہ ورانہ ماہرین کا کردار معاونت کا ہو گا جب کہ یہ دو روزہ کانفرنس کلی طور پر چالیس افغان معتبرین اور طالبان کے درمیان امن معاملات کے تناظر میں ہوگی۔