(لکھنوسے ملت ٹائمز کے خصوصی نمائندے کی رپورٹ)
ندوة العلماء میں کئی روز سے جاری معاملے میں اس وقت ایک نیا موڑ آگیا، جب مولانا سلمان ندوی نے “خوشخبری” کے عنوان سے ایک بیان جاری کیا. مولانا کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ رجوع نامہ ہے اور اب سارے مسائل ختم ہوگئے ہیں، جب کہ اکثر اہل علم اور وابستگان ندوہ اس عجیب و غریب تحریر کو پڑھ کر حیرت میں مبتلا ہیں. ان کا کہنا ہے کہ یہ تحریر رجوع نامہ نہیں، بلکہ اپنے عقائد کا توثیق نامہ ہے. اس کے ایک لفظ سے بھی ایسا محسوس نہیں ہورہا ہے کہ مولانا اپنے غلط عقائد سے رجوع کر رہے ہیں. انھوں نے اپنی تحریر میں قرآن کریم کی جس آیت کا حوالہ دیا ہے، اس سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ ان کا دل ان کے غلط عقائد پر پوری طرح مطمئن ہے. ساتھ ہی اس خط میں مولانا سلمان ندوی نے ناظم ندوة العلماء اور اپنے مرشد و مربی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے. انھوں نے لکھا ہے کہ آپ قیامت کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم، حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین سے کہہ دیجیے گا کہ میں نے ہی سلمان کو صحیح عقائد سے دست بردار ہونے کو کہا تھا.
https://www.facebook.com/148892475184774/photos/a.476123409128344/3111495732257752/?type=3&theater
اس عجیب و غریب رجوع نامے سے مسئلہ ختم ہوتا تو نظر نہیں آرہا ہے، البتہ یہ بات طے ہوگئی ہے کہ مولانا سلمان ندوی اپنے باطل عقائد سے رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہیں. ساتھ ہی وہ ایک ماہ کی رخصت علالت پر بھی چلے گئے ہیں.
دوسری طرف یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے کہ ندوہ کے مہتمم مولانا سعید الرحمان اعظمی ندوی نے مولانا سلمان ندوی کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ کسی نامعلوم وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ سلمان ندوی ندوہ ہی میں رہیں. واضح رہے کہ سلمان ندوی صاحب کئی مرتبہ اس بات کا مطالبہ کرچکے ہیں کہ مولانا رابع حسنی ندوی کی جگہ مولانا سعید الرحمان اعظمی کو ناظم بنا دیا جائے اور مولانا اعظمی نے اب تک اس مطالبے کے خلاف اپنا کوئی تاثر بھی ظاہر نہیں کیا ہے. حالاں کہ مولانا رابع حسنی ان کے استاد و مرشد بھی ہیں. ان قرائن سے محسوس ہوتا ہے کہ استعفیٰ نہ قبول کرنے والی بات درست ہوسکتی ہے. لیکن بعض باوثوق ذرائع سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ سلمان ندوی نے اب تک استعفیٰ نہیں دیا ہے. بہر حال مولانا سعید الرحمان ندوی کا موقف اب تک واضح نہیں ہے، جس سے پورے حلقے میں تشویش پائی جا رہی ہے اور لوگوں کو مہتمم ندوة العلماءکے واضح موقف کا انتظار ہے۔






