غزل
شفیق شہپر
تو مرے دل سے بھاگتا کیا ہے
اس سے بہتر بتا جگہ کیا ہے
زخم سے چور ہوں بتاؤں کیا
درد سے پوچھ لو ہوا کیا ہے
بس یہی کہہ رہا ہوں برسوں سے
زندگی موت کے سوا کیا ہے
ہر طرف قدرتی مناظر ہیں
ہم کو سائنس نے دیا کیا ہے
چاند سورج زمین سیارے
سب تو پہلے سے ہیں نیا کیا ہے
ظاہری دلفریب دنیا میں
بھول بیٹھے ہیں سب فنا کیا ہے
اس نئے ہند میں وطن والو
نفرتوں کے سوا بچا کیا ہے
آؤ ہم پھر سے ایک ہوجائیں
دشمنی سے ہمیں ملا کیا ہے
جنکے چہرے پہ گرد ہے شہپر
وہ بتاتے ہیں آئینہ کیا ہے