عبیدالکبیر
بھارت میں بھکاریوں کے اعداد وشمار پر مشتمل جو خبر یں آرہی ہیں ان کے حوالے سے لوگ عجیب قسم کی رائے زنی میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔خبر یہ تھی کہ ہندستان میں بھیک مانگنے والا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے گویا بھکاریوں کی کل تعداد کا پچیس فی صد حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہیں جو مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔بھکاریوں کی تعداد کا یہ تناسب بلا شبہ ہمیں غور وخوض کی دعوت دیتا ہے اور یہ مسئلہ ایسا ہے جس پر ایک با ضمیر اور غیرت مند سماج کو فوری توجہ دینی چاہئے۔بھکاریوں کی یہ تعداد کسی معمولی حالت کا نتیجہ نہیں ہے،جو لوگ بھی اس ناپسندیدہ پیشے کو اختیار کرنے پہ مجبور ہوئے ہیں ہمارے پاس ان کو روزگار فراہم کرنے کا کوئی پلان ہے بھی ؟ ہمارا متمول طبقہ جن آسائشوں میں زندگی گزار رہا ہےکیا یہ معاشی بدحالی اسی کی قیمت نہیں ہے ۔اس سلسلہ میں یہ صورت حال یقیناً انتہائی الم ناک ہے کہ آ ج بھی ہمارے سماج میں ضرورتاً یا بلا ضرورت درویزہ گری کا کاروبار کس پیمانے پر جاری ہے ۔عام طور پر جب اس قسم کے مسائل زیر بحث آتے ہیں تو مختلف انداز فکر کے لوگ اپنے اپنے حساب سے ان مسائل کا تجزیہ کرکے ان کے اسباب وعوامل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم قوم میں کچھ لوگوں کو مفت خوری کا چسکہ لگا ہوا ہے ،کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلم قوم پوری طرح سے احساس ذمہ داری کے ساتھ ناداروں کے حقوق ادانہیں کرتی وغیرہ وغیرہ۔اگر زمینی حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو مذکورہ اسباب میں کچھ نہ کچھ صداقت یقیناً پائی جائے گی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان حالات کی ذمہ داری صرف انہی اسباب وعوامل پر نہیں ہے بلکہ اس کے پس پشت کچھ تلخ اسباب اور بھی ہیں جن کی طرف عموماً دانستہ یا نادانستہ نظر نہیں کی جاتی ۔مسلم قوم کی معاشی بد حالی کے پیچھے بلا شبہ اسراف ،بخل اور ذخیرہ اندوزی کا جذبہ کار فرما ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر ہمارا خوشحال طبقہ اپنی دولت کو اسلامی تعلیمات کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے خرچ کرے تو کافی حد تک ان مسائل سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ہمارے سامنے اسلام کی حکمرانی وہ کا زمانہ ہے جس میں دولت کی منصفانہ تقسیم کا نظام رائج تھا اور حال یہ تھا کہ معاشرے میں افلاس اور غربت کا شکار لوگ ڈھونڈے سے بھی نہیں مل پاتے تھے ۔خلافت راشدہ کا تو ذکر ہی کیا اس کے بعد بھی حضرت عمر بن عبد العزیز ؒکے زمانے میں جب انھوں نے اپنے سفیر کو صدقات کا مال تقسیم کرنے کے لئے بھیجا تو ان کو کوئی مستحق ملا ہی نہیں ۔اس واقعہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب اسلام کی تعلیمات پر عمل کیا جاتا تھا اس وقت معاشرہ اقتصادی طور پر کس حالت میں تھا ۔اس حوالے سے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ کچھ دور اندیش لوگ مسلم قوم کی معاشی بد حالی کے لئے اسلام کی تعلیمات کو ذمہ دار گردانتے ہیں ۔ہمیں اس نکتہ آفرینی پر اس لئے کوئی تعجب نہیں کہ ان حضرات کا یہ عام معمول ہے کہ ان کو دنیا میں ہر بگاڑ کے پیچھے اسلام ہی کا ہاتھ نظر آتا ہے ۔مگر چونکہ یہ احباب اس قسم کے تجزیوں میں مخلص نہیں ہوتے اس لئے ان کے اقوال ہمارے لئے قابل التفات نہیں ۔ تاہم یہ سوال ان سے ضرور کیا جانا چاہئے کہ بھکاریوں کے تناسب کی یہ شرح بھارت میں ملکی پیمانے پر اگر اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ ہے تو پھر عالمی پیمانے پر ہر چوتھا شخص مسلمان ہے اس کے لئے اسلام کی تعلیمات کو کوئی کریڈٹ دینے میں کیوں تامل کیا جائے ؟چناچہ اس مآل اندیشی اور جز رسی کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
ع بریں عقل ودانش بباید گریست
معاشی بد حالی کا مسئلہ کسی بھی سماج کے لئے بجا طور پر باعث تشویش ہو نا چاہئے خصوصاً بھارت جیسے ملک میں جہاں اکثریت نوجوان نسل پر مشتمل ہے یہ مسئلہ مزید حساس ہے کہ آخر یہاں کسی کو بھیک مانگنے کی مہلت ملتی ہی کیوں ہے۔بے روزگاری کا یہ عام مسئلہ اگر چہ ہماری نظر میں ہندستانی قوم کا مسئلہ ہو نا چاہئے مگر جب اسے مختلف طبقات سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے تو اس سلسلہ میں ہمیں بھارت کے مسلمانوں کی تاریخ سے بھی صرف نظر نہیں کرنا چاہئے ۔ آزادی سے لیکر اب تک ملک میں ساٹھ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کی جان مال عزت وآبرو اور ان کی جائیداد کو لوٹا گیا ۔ان کی کھیلتی مسکراتی معیشت کو آن کی آن میں تباہ وبرباد کیا گیا اور ان کو مجموعی طور پر زندگی کے ہر میدان میں پسماندہ ترین اقلیت بناکر رکھدیا گیا ۔سچر کمیٹی کی رپورٹ سے ان چیزوں کی تائید ہوتی ہے کہ کس طرح آج بھارت کا مسلمان دلتوں سے زیادہ پسماندہ ہو چکا ہے ۔اس کے علاوہ مسلمانوں کے پھلنے پھولنے کے جو امکانات تھے انھیں بھی حتی المقدور کم سے کم کرنے کی کوشش بلکہ منظم سازشیں ہوئیں ۔آج جب مسلم ریزر ویشن کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو بعض لوگ تلملا جاتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا کسی ملک میں بسنے والے کسی کمیونٹی کی اس درگت کے لئے وہاں کی حکومتیں ذمہ دار نہیں ہیں ؟ہم بالکلیہ اس امکان کو خارج نہیں کرتے کہ مسلمانوں کی معاشی بد حالی کے لئے کسی نہ کسی درجہ میں وہ خود بھی ذمہ دار ہیں مگر سوال یہ کہ بھارت میں مسلم قوم نے ترقی کے لئے اپنا الگ راستہ نکالا ہی کب ہے وہ تو متحدہ قومیت کے دھارے سے بندھ کر ہی اپنے مسائل کا حل تلاش کرتی رہی ہے اور آج بھی کررہی ہے۔ اب یہ ذمہ داری تو جدید ہندستان کے معماروں کی تھی کہ وہ اپنا فرض منصبی نباہتے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسری اقلیتوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرتے ۔مگر بدقسمتی سے ایسا ہوا کہاں اس کے برخلاف یہاں تو اکثر وبیشتر امتیازی سلوک اپنایا گیا ۔ اگر ہم مسلمانوں کے ساتھ حکومت کے رویہ کا جائزہ لیں تواندازہ ہو گا کہ مسلم قوم کی زبوں حالی کا اصل ذمہ دار کون ہے ۔اس سلسلہ میں یہ بات واضح ہے کہ سیاست معیشت اور دیگر میدانوں میں مسلمانوں کی آبادی کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ۔سرکاری اور نیم سرکاری عہدوں پر مسلمانوں کی نمائندگی کا تناسب کیا ہے ۔ تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کو کتنا آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا گیا افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جن اداروں کو مسلم قوم نے اپنے بل بوتے پر قائم کیا تھا ان کو بھی اقلیتی ادارہ تسلیم کرنے میں کچھ لوگوں کو تامل ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر انصاف کی نظر سے ان حالات کا غیر جانب دارانہ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلم قوم کی بد حالی کے لئے ہماری حکومتوں کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں ۔اور جب صورت حا ل یہ ہے تو پھر صرف مسلم قوم کو ہدف ملامت بنا نا قرین انصاف نہ ہوگا ۔اگر ہم ان مسائل کا سنجیدہ حل چاہتے ہیں تو ہمیں یک رخا طریقہ اپنانے سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ سچ ہی کہ مسلم قوم میں تقسیم دولت کا منصفانہ طور کم ہو ا ہے مگر اس کی بدحالی صرف اسی رویہ کی رہین منت نہیں ہے ۔مسلمانوں کے اوقاف کی جاِئداد کا پھل کون کھارہا ہے ، مسلمانوں کو سرکاری میدانوں میں مناسب نمائندگی کیوں نہیں دی جاتی ۔ تعلیم اور روزگار کے لئے مذہب کو آخر کس بنیاد پر بنیاد بنایا جاتا ہے ؟ یہ اور اس قسم کے بہت سے سوالات حل طلب ہیں جن کو نظر انداز کرکے ملک کی مجموعی ترقی نہیں ہو سکتی ہمیں ان پر بھی اپنی عنان توجہ منعطف کرنی چاہئے ۔ بھارت کے یہ بھکاری کیا ہماری آبادی کا اٹوٹ حصہ نہیں ہیں آخر اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ہندستان میں گداگری کا تعلق کس قوم سے کتنا ہےجب ہر محاذ پر ہم بحیثیت انڈین متارف ہونا چاہتے ہیں تو اس ایک خاص معاملے میں یہ خصوصی امتیاز آکر کیوں برتا جائے ۔(ملت ٹائمز)