حقوق انسانی کے عظیم محافظ اور انسانی مساوات کے بہترین داعی تھے امام علی  دہلی میں جاری امام علی بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے دن دانشوروں کا اظہار خیال 

نئی دہلی: (پریس ریلیز) دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں جاری امام علی بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے دن ملک بھر کے دانشوروں نے حضرت علی کی زندگی اور انسانوں کے لئے ان کی تعلیمات پر گفتگو کی۔ کانفرنس کے دوسرے دن کے اجلاس دو الگ الگ آڈیٹوریم میں شروع ہوئے۔ ایک آڈیٹوریم میں اردو،عربی اور فارسی زبان کے مقالے پیش کئے گئے جبکہ دوسرے آڈیٹوریم میں انگریزی زبان میں مقالے پڑھے گئے۔ کانفرنس کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہال کھچاکھچ بھرے رہے۔ 

مقررین نے حضرت علی کی زندگی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا انسانوں کو آج جس بحران کا سامنا ہے اس سے نمٹنے کے لئے حضرت علی کی تعلیمات بہترین رہنما ثابت ہوسکتی ہیں۔ مقررین نے کہا کہ حضرت علی کا دورِ خلافت انسانوں کے درمیان مساوات کا بہترین نمونہ ہے جس میں ریاست، سماج کے ہر فرد کے حقوق کے تحفظ کے لئے سینہ سپر نظر آتی ہے۔ حضرت علی کے ذریعہ اپنے عاملوں کو لکھے گئے خطوط میں اس بات کی جھلک ملتی ہے کہ ایک حاکم کو رعیت کے ساتھ انصاف اور جوابدہی کا کیسا معاملہ کرنا چاہئے؟۔ 

مقررین نے حضرت علی پر بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کو وقت کی ضرورت کے عین مطابق بتایا اور کہا کہ حضرت علی کی شخصیت کو مخصوص مذہب یا مسلک کے نقطہ نظر سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ اگر ایک منتظم، معلم،مدبر، حقوق انسانی کے محافظ اور انسانی مساوات کے داعی کے طور پر دیکھا جائے تو دنیا کو بہت روشنی مل سکتی ہے۔

معروف مورخ پروفیسر سید محمد عزیز الدین حسین ہمدانی نے نہج البلاغہ کے نسخوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت علی کی شہادت کی اتنی لمبی مدت بعد نہج البلاغہ کیوں تدوین ہوئی؟۔ پرفیسر عزیز الدین حسین نے کہا کہ اس کی وجہہ اس دور کے سیاسی حالات تھے۔ بنو عباس کی حکومت میں یہ ممکن نہیں تھا کہ حضرت علی کے آثار کی تدوین کا کام کیا جا سکے۔ جب بنو عباس کی حکومت کی چولیں ہلنے لگیں تب کہیں جاکر سید رضی کے ہاتھوں یہ کام انجام پا سکا۔ پروفیسر عزیز الدین نے کہا کہ یہی وجہہ ہے کہ نہج البلاغہ کے قدیم ترین نسخے عرب کے بجائے بھارت میں ملتے ہیں۔

مولانا ذوالقدر رضوی  نے کہا ہم حضرت علی کے مناقب و مضائل کو اہمیت تو دیتے ہیں لیکن ان کی تعلیمات سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ حضرت علی کی تعلیمات سے مستقبل کا لائحہ عمل ملتا ہے۔ حضرت علی نے قرآن کو بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی تلقین کی تھی لیکن ہم نے اسے بھی چھوڑ دیا اس کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان پریشان ہیں، ہم مسلمانوں کے پاس قران مجید جیسی کتاب ہے لیکن ہم اسے پڑھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی زحمت نہیں اٹھاتے۔

ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ حضرت علی نے کہا تھا کہ اگر فقر انسان ہوتا تو میں اسے قتل کر دیتا، حضرت علی نے فقر کی مذمت کی تھی، پوری دنیا میں آج جو افراط و تفریط نظر آتا ہے وہ سرمائے کی زخیرہ اندوزی اور ایک جگہ اکٹھا ہو جانا ہے، انھوں نے غلط دولت کی پالیسی کے خاتمہ کی بات کرتے ہوئے کہااتنی ترقی کے باوجود بھی دنیا فقر سے آزاد نہیں ہوئی ہے، حضرت علی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ سرمایہ کا بٹوارہ حق و انصاف کے ساتھ ہو۔

 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے آئے ڈاکٹرمحمد احمد کاظمی نے اسلامی حکومت (تعلیمات حضرت علی کی روشنی میں) موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے حضرت علی کے اقوال، مکتوبات اور بطور خلیفہِ راشد ان کے طرز عمل کی روشنی میں اسلامی حکومت کے بنیادی اصول بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد بھی اسلامی حکومت کے استحکام کی بنیادی شرط ہے۔جامعہ ہمدرد سے آئے ڈاکٹر محمد احمد نعیمی نے حضرت علی کی بارگاہ میں غیر مسلم علماء اور شعراء کا خراج عقیدت موضوع پر بولتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کے اسکالر اور شعرا حضرت علی کو خراج عقیدت پیش کرتے رہے ہیں۔پروفیسر اعجاز علی ارشد،سابق وائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونیورسٹی نے اردو شاعری میں حضرت علی کے تذکرہ پر تفصیلی گفتگو کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر لطیف حسین شاہ کاظمی نے اسلامی روحانی روایت میں حضرت علی موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امام علی کی زندگی کے مطالعہ سے اپنے اعمال کے تئیں حساسیت کا علم ہوتا ہے، امام علی کی تعلیمات روحانیت سے جوڑتی ہے جو اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ 

ان کے علاوہ ڈاکٹر سیدہ شارقۃ المولیٰ القادری، علی احمد فاطمی، سید مجتبیٰ رضوی، ڈاکٹر سید مجید اندرابی، مولانا سید مسعود اختر رضوی، مولانا سید مختار حسین جعفری، مولانا سید سیادت نقوی، سید در الحسن رضوی، پروفیسر فضل امام رضوی، ڈاکٹر سید طیب رضا نقوی، اشفاق کریم، ڈاکٹر نصیر الدین ٹی، ڈاکٹڑ عذرا عابدی، امدادالحق بختیار قاسمی وغیرہ نے بھی مقالات پیش کئے۔ 

کانفرنس کا اختتام آج 19اگست 2019  صبح 11 بجے ہوگا، جس میں عمومی اجلاس کے علاوہ متعدد اہل علم، اکابرین اور ملی قائدین کے خطاب ہوں گے، بیرونی مہمانان اور بزرگان کی تکریم کے ساتھ شعری نشست بھی ہوگی جس میں ملک و بیرون ملک کے مایہ ناز شعراء کرام اپنا کلام پیش کرکے حضرت امام عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔