نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندوستان شروع سے مختلف تہذیبوں کا سنگم رہاہے ، مختلف قوموں اورمذاہب کے ماننے والوں کی یہ آماجگاہ رہی ہے ،یہی ہندوستان کی خوبصورتی اور شناخت بھی ہے ۔ اسی بنیاد پر شروع سے آج تک ہندوستان کو دنیا بھر میں اہمیت اور اثر ورسوخ حاصل ہے تاہم آج ہندوستان کی یہ شناخت ،خوبصورتی اور خصوصیت ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے ۔مکمل منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار اس حوالے سے مسلسل سرگرم ہے ،اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمل تک پہونچانے کیلئے اس نے یہ شوشہ چھوڑنا شروع کردیاہے کہ ہندوستان کے تمام شہری ہندو ہیں ، سب کی تہذیب اور ثقافت ہندتوہے ۔ ہندو کسی مذہب اور عقیدہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک تہذیب اور کلچر ہے اور جتنے ہندوستانی ہیں سب کی تہذیب یہی ہے ۔حال ہی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا بھی یہی بیان سرخیوں میں ہے جس میں انہوں نے مختلف تہذیب اور کلچر کے سنگم ہندوستان کے بارے میں یہ دعوی کردیا کہ سبھی کی تہذیب ایک ہے اور وہ ہندوہے ۔
موہن بھاگوت کا یہ دعوی بے بنیاد ، غلط اور حقائق کے بالکل خلاف ہے ۔ کبھی بھی تمام ہندوستانیوں کی تہذیب ایک نہیں رہی ہے ۔ تہذیب زندگی کے بارے میں نقطہ نظر کو کہتے ہیں یا زندگی کے بارے میںمفاہیم (تصورات)کا مجموعہ ہے جیسے شادی،طلاق، خرید وفروخت اور دوسرے تمام معاملات جو انسان،زندگی اور کائنات کے بارے میں کلی فکر یعنی عقیدے سے نکلتے ہیں،ان کا سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوئی تعلق نہیں،ہر امت یا قوم کا اپنی زندگی کے بارے میں ایک خاص نقطہ نظر ہو تا ہے،جیسا کہ سرمایہ دار جس نظر سے عورت کو دیکھتا ہے مسلمان عورت کو اس نظر سے نہیں دیکھتا،سرمایہ دار عورت کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ ایک خوبصورت مخلوق (یا چیز) ہے اور اس سے فائدہ اٹھا یا جاسکتا ہے،جبکہ مسلمان عورت کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ آبرو ہے اس کی حفاظت اور عزت لازمی ہے، یوں ہر امت کا اپنا ایک خاص نقطہ نظر ہو تا ہے وہ افعال اور اشیاء پر اپنے نقطہ نظر کے مطابق ہی حکم لگاتی ہے جو دوسری امتوں اور اقوام سے مختلف ہو تی ہے،اسی نقطہ نظر کی بنیاد پر ہی دنیا میں مختلف تہذیبوں کا جنم ہوا کیونکہ زندگی کے بارے میں انسانوں کے نقطہ نظر مختلف ہیں، اسی لیے کسی مسلمان کے لیے کسی اور امت کی تہذیب کو اختیار کرنا جائز نہیں اور اسلامی تہذیب کے تمام تصورات وحی ہیں اور جو چیز وحی نہیں وہ دین عقیدہ یا تہذیب نہیں۔
جبکہ تمدن محسوس ہو نے والی مادی اشکال کو کہا جاتا ہے جیسے ریل گاڑی، جہاز، کمپیوٹر،گاڑھی وغیرہ ، اس لیے تمدن کسی امت جیسے یہودی،عیسائی ، مسلمان یا ہندﺅوں کے ساتھ خاص نہیں ہو تاہے،بلکہ تمدن میں تمام امتیں ایک دوسرے کی محتاج ہو تی ہیں ایک دوسرے کے ایجادات سے فائدہ اٹھاتی ہیں،سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے استفادہ کرتی ہیں،اسلام نے تمدن کو کسی بھی مصدر اور ذریعے سے حاصل کرنے کی اجازت دی ہے ،اس کا کسی دین یا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ،اس میں تمام انسانوں کی محنت شامل ہے خواہ وہ موجود انسان ہیں یا سابقہ اور چاہے مسلمان ہیں یا غیر مسلم۔
تہذیب اور تمدن کے درمیان اس واضح فرق کو ذہن نشیں کرلینے کے بعد ہم موہن بھاگوت کے بیان اور آر ایس ایس کے ایجنڈا کا جائزہ لیتے ہیں ۔جنوبی ہندوستان کے باشندوں کی تہذیب شرو ع سے الگ ہے ،ان کے یہاں شادی بیاہ ، خریدوفروخت اور دیگر معاملات کا طریقہ الگ ہے ، شمالی ہندوستان کے میں شادی بیاہ اور دیگر امور کا طریقہ الگ ہے ۔ آسام والوں کی زندگی کا انداز الگ ہے ۔ بنگالی عوام کے کھانے پینے ،رہنے سہنے او رشادی بیاہ کا طریقہ دوسروں سے مختلف ہے ،اس کے علاوہ متعدد علاقوں اور خطوں میں زندگی جینے کا انداز ایک دوسرے منفرد ہے ۔ مذہبی نقطہ نظر سے بھی یہاں شدید اختلاف ہے ۔ مسلمانوں کے درمیان شادی بیاہ ، طلاق ، لین دین ، کھانا پینااور دیگر چیزیں اوروں سے مختلف اور اسلامی شریعت کے مطابق ہوتی ہے ۔ سکھوں کے یہاں ان چیزوں کا طریقہ الگ ہے ۔ جین مت ،بدھ مت اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا طریقہ الگ ہے ۔ ہندومت کے درمیان مختلف سماج اور طبقات ہیں جن کے یہاں شاد ی بیاہ کی رسم وراج میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ایک محلہ اور گاﺅں ہونے کے باوجود ہندوسماج سے تعلق رکھنے والوں کے یہاں شادی کا طریقہ مختلف ہوتاہے اور مسلمانوں کے یہاں شادی اور زندگی جینے کا طریقہ الگ ہوتاہے ان سب کے باوجود یہ دعوی کرنا کہ تمام ہندوستانیوں کی تہذیب ایک ہے سراسر مضحکہ خیز ،بے بنیاد اور سفید جھوٹ ہے ۔ تمدن کے حوالے یہ دعوی درست ہے کہ سبھی ہندوستانیوں کاایک ہے ، جیسے تاج محل سبھی ہندوستانیوں اور پوری دینا کیلئے محبت کی علامت ہے ،سبھی اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔موبائل کا موجد عیسائی ہے یا مسلمان اس قطع نظر وہ سبھی کی ضرورت ہے اور یہی چیزیں تمدن ہیں ۔
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت ہندو کو ایک تہذیب بتارہے ہیں جبکہ یہ ایک مذہب ہے ۔ شروع میں یہ سناتن دھرم تھا ، بعد میں ہندومت کے نام سے جاناجانے لگا ،اب ہندو مت ایک دھرم اور مذہب ہے ،اس کی مذہبی کتابیں ،ان کا عقیدہ ہے ،اس مذہب کی ایک تہذیب ہے ۔ ان کی عبادت گاہیں ہیں، اس کے ماننے والوں کی زندگی گزار نے کا انداز منفرد ہے۔ اس لئے اس کو مذہب کے بجائے محض تہذیب کہنا سراسر غلط اور بے بنیاد ہے ۔مذہب اور تہذیب کے درمیان گہرا رشتہ بھی پایاجاتاہے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کی اس مذہب سے وابستہ تہذیب ہے ۔
آر ایس ایس کا بنیادی ایجنڈا ہندتوا کا فروغ اور ہندو مذہب کی تشہیر ہے ، اس کے عزائم میں سر فہرست ہندوستان کو ہند وراشٹر بنانا اور تمام شہریوں کو ہندو مذہب سے جوڑناہے ۔ہندوستان کے آئین پر آر ایس ایس کو کبھی بھروسہ نہیں رہااور نہ ہی اس نے اسے تسلیم کیاہے ۔ ہندوستان کی آزادی میں آر ایس ایس کا کبھی کوئی رول نہیں رہا ، انگریزں کیلئے یہ جاسوسی کرتے تھے ،مجاہد ین آزادی کو یہ اپنا دشمن مانتے ہیں، جن لوگوں نے ملک کو آزاد کرایا ، ہندوستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنایا انہیں یہ ملک دشمن قرار دے رہے ہیں ۔ مہاتماگاندھی کا قتل اسی تنظیم کے ایک رکن ناتھورام گوڈسے نے کیاتھا جس کی آر ایس ایس نے کبھی بھی مذمت نہیں کی او راب تو گوڈسے کو دیش بھکت کہاجانے لگاہے ممکن ہے جس طرح آج ساوکر کیلئے بھارت رتن کی تجویز پیش کی جارہی ہے کل ہوکر گوڈ سے کو بھی ملک کا یہ سب سے اعلی شہری اعزاز دے دیا جائے ۔ آر ایس ایس کا بنیادی ایجنڈا ہندو راشٹر کا قیام ہے ۔اسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کیلئے آر ایس ہندو مت کو ایک مذہب کے بجائے ایک تہذیب قرار دے رہی ہے اور تمام ہندوستانیوں کو اسے جوڑ رہی ہے تاکہ ہندو راشٹر کا راستہ صاف ہوجائے ، اس مشن اور مقصد پر کوئی اعتراض نہ کیاجائے ،کوئی اس پر سوال نہ اٹھائے اور ملک ایک سیکولر اسٹیٹ کے بجائے مذہبی ریاست میں تبدیل ہوجائے ۔
یہاں یہ جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ دنیا میں سیکولر اسٹیٹ زیادہ کامیاب ہیں یہ مذہبی ریاستیں ۔ تجزیہ بتاتاہے کہ جن ملکوں کی بنیاد سیکولرزم اور جمہوریت پر ہے وہاں ترقی ہورہی ہے ،ان ملکوں میں عوام کو مکمل آزادی اور خود مختاری حاصل ہے دوسری جن ملکوں کی بنیاد میں مذہب شام ہے وہ زوال پذیر ہیں اور دنیا بھر میں انہیں رسوائی کا سامنا کرناپڑرہاہے ۔ عصر میں جمہوریت ہے سب سے پسندیدہ طرزحکمرانی ہے ۔ ہندوستان کی بھلائی اور کامیابی بھی اسی میں ہے کہ اس کا سیکولرمقام برقرار رہے ،جمہوریت قائم رہے ،تمام مذاہب کو یکساں حیثیت حاصل رہے ۔
آر ایس ایس کو یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ اگر ہندو ایک تہذیب کا نام ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تو پھر اس مذہب کا نا م کیا ہے جس سے خود کو جوڑتے ہیں ، دلتوںکے بارے میں کیوں کہتے ہیں کہ وہ ہندو ہیں ۔ آدی واسی سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑرہے ہیں کہ ہمیں ہندو مذہب میں شامل نہیں کیا جائے ۔اگر آر ایس ایس کا یہ دعوی ہے کہ ہندومذہب نہیں ہے بلکہ یہ تہذیب ہے اور اس میں سکھ ،عیسائی اور مسلمان سبھی شامل ہیں تو پھر وہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف مذہب کی بنیاد پر نفرت کی مہم کیوں چلاتی ہے؟ ، ہندومسلمان کی بات کیوں کرتی ہے؟ ،کیوں پورے ہندوستانیوں کی بات نہیں کرتی ہے؟ ۔حال ہی میں بی جے پی نے کہاہے کہ ہم سٹیزن شپ ترمیمی بل لارہے ہیں جس میں مسلمانوں کے علاوہ پڑوسی ملکوں سے تعلق رکھنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو شہریت دئے جانے کا اختیار حاصل ہوگا سوال یہ ہے کہ اگر آر ایس ایس تمام ہندوستانیوں کو ایک مانتی ہے تو پھریہ تفریق کیوں؟۔ مسلمانوں کو شہریت بل میں شامل کیوں نہیں کیا جارہاہے ؟ ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد میں مسلمانوں پر حملہ کیوں ہورہاہے ؟۔ جب مسلمانوں کے خلاف حملہ ہوتاہے ۔ ان کے خلاف تشدد ہوتاہے تو اس وقت آر ایس ایس یہ کیوں نہیں کہتی ہے کہ سبھی ایک ہیں ، سب کے سب ہندو ہیں ،ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے ،ان پر حملہ کرنا غلط ہے ۔سچائی یہ ہے کہ آر ایس ایس کے ایجنڈا ،منصوبہ اور جس چیز کا وہ اظہار کررہے ہیں اس کے درمیان واضح تضاد ہے ۔ آر ایس ایس کی باتوں میں حقائق کی خلاف ورزی ہے ۔ ہندو ایک مذہب ہے ۔ تمام ہندوستانیوں کی تہذیب نہ کبھی ایک تھی اور نہ آئند ہ ایسا ممکن ہے ۔ ہندوستان کی خصوصیت یہی ہے کہ یہاں ایک ساتھ مختلف تہذیب اور الگ الگ مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں ۔
(مضمو ن نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)