بابری مسجدکا فیصلہ اگر سپریم کورٹ نے کیا تو فساد برپا ہوجائے گا۔ توقیر رضا خان

 

بابری مسجد کی سنوائی بڑے جور و شور کے ساتھ چل رہی ہے دونوں فریق کو امید ہے کہ فیصلہ جلد آ جائے گا پر اسی بیچ بریلوی مسلک کے مشہور عالم دین توقیر رضا خان نے پھر صلح کی بات کرکے مسئلہ کھڑا کر دیا ہے انکا کہنا ہے کہ بابری مسجد رام مندر معاملہ کا فیصلہ سپریم کورٹ نہیں کر سکتا، اور اگر فیصلہ آ بھی جائے تو دونوں فریق کے لیے بہتر نہیں ہو گا اور لوگوں کا عدلیہ سے بھروسہ اٹھ جائے گا اسی لیے صلح سے ہی اس مسئلہ کو حل کیا جانا چاہیے توقیر رضا خان نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ میں َصلح کے لیے اک پیٹیشن بھی داخل کرےگا،یہی نہں توقیر رضا خان نے یہ الزام بھی لگایا کہ مسلم پرسنل لاءبورڈ اور جمیعت علمائے ہندنے بابری مسجد معاملے کو سنجیدگی سے نہیںلیاہے اس بیان کو لیکر
مسلم پرسنل لاءبورڈ کے رکن اور مشہور ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ ‘بابری مسجد تنازع کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے اور کچھ ہی دنوں بعد فیصلہ بھی آجائے گا، ایسے میں اب بات چیت کا کوئی مطلب نہیں ہے’۔
ظفریاب جیلانی نے کہا کہ ‘ایسے وقت ثالثی کی بات کرنا نامناسب بات ہوگی کیونکہ 1992 کے بعد سے بات چیت کا عمل مسلسل جاری رہا اور اس دوران مسلم فریق سے لگاتار اس بات کا مطالبہ ہوتا رہا کہ رام مندر کروڑوں ہندوو¿ں کی ا?ستھا کا مسئلہ ہے جبکہ مسلمانوں کو بابری مسجد پر اپنے دعوے کو ترک کرنے کی بات بھی کہی جاتی رہی ہے، اس یکطرفہ مطالبہ کی وجہ سے بات چیت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی’ مسلم پرسنل لا بورڈ اپنے موقف پر اٹل ہے نہوں نے مزید کہا کہ ‘جہاں تک مولانا توقیر رضا خان بریلوی کی بات ہے تو وہ ان کا نجی مسئلہ ہے اور اب سپریم کورٹ کسی بھی حال میں سماعت کو روکنے کے موقف میں نہیں ہے’۔ظفریاب جیلانی نے کہا کہ ‘اب بات چیت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا لیکن جو جج صاحبان سماعت کر رہے ہیں ان کے ذہن پر اس طرح کی باتوں کا اثر پڑ سکتا ہے’۔انہوں نے واضح کردیا کہ مسلم پرسنل لائ بورڈ کسی بھی صورت میں بابری مسجد پر اپنے دعوے کو برقرار رکھے گا اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ہمارے لیے قابل قبول ہوگا’۔واضح رہے کہ کل مولانا توقیر رضا خاں بریلوی نے کہا تھا کہ بابری مسجد مسئلہ آپسی بات چیت کے ذریعہ حل کرنا مناسب ہوگا.آپکو بتا دیں کہ اس سے پہلے کءی بار صلح سمجھوتہ کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہیں اس سنواءی سے پہلے بھی صلح کے ذریعے ہی مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی گئی پر کچھ بات نہیں بن پائی،

SHARE